یہ بھی تو ظلم ہے
کمزور و مظلوم اسی طرح مارے جاتے ہیں، جیسے کربلا میں شہید کیے گئے تھے اور ظالم اسی طرح دندناتے پھرتے ہیں،
لاہور:
واقعہ کربلا کیا ہے؟ یہ تو کم و بیش ہر مسلمان جانتا ہے۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ایک جانب ظالم اور دوسری جانب مظلوم تھے۔ ایک جانب طاقتور اور دوسری جانب کمزور تھے۔ طاقتور نے طاقت کے نشے میں آکر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے خاندان کے اٖفراد سمیت ظالمانہ طریقے سے شہید کیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ شہادت کا عظیم مرتبہ پاگئے، لیکن ان پر ہونے والا ظلم دنیا صدیوں بعد بھی بھلا نہیں پائی۔
آج بھی مسلمان جہاں ایک طرف سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ڈٹ جانے کی مثالیں دیتے ہیں، وہیں ان کو شہید کرنے والے ظالموں کو بھی بدترین القابات سے نوازا جاتا ہے۔ جہاں ہر لیڈر اپنے جلسے میں کھڑے ہوکر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی حق گوئی کی مثالیں دیتا ہے، وہیں ان پر ظلم کرنے والے لشکر یزید کو سفاک اور جابر قرار دیا جاتا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی محبت میں یہ جذبات ہونے بھی چاہیے، کیونکہ ان کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔
تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر ہونے والے مظالم کی مذمت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ آج جگہ جگہ ہونے والے مظالم پر بھی آواز بلند کی جائے ، خاموشی اختیار کرنے کی بجائے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وبربریت پر عالمی ضمیر کو جھنجوڑنا وقت کا تقاضہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مظلوموں پر ظلم ہوتا ہے، لیکن کوئی نہ تو ظلم کے خلاف اٹھتا ہے اور نہ ہی آواز اٹھاتا ہے اور نہ ہی مظلوم کا ساتھ دینے کو تیار ہوتا ہے، حالانکہ ظلم تو ظلم ہے، چاہے کسی بھی دور میں اور کہیں بھی ہو۔
ہر کوئی صرف خود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ کسی کمزور پر مصیبت آئے توکوئی اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کمزور و مظلوم اسی طرح مارے جاتے ہیں، جیسے کربلا میں شہید کیے گئے تھے اور ظالم اسی طرح دندناتے پھرتے ہیں، جس طرح لشکر یزید شہادت حسین کے بعد دندناتے پھرتے رہے۔ ایک کمزور نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک ظالموں کے ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ کمزوروں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہے۔
طاقتور افراد ہوں یا اقوام کمزور کو نہ صرف دبا کر رکھنا چاہتے ہیں، بلکہ ان کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ایک محلے سے لے کر ممالک تک یہی کچھ ہورہا ہے۔ جس طرح ہمارے سماج میں کبھی وڈیرے، جاگیردار، بڑے زمیندار، ایم این ایز، ایم پی ایز، وزیر، طاقتور، بااثر افراد غریب اور کمزور کو جب اور جہاں چاہیں، ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ گھریلو ملازمین بچوں کو قتل تک کردیا جاتا ہے۔ کام کرنے سے انکار پر مزارع کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ غریبوں پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ کسی غریب کی زمین پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔
غریب کی بیٹیوں تک کو اغوا کرلیا جاتا ہے۔ زبردستی شادی سے انکار پر غریب کی بیٹی کو گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔ دشمنی نکالنے کے لیے غریبوں کو قتل کرکے انھیں ہی جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ پولیس بااثر افراد کے کہنے پر جس پر چاہے جھوٹے مقدمات بنادیتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی معاشرے میں ہوتا ہے، لیکن کسی ظالم کو سزا نہیں دی جاتی۔ سزا ملتی ہے تو بے چارے کمزور اور غریب کو۔ کوئی غریب اور کمزور پر ہونے والے مظالم پر بات نہیں کرتا، کمزور کا ساتھ نہیں دیتا۔
