وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ
سوگوار بحوالہ کربلا گریہ کی روایت کو کب سے نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے آداب خوب جانتے ہیں۔ خود بھی گریہ کناں ہیں۔
ISLAMABAD:
شاید یہ کراچی ہی کے لیے کہا گیا ہے کہ یک بام دو ہوا۔ گھڑی میں باد صبا گھڑی میں باد سموم۔ اور شاید یہ شعر بھی غالب نے اسی شہر کے گھڑی گھڑی بدلتے رنگ کو جان کر کہا تھا کہ؎
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
ہفتے بھر کے اندر اندر ہم نے یہ دونوں ہی رنگ دیکھ لیے۔ مگر ہمیں آنے والے وقت کا کب خیال تھا۔ بس یہی دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ واہ واہ کیا معتدل ہے باغ عالم کی ہوا۔ سمندر کا کنارہ۔ نرم موج آب، نرم و خنک موج ہوا۔ سطح آب پر منڈلاتے پرندے، بیچ لگژری ہوٹل کے ایوانوں سبزہ زاروں میں چہل پہل گہما گہمی۔ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں۔ کیوں امنڈے چلے آ رہے ہیں۔ ارے یہ تو جشن کا سماں ہے۔
جشن اور ادب کے حوالے سے۔ ادب کے رسیا قطار اندر قطار ادھر دور کے دیسوں سے سمندر پار یورپ و امریکا سے، ادھر ایشیا، افریقہ سے سب سے بڑھ کر ہندوستان سے نامی گرامی لکھنے والے کوئی شاعر، کوئی کہانی کار، کوئی نقاد وارد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان میں گورے بھی ہیں، کالے بھی ہیں، سانولے بھی ہیں، کوئی اجنبی کوئی جانا پہچانا۔ یہاں ادیبوں کے سوا بھی تو مخلوق ہے۔ فنکار، مصور، مغنی، داستان گو، اداکار اور ان سے جدا رنگ کے لوگ سیاسی مبصرین، تجزیہ نگار، نامہ نگار، انسانی حقوق کے علمبردار، سماجی خدمت گار، سو گونا گوں انسانی مسائل زیر بحث ہیں۔
صحیح نقشہ ہے۔ ارے ادب خلا میں تو جنم نہیں لیتا۔ رنگارنگ انسانی نقشہ کے بیچ سے شعر و افسانہ جنم لیتے ہیں۔ تو صحیح بساط بچھائی گئی ہے۔ اور ادب کو جانچنے سمجھنے کے لیے صحیح سیاق و سباق مہیا کیا گیا ہے۔ اور ہاں خود ادب کا نقشہ کتنا رنگا رنگ ہے۔ رنگا رنگ زبانیں، رنگا رنگ ادبی اصناف و اقسام، پاکستان میں اب انگریزی ناول کی روایت بھی ابھر چلی ہے، پہلے تو وہی وہ نظر آ رہے تھے۔ پھر اردو والے بھی اپنے شاعروں کہانی کاروں کی کمک کے ساتھ آن موجود ہوئے۔
پھر سندھی پنجابی غرض مختلف علاقائی یا کہہ لیجیے کہ پاکستانی زبانوں میں لکھنے والے وارد ہوئے اور ہاں اب ہمارے ادب کا وہ زمانہ گزر گیا جب اس میدان میں مرد ہی مرد دندناتے تھے۔ اب یہاں رنگ برنگے آنچل بھی لہراتے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی کوئی آنچل پرچم بننے کے لیے کسمسا رہا ہے۔ کسی ایوان میں جھانکا تو زہرا نگاہ چہکتی نظر آئیں، کہیں دیکھا کہ تنویر انجم، فاطمہ حسن، عذرا عباس رواں ہیں۔ ان سے پرے فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید نسائیت کا پرچم لیے کھڑی ہیں۔ پھر زاہدہ حنا ہیں۔ ثروت محی الدین ہیں۔
اردو کے شاعر ناول نگار، قطار اندر قطار ہیں۔ عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، حسن منظر، مرزا اطہر بیگ، آصف فرخی سندھی افسانہ و ناول کے نام امر جلیل جو یہاں اردو میں محو گفتار ہیں۔ شاعروں میں انور مسعود،سلمان پیرزادہ ، امجد اسلام امجد، افتخار عارف، عطاء الحق قاسمی مگر وہ تو مزاح نگاری میں بھی طاق ہیں۔ لو مزاح نگاری کا ذکر آیا ہے تو ایک نام اور سن لو ایک ایوان کی طرف بڑے مجمے کو ڈھلتے دیکھا تو ہم نے حیران ہو کر کہا کہ یہاں شاہ رخ خاں تو نہیں آ گیا۔ کسی نے برجستہ ٹکڑا لگایا کہ نہیں یہ مزاح نگاری کی دنیا کا شاہ رخ خاں ہے۔ انور مسعود۔ ان کی مت پوچھو۔ پنجابی اردو دونوں زبانوں میں وہ جوہر دکھاتے ہیں کہ محفل زعفران زار بن جاتی ہے۔
