معیشت اور قومی سلامتی کا باہمی ربط
عالمی سطح پر رسائی، اثرو رسوخ کے باعث منظم جرائم اب کم و بیش تمام ہی اقوام کو متاثر کررہے ہیں۔
FAISALABAD:
ملکی استحکام کا عسکری قوت سے براہ راست تعلق ہے یا سادہ انداز میں کہیں تو معیشت اور دفاع ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ سیاسی استحکام، مضبوط دفاع اور قیام امن کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ لوگ محفوظ ہوں گے تبھی معیشت بھی نمو پائے گی۔ معیشت پُرامن حالات میں پروان چڑھتی ہے، جب کہ پائیدار معاشی ترقی اور علاقائی و عالمی معیشت میں جگہ بنانے کے لیے قومی سلامتی اوّلین شرط ہے۔
امن و امان قائم نہ ہو تو انتشار اور ابہام کے ساتھ تشدد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور پھر یہ بدامنی کاروبار میں تبدیل ہوجاتی ہے، یہ اپنے مالی وسائل کے لیے (اسمگلنگ، منشیات کا کاروبار، لینڈ مافیا، بھتہ خوری اور تاوان وغیرہ کے ذریعے) اپنی الگ معیشت پیدا کرلیتی ہے۔آج کی دنیا میں مستحکم معیشت غیر معمولی عسکری قوت کے مترادف ہے اور اسی طرح کمزور معیشت کمزور دفاعی قوت کے ہم معنی۔
معیشت اور قومی سلامتی سے متعلق ریاست کا کردار اہم ترین ہے۔اگر ریاست کسی بھی سبب کمزور ہو اور ادارے اپنی ذمے داریوں کی انجام دہی میں ناکام ہوں یا بدعنوانی کا شکار ہوجائیںتو معیشت اور قومی سلامتی پر سمجھوتے ہوتے ہیں اور لاقانونیت سراٹھاتی ہے۔
کمزور معیشت کے کچھ اسباب یہ ہیں: بڑا مالیاتی خسارہ، معیشت کی سست شرح نمو، اخراجات میں اضافہ، اخراجات پورے کرنے کے لیے حاصل کردہ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، حکومتی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے وسائل کے استعمال کی بلند شرح، ٹیکس کی چوری یا ادائیگی سے گریز کی بلند شرح، بیروزگاری اور افراط زر کی زیادہ شرح، کمزور سیاسی ادارے وغیرہ۔ موجودہ صورت حال میں پاکستانی معیشت کو بنیادی چیلنجز کا سامنا ہے اور معاشی سلامتی بھی خدشات کے گھیرے میں ہے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، خصوصاً پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔ ملک میں غیر یقینی کی جاری صورت حال کے باعث ماضی میں کئی مرتبہ بیرونی سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کی شرح اوسطاً سالانہ ایک بلین امریکی ڈالر رہی ہے۔ طویل مدت بعد گزشتہ برس جولائی سے دسمبر تک اس میں دس فیصد بہتری آئی اور سرمایہ کاری ایک بلین ڈالر کی سطح سے آگے بڑھے۔ لیکن ''ادائیگیوں کا توازن''اور صنعتی پیداوارمیں اضافہ ناگزیر ہوچکا ہے۔
پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، اس میں قانونی ذرایع سے بیرون ملک سے ہونے والی ترسیلات زر پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ آج پاکستان کی معاشی نمو اور معاشی سلامتی کو بنیادی نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی شرح گر رہی ہے، صارفیت کی بنیاد پر ہونے والی نمو حالیہ انتہائی کم معاشی شرح نمو برقرار رکھنے کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سی پیک کے ذریعے چین انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے، یہ منصوبہ پاکستان اور خطے کی تقدیر بدل دے گا۔ سی پیک چینی صوبے سینکیانگ کو گودار بندر گاہ سے جوڑ دے گا۔ یہ محض ایک راہ داری نہیں بلکہ پاکستان میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر و ترقی اور دوممالک کے مابین معاشی روابط کو مستحکم کرنے کا ہمہ جہت منصوبہ ہے۔
سی پیک کے منصوبوں کی مجموعی قدر 62بلین ڈالر کے قریب ہے، بڑے پیمانے پر ہونے والی اس سرمایہ کاری کے پاکستانی معیشت پر اثرات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 2030ء تک سی پیک سے سات لاکھ براہ راست ملازمت کے مواقع پیدا ہونا متوقع ہیں، اور پاکستانی کی سالانہ شرح نمو میں دو سے ڈھائی فیصد اضافے کی بھی توقع کی جارہی ہے۔