اس معاشرے میں گلی گلی میں کمزور طاقتور سے پٹ رہا ہے اور برسوں سے پٹ رہا ہے، لیکن کمزورکا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ غریب پر مظالم کے وقت سب اسی طرح خاموش ہوجاتے ہیں، جس طرح کوفہ والے خاموش ہوگئے تھے۔ ظلم جہاں بھی ہو، مظلوم کے لیے وہ کربلا ہی ہوتا ہے اور آج بھی مظلوم کربلا میں جی رہا ہے اور طاقتور ظالم کربلا برپا کیے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ہمارے سماج کی حد تک نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا اسی منافقت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ساری دنیا کے سامنے بدترین مظالم ہورہے ہیں۔ ان مظالم کو صرف سوچ کر ہی ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ان پر ہونے والے مظالم کا صرف تصور ہی انسان کے رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ان پر انسانیت سوز مظالم کیے جارہے ہیں، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ان کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ مساجد، مدارس اور بستیوں کو آگ لگائی جارہی ہے۔
انسانوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔خواتین کی عصمت دری کرکے قتل کیا جارہا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کو زندہ دفنایا جارہا ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہر وہ ظلم کیا جارہا ہے، جو کیا جاسکتا ہے اور یہ مظالم ان پر برسوں سے ہورہے ہیں، وہ اسی طرح در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، کوئی ان کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ برما میں رہتے ہیں تو دہشتگرد بدھسٹوں، برمی فوج اور پولیس کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں اور اگر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں توکبھی سمندروں میں ڈوب کر مر جاتے ہیں تو کبھی جنگلوں میں بھوکے پیاسے موت کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔
اگر کسی طرح کسی دوسرے ملک میں پہنچ جاتے ہیں تو ایک طرف بنگلادیش میں انھیں بھوک، پیاس، بیماریوں، ذلت اور رسوائی کے ساتھ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا پڑتی ہے اور دوسری طرف بھارت بھی ان کو اپنے ملک سے نکالنے پر تل جاتا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کہ وہ صرف موت کا انتظار کریں اور انتخاب کریں کہ سب سے آسان موت گولی لگنے سے ہوتی ہے یا جلائے جانے سے، کلہاڑیوں کے وار سے ہوتی ہے یا سنگسار کرنے سے، گہرے دریا میں پھینک کر ڈوبنے سے ہوتی ہے یا گہرا گڑھا کھود کر زندہ دفن کرنے سے۔
اجتماعی زیادتی کے بعد چاقوؤں کے وار سے ہوتی ہے یا خوف سے جنگلوں میں بھاگ کر بھوکے پیاسے مرنے سے یا بارودی سرنگوں سے ٹکرانے سے، مرنے کے لیے جو طریقہ آسان لگتا ہے، اس کو اپناتے ہوئے موت کو گلے لگالیں، کیونکہ ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ ساری دنیا کے سامنے ظلم ہورہا ہے اور 2017 میں مسلسل ہورہا ہے، جس دور میں جانوروں کے تحفظ کے لیے بھی کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، لیکن انسان محفوظ نہیں ہے۔
دنیا میں انسانی حقوق کی اتنی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ان مظالم کے خلاف کھل کر میدان میں آئے۔ کسی ملک میں اتنی حمیت نہیں کہ برمی فوج کو لگام دے سکے۔ اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کو صرف دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دے کر خاموش ہوجاتی ہے اور عالمی برادری یہ مظالم رکوانے میں بری طرح ناکام ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آ رہی ہیں۔ دنیا میں پانچ درجن کے قریب مسلم ممالک ہیں، ان کی ایک نمایندہ تنظیم او آئی سی بھی ہے، چالیس سے زاید مسلم ممالک کی ایک فوج بھی ہے، لیکن سب خاموش ہیں۔
کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روک لے۔ کتنے دنوں سے وہ بے چارے تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہیں، لیکن کوئی ان کو اس سے نجات دلانے کی سعی تک نہیں کر رہا۔ آج ان مظالم پر خاموش رہنے والے عملی طور پر اسی طرح برمی دہشتگردوں کا ساتھ دے رہے ہیں، جس طرح کوفیوں نے خاموش رہ کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل مظالم لشکر کا ساتھ دیا تھا۔