نقادوں میں دو نام سن لیجیے۔ دونوں ہندوستان سے آئے ہوئے شمیم حنفی۔ بس ان کا تو نام لے دینا ہی کافی ہے۔ ہاں مہر افشاں فاروقی نے پہلے پہل پاکستان میں قدم رکھا ہے۔ امریکا کی کسی بھلی سی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں انگریزی میں قلم رواں ہے۔ ان کا نیا تنقیدی مطالعہ اردو کے حوالے سے ہے۔ محمد حسن عسکری کے افکار و تصورات کو خوب چھانا پھٹکا ہے۔ اور ہاں آصف فرخی، ان کے انتقادیات بھی سنئے۔
ارے ہاں ہم رقص کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں حالانکہ یہاں شیما کرمانی اپنے پورے گروپ کے جلو میں آئی ہیں۔ افتتاحی تقریب میں اس طرح جلوہ گر ہوئیں کہ ایک سماں باندھ دیا۔ پھر ان کا قدم تھیٹر میں بھی تو ہے۔ وہ رنگ بھی دکھایا۔
اتنی انواع و اقسام کو، رنگ رنگ کے پنچھی کو، بھانت بھانت کی بولی کو شمار کیجیے اور پھر تصور کیجیے کہ کیسے کیسے مباحث چھیڑے گئے ہوں گے، گرما گرم بحثوں میں کیا کیا گل کھلے ہوں گے۔ اس دریا کو کوزے میں کیسے بند کیا جائے۔ پھر سامعین کا مجمع اور شاعروں، کہانی کاروں، ناول نگاروں کے مداحوں کی ریل پیل، واقعی کندھے سے کندھا چھل رہا تھا۔ اتنی گہما گہمی ، اتنی چہل پہل، جشن اسے کہتے ہیں۔ مگر جشن کے ختم ہوتے ہوتے چرخ کج رفتار نے کیا عجب چال چلی۔ ما در چہ خیالیم و فکر در چہ خیال۔ کیا بلا آسماں سے اتری۔ دم کے دم میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔
صبح آنکھ کھلی تو ہم بے خبروں پر کیسی بجلی گری۔ باہر کے آئے مہمان الوداع کہنے لگے تھے۔ شمیم حنفی دلی جانے کے لیے پابہ رکاب تھے۔ اچانک خبر ملی کہ دلی کی فلائٹ منسوخ، ایئرپورٹ کی طرف جانے والی راہیں مسدود ہیں۔ مہمان میزبان دونوں حق دق کہ یہ کیسا گل کھلا۔ اسی آن امجد اسلام امجد ایئرپورٹ کی طرف سے ناکام واپس آئے۔ لاہور جانے کی راہ بھی کھوٹی ہو چکی تھی۔
مگر امجد اسلام کی کیا پوچھتے ہو، وہ زعفران کی دولت ساتھ لیے ہوتا ہے۔ جب دیکھا کہ دلی کا مہمان پریشان ہے تو اس دولت کو کھیسہ سے نکالا۔ اپنی پریشانی کو دفع کیا اور لطیفے سنانے شروع کر دیے۔ اسی بیچ ہمارے بھانجے صاحب نمودار ہوئے کہ لاہور جانے کی فی الحال کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہاں سے اٹھو، گھر چلو۔
ہم نے شمیم حنفی سے رخصت چاہی۔ کہا کہ تمہیں اچھے ہاتھوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس شخص کے پاس بہت زعفران ہے۔ اس سے تمہاری تواضع کرتا رہے گا۔
بعد میں آصف فرخی نے، کہ اس تقریب کے انتظام میں امینہ سید کے دست و بازو بنے رہے، ہمیں اطلاع دی کہ ہمارا یار عزیز نہیں، دلی کے سب ہی مہمانان عزیز اس ہمارے آفت زدہ شہر سے بخیر و عافیت رخصت ہو گئے۔
سو صاحبو اگر اس بدقسمت شہر کی رونق ہنگاموں ہی پر موقوف ہے تو وہ ہنگامۂ طرب بھی دیکھا۔ اب سوگ کا ہنگامہ بھی دیکھو۔ لب سڑک جنازے قطار میں سجے رکھے ہیں، ایک ہلے میں اتنی اموات، اتنے جنازے ؎
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجیے
مگر یہ سوگوار بحوالہ کربلا گریہ کی روایت کو کب سے نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے آداب خوب جانتے ہیں۔ خود بھی گریہ کناں ہیں اور جو خلقت اس وقت امنڈی ہوئی ہے وہ بھی غم زدہ نظر آ رہی ہے۔ یہ منظر ہی ایسا ہے کہ اس وقت ہر عقیدے ہر نقطہ نظر کے لوگ اسے ایک انسانی المیہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور مغموم ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کی قسمت پر اداس ہیں کہ کتنے خوابوں کے ساتھ یہ دیس بسایا تھا اور کیا کیا کچھ دیکھنا اور سہنا پڑ رہا ہے۔ ؎
اور آگے دیکھیے ابھی کیا کیا ہے دیکھنا