صرف چند سیکنڈ
وہ اللہ پاک جو مکمل ذات ہے اور مکمل اختیار رکھتا ہے صرف چند سیکنڈز میں ہمیں ہماری اوقات یاد دلا دیتا ہے
کبھی ہم سوچتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں، بولتے کچھ اور ہیں اور لکھتے کچھ اور ہیں، اپنے آپ کے تضادات بھی انسان کو دوغلا بنا دیتے ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں ہر شخص بھاگا جا رہا ہے، کچھ کے مقاصد ہیں اور کچھ بس بے بس! مگر دوڑنا ہی ٹھہرا تو دوڑے جاؤ ،دوڑے جاؤ۔ مگر زندگی کے اپنے بھی کچھ اصول ہیں۔ جو ہمیں اس دنیا میں بھیجتا ہے آخر اس نے بھی تو ہمارے لیے کچھ سوچ کر بھیجا ہوگا۔
کچھ اختیارات بھی ہمارے پاس ہیں، مگر زندہ رہنے کا، مرنا اختیار میں نہیں۔ یہ جو کچھ اختیارات انسان اپنے پاس لے کر اس دنیا میں تشریف لاتا ہے، دیکھیے ان ہی کچھ اختیارات کی وجہ سے وہ کیسے کیسے ہنگامے برپا کرتا ہے، کبھی وہ ایدھی بن جاتا ہے، کبھی چنگیز خان، کبھی ملک ناروے بن جاتے ہیں، کبھی میانمار۔ سوچیں اگر اللہ پاک انسانوں کو مکمل اختیارات عطا فرماتا تو آج کوئی بھی انسان اس زمین پر نہیں ہوتا۔ سب ایک دوسرے ہی کو کھا جاتے، مگر یہ کچھ اختیارات ہی ہیں جو شاید ابھی تک اس دنیا کا نظام چل رہا ہے۔
وہ اللہ پاک جو مکمل ذات ہے اور مکمل اختیار رکھتا ہے صرف چند سیکنڈز میں ہمیں ہماری اوقات یاد دلا دیتا ہے، خطرناک قسم کا اسلحہ، خطرناک ترین قسم کے بم، صرف چند سیکنڈ کے زلزلے کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں، بڑی بڑی بلڈنگیں زمین بوس ہوجاتی ہیں، سمندر غائب ہوجاتا ہے، صحرا سمندر بن جاتا ہے کہ صرف چند سیکنڈ میں ہی ایک ایسا نقشہ وجود میں آجاتا ہے جو کبھی ہوتا ہی نہیں ہے، سمندر میں سونامی ایسے نمودار ہوتا ہے گویا جیسے الٰہ دین کا جن اور صرف چند سیکنڈ میں تمام خوبصورتیاں ، تمام رعنائیاں زمیں میں دفن ہوجاتی ہیں کہ صرف گندگی، غلاظت ہی رہ جاتی ہے اور پوری دنیا کے لیے، سمجھنے والوں کے لیے عبرت۔
تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں، ہمارے پاس تو موئن جو دڑو ہے، ہڑپہ ہے، ٹیکسلا ہے، کوئٹہ بھی مثال ہے۔ 2005 کا زلزلہ کسے یاد نہیں اور کون بھول سکتا ہے؟ ابھی حال ہی میں کئی سمندری طوفانوں نے امریکا میں ہلچل مچادی۔ انسان کئی سال کی پلاننگ کرتا ہے، اچھائی کے لیے بھی اور برائی کے لیے بھی، کئی سال کے بعد نتیجہ اس کو ملتا ہے اچھائی کا بھی اور برائی کا بھی، فرق اتنا ہے کہ اچھائی کا نتیجہ نہ صرف اس کے لیے قابل فخر ہوتا ہے بلکہ ہزاروں، لاکھوں افراد اس کی اچھائیوں سے مستفید ہوتے ہیں، اسی طرح برائی کا نتیجہ بھی نہ صرف اس کو عبرت کا باعث بناتا ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں افراد بھی اس کی کم بختی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ آرمی اسکول پشاور، معصوم بچوں کا قتل سنگین ترین دہشت گردی کوئی نہیں بھول سکتا ہے۔
وہ والدین جنھوں نے اپنی زندگیوں کو کھویا، جنھوں نے اپنے گھر کے چراغوں کو بجھتے ہوئے دیکھا، رہتی دنیا تک یہ غم زندہ رہے گا ان والدین میں بھی اور پوری قوم میں بھی۔ دہشت گردی کی وبا کو ہمارے اپنے ہی مفاد پرست ٹولے نے بہت مضبوط کیا۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر بے تحاشا فنڈنگ حاصل کرکے اپنے ہی ملک کی بنیادوں کو کمزور کیا اور کر رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان کے بڑھتے ہوئے برائی کی طرف قدم روکے جا رہے ہیں، ان کو پاکستان میں فرعون بننے سے روکا جا رہا ہے، ان کو اس ملک کو لوٹنے سے روکا جا رہا ہے۔