سی پیک کے ذریعے پاکستان کی معیشت اور خطے میں اس کے کردار کی بڑی سطح پر تشکیل نو ہوگی اور اس کے امکانات بہت واضح ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی کا سنگ بنیاد بننے والا یہ منصوبہ غربت و افلاس میں مبتلا عوام کے حالات میں بہتری کے امکانات رکھتا ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی کے 12منصوبے ممکنہ طور پر 5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے۔
نیشنل گرڈ میں یہ بجلی شامل ہونے کے بعد صنعتی اور زرعی پیداوار کو فروغ ملے گا۔ سیکیورٹی چیلنجز کسی بھی ملک کی اہمیت اور جیو اسٹرٹیجک حالات میں اس کے متعلق ہونے کے حوالے سے پیمانے کا کام بھی دیتے ہیں۔علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پراپیگنڈے کا آغاز کردیا ہے۔
بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کی مہم کا آغاز کرچکا۔ پاکستان کے زیر حراست ''را'' کا سنییئر افسر اور بھارتی نیوی کاکمانڈر کلبھوشن جادیو بلوچستان کو دہشتگردی کا مرکز بنانے کے لیے ایران، بلوچستان اور افغانستان کے مابین اپنی نقل وحرکت کے بارے میں اعترافات کرکے اس منصوبے کو سامنے لاچکا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر الزام دھرنے کے لیے بھارت مسلسل اپنے ہی فوجیوں کو قتل کرنے کے لیے حملوں کا ڈرامہ رچاتا رہا ہے۔
معاشی طور پر ملک کو مفلوج کرنے کے لیے افواہوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کمپین، کرنسی مارکیٹ میں چال بازی اور اسٹاک وغیر جیسے ذرایع سے معیشت کے لیے چیلنجز کھڑے کیے جارہے ہیں۔
اقتصادی عالم گیریت کے تمام فوائد کے باوجود سلامتی پر اس کے اثرات خدشات کو جنم دیتے ہیں۔ مختلف ممالک کی معیشت کا بڑھتا ہوا باہمی انحصار سرحد پار فروغ پاتی تجارت، بین الاقوامی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے تیز ترین پھیلاؤ ، منظم جرائم کی متنوع اشکال، عالمی حالات اور میکرو اکنامک تناسب کا نتیجہ ہے۔مافیاز اب بین الاقوامی مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بالخصوص غریب اور تنازعات میں گھرے ممالک کی سلامتی کے لیے یہ بہت بڑا خطرہ ہیں۔
عالمی سطح پر رسائی، اثرو رسوخ کے باعث منظم جرائم اب کم و بیش تمام ہی اقوام کو متاثر کررہے ہیں۔ سرحد پار جرائم اور بین الاقوامی دہشت گردی کا انحصار مالیاتی فراڈ کے ذریعے حاصل ہونے والے غیر قانونی وسائل پر ہے۔ یہ شیطانی چکر غیر قانونی ذرایع اور منظم جرائم سے حاصل ہونے والی دولت کو سفید دھن میں تبدیل کرکے پورا ہوتا ہے۔ جس کے بعد بری طرز حکمرانی، بدعنوانی، اختیارات کے غلط استعمال اور (وسائل کے انتظامات کا) احتساب نہ ہونے جیسے عوامل ریاست کی کم زوری کا باعث بنتے ہیں۔
معیشت قومی سلامتی کا ایک اہم ترین ستون ہے اس لیے ترجیحات میں اسے اولیت دینا ناگزیر ہے۔ مستحکم معاشی قوت قومی سلامتی کی ضامن ہے، اسٹرٹیجک ماہرین کے مطابق اس کے لیے صرف عسکری ذرایع پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، معیشت کی ترقی ہی اسے ناقابل تسخیر بنا سکتی ہے۔ جب کہ کم زور معیشت کے ساتھ قومی سلامتی کا تحفظ فوجی قوت کے باوجود ممکن نہیں رہتا۔
سوویت یونین سامنے کی مثال ہے، تمام تر عسکری طاقت اور ہتھیار ہونے کے باوجود جسے سرد جنگ کے دوران میدان میں نہیں بلکہ منڈی میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جب تک معاشی عملیت پسندانہ اقتصادی پالیسی سازی، انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات، تعلیم و صحت اور انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے درست سمت میں اقدامات نہیں کیے جاتے پاکستان کو ریاست کی بقا کے لیے غیر معمولی مسائل کا سامنا رہے گا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)