جس ملک کو اللہ پاک نے بے تحاشا رحمتوں سے نوازا ہے۔ جہاں معدنیات کی دولت ہے، جہاں خوبصورتی کے نظارے ہیں، ایسے عالیشان ملک کو آگ میں جھونک دینا کہاں کا انصاف ہے؟ مگر عدل و انصاف کی بات اگر ہم سمجھتے تو یہاں تک پہنچتے ہی کیوں، ہم نے صرف اپنی ذات، اپنی عزت، اپنا کاروبار، اپنا گھر اور اپنی اولاد کا سوچا، بے حساب فلاحی ادارے اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں، گھر کے سامنے پڑا ہوا کچرا نظر نہیں آتا، گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں پر آتے جاتے نظر پڑتی ہے، مگر صفائی نصف ایمان ہے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، سمجھ میں آتا ہے تو صرف یہ کہ کہاں سے کتنا مال مل سکتا ہے۔
باہر ممالک کے زیادہ سے زیادہ دورے، باہرممالک سے زیادہ خریداری، کم بختی بن گئی ہے، حرص و لالچ بہنے لگی ہے خون میں روانی سے۔ تعلیم و تربیت کا فقدان تو پہلے سے چلا آرہا تھا، اب ایسا بڑھا ہے کہ پچھلے، موجودہ اور آنے والے سب کے سب زمانے کی چال کے نظر ہوتے جاتے ہیں، نہ ہماری کوئی سوچ رہی نہ بردباری کا لیول۔ عجیب دوراہے سے ہم سب اور شاید پوری دنیا بھی گزر رہی ہے، مگر جہاں جہاں معاملات کو، ایشوز کو دبانے کا عمل ہوگا، وہاں وہاں زیادہ گمراہی اور بغاوت ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ضیاالحق کے دور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا کچھ نہ ہوا، اسلامی انصاف غائب مگر اسلامی سزائیں دی گئیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حال یہ تھا کہ ٹی وی ڈراموں میں سوتی ہوئی اداکارہ بھی حجاب کرکے سوتی تھی، سزاؤں میں کوڑوں کی سزائیں دی گئیں، منشیات کی اسمگلنگ زیادہ سے زیادہ ہوئی، گولی کا کلچر، اسلحے کا کلچر پروان چڑھا، زبردستی کیا کسی کو سچا مسلمان بنایا جاسکتا ہے۔ سارے تجربے کرکے دیکھ لیا گیا، وہ تجربہ بھی جن پر قرآن میں واضح ہدایت موجود ہے، ایک انسان عقل کل نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ انسان ہے۔
تخلیق ہے، کئی سال تک زندہ لوگوں کو زندہ سوچوں کو ضیا الحق کے زمانے میں دبایا گیا۔ افغانستان جنگ میں جس طرح پاکستان کا کردار تھا اور جس طرح پالیسیاں تھیں، اس ملک پاکستان کو کہیں بہترین طریقے سے مضبوط کیا جاسکتا ہے، مگر کمزوریوں کو ہوا ملی، منفی سوچوں کو ہوا ملی، کئی اعلیٰ دماغ اور عقل کل ایک طیارہ حادثے کی نذر ہوگئے اور صرف چند سیکنڈ میں سب کچھ بدل گیا۔ جو آج تھا وہ گزرا ہوا کل ہوگیا اور رہ گیا باقی نام اللہ کا۔ آج کئی سال گزرنے کے باوجود ہم سب نے جانا کہ زور زبردستی انسانوں میں، معاشرے میں صرف اور صرف منفی سوچیں ہی پیدا کرسکتی ہے۔ جتنا زیادہ ضیا الحق دور میں دبایا گیا اس کے اتنے ہی منفی اثرات ابھر کر سامنے آئے۔
یقینا ایک معتدل معاشرہ اور ایک معتدل سوچ شاید یہی ضرورت ہے، دنیا اب صرف انگلیوں کے اشارے پر ہمارے سامنے ہے، کس ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کیا پالیسیز بنائی جا رہی ہیں، اور ان کے اثرات کیا نکل رہے ہیں، عوام کو عوام کے حقوق برابر ملیں گے تو عوام آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی اور مثبت سوچ بھی آئے گی، بہت ہی زیادہ ضروری ہے کہ پالیسیز کو بہت سوچ سمجھ کر بنایا جائے اور جہاں جہاں پالیسیز ایکسپرٹ کی ضرورت ہو، وہاں ان کو بلایا جائے، Discussions ہو، موجودہ اور آنے والے دنوں کو دھیان میں رکھا جائے، شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں مگر ملکی پالیسیز کا تسلسل کے ساتھ چلنا بے حد ضروری ہے جیساکہ تمام تعلیم یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ہم تو اتنے جاہل اور بے ایمان لوگ ہیں کہ اپنے مفادات کے، اپنی شخصیت کے لیے آئین کی شقوں کو بھی بدل ڈالتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ تمام مطلبی سیاسی پارٹیاں مخالفت کے باوجود ایک ہوجاتی ہیں۔
مگر حق ہمیشہ حق رہے گا، اللہ کے قانون تاقیامت تک کے لیے ہیں، ظلم جب حد سے بڑھے گا تو مٹ جائے گا، اور وہ بھی صرف چند سیکنڈ میں۔ یہ وقت جو ہمیں ملتا ہے صرف اس لیے ملتا ہے کہ ہم جان لیں اور آخرکار مان لیں کہ کوئی طاقت ہم سے بہت بہت بڑی اور طاقتور ہے جو صرف چند سیکنڈ میں ہمیں ہماری اوقات یاد دلاسکتی ہے۔