یہ سامراج کی گہری سازش ہے

آخر فروری سے 12 مارچ تک جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہو گی۔


Zamrad Naqvi February 24, 2013

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان میں خود کو بم دھماکے سے اڑانے کا کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسلام خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے۔ پھر عالمی سیاست نے صورتحال تبدیل کر دی، جب مذہب کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیاگیا۔ صدر نے بتایا کہ کس طرح انتہا پسندوں کو عالمی برادری نے تخلیق اور پرورش کیا، صرف اس لیے کہ اپنے دشمن سوویت یونین اور مخالف نظریات کا خاتمہ کیا جا سکے۔

صدر نے بے نظیر بھٹو کی سابق امریکی صدر جارج بش سے گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بے نظیر کی پیش گوئی کے عین مطابق آج وہی انتہا پسند اپنے تخلیق کاروں کے ہی خلاف ہو گئے ہیں۔

آج بھی بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو بلوچستان کی ہزارہ منگول برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ حملے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور ڈرون حملوں کی وجہ سے ہیں۔ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا آغاز جنرل ضیاء الحق دور میں 85ء کے فوری بعد شروع ہو گیا تھا۔اس وقت نہ دہشت گردی کی جنگ تھی نہ ڈرون حملوں کا وجود تھا۔ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ پر مرحوم پیر پگاڑا اور نوابزادہ نصر اللہ خان نے حیرانی اور سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ برصغیر میں خاص طور پر محرم کے دوران شیعہ سنی بھائی چارہ سیکڑوں سال سے مثالی تھا۔

سوائے اکا دکا ناخوشگوار واقعات کے جس کی وجہ چند شرپسند عناصر ہوتے تھے۔ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خاتمہ کرنے کے لیے شیعہ سنی تنازعہ ایک خاص منصوبہ بندی کے بڑھایا گیا۔یہ 1980ء کی دہائی کا آخر اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت ہی تھی جس کے دور میں آج کی کالعدم تنظیموں کو تخلیق کیا گیا اور 14 سو سال سے موجود شیعہ سنی اختلافات کو گلی محلے کا موضوع بنا کر عام مسلمانوں کے ذہن کو زہر آلود کر دیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مسلک کے نام پر منافرت اور قتل و غارت کرانے کا فائدہ کس کو پہنچا۔کیا مسلمانوں کو پہنچا؟ کیا پاکستان کو پہنچا؟ جس طرز کے خودکش دھماکے اور قتل و غارت طویل عرصے سے عراق میں ہورہے ہیں، آج بالکل اسی طرز کے دھماکے اور قتل و غارت پاکستان میں ہورہے ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں 80ء کی دہائی میں خطے کے حالات کیا تھے۔ اس دہائی میں ایرانی انقلاب نے ایران میں امریکا کے تیل کے مفادات کا خاتمہ کر دیا۔ امریکی اور مغربی کمپنیوں کو ایران سے بے دخل کر کے تیل کی تنصیبات اور ذرایع کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں عرب عوام بھی ایرانی عوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں میں تیل کے چشموں سے امریکا کو بے دخل کر کے ان کا قبضہ اپنے ہاتھوں میں نہ لے لیں۔ اس طرح تو پورے عرب خطے سے نہ صرف امریکی تیل کے مفادات کا بلکہ اسرائیل کا بھی خاتمہ ہو جاتا۔

اگر ایسا ہو جاتا تو امریکا کی نہ صرف اس خطے سے بلکہ پوری دنیا سے ہی اس کی بالا دستی کا خاتمہ ہو جاتا۔ چنانچہ اس خطرناک اور ہولناک صورت حال سے نمٹنے کے لیے امریکا اور برطانیہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ برطانیہ چونکہ برصغیر پر ڈیڑھ سو سال حکومت کر چکا تھا اور مسلمانوں کے مسلکی تضادات' اختلافات کو بڑی گہرائی سے سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس خطرے کا توڑ کرنے کے لیے کہ مشرق وسطیٰ میں تیل کے چشمے امریکی قبضے سے نہ نکلنے پائیں، پوری مسلم دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک شیعہ سنی منافرت بڑے پیمانے پر منظم انداز اور منصوبہ بندی سے فرقہ وارانہ تنظیمیں بنا کر پھیلائی گئی۔ شیعہ سنی منافرت پھیلانے کا یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا۔ ایران سے امریکا کا ا صل جھگڑا تیل کا تھا جب کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف پروپگینڈا کیا گیا، اگر مسلم دنیا امریکی اسرائیل سازش کا شکار ہو کر غلط فہمیوں میں مبتلا نہ ہوتی تو ایک عظیم طاقت بن جاتی اور امریکی سامراج کی اس بالادستی کا خاتمہ کر دیتی جس نے مسلمانوں کو اپنا معاشی یا سیاسی اور فوجی غلام بنایا ہوا ہے۔

خطے میں کھیلے جانے والے اس سامراجی سٹرٹیجک کھیل میں مسلمان مکمل طور پر ہار گئے اور امریکا جیت گیا۔ شیعہ سنی منافرت پھیلانے کا یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں طویل مدت کے لیے امریکا کے تیل کے مفادات محفوظ ہو گئے بلکہ اسرائیل بھی بچ گیا۔ جس کے لیے امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کو پورے نمبردیے جا سکتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک ایک دن میں سیکڑوں مسلمانوں کو شہید اورزخمی کیا جارہا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ اس میں ہمارے مقامی لوگوں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اول تو دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں ہوتی اگر کارروائی ہوتی بھی ہے تو رسمی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جیسی آجکل ہو رہی ہے۔ ان دہشت گردوں کی طاقت ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔ یہاں تک قوم کو ا یک نئے سانحے کا تحفہ مل جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام یورپ اور امریکا میں بدترین بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران ہی تھا جس کو ٹالنے کے لیے آج سے 30 سال پہلے افغانستان میں امریکی جہاد کیا گیا تو دوسری طرف مذہبی جنونیت کو اس انتہا پر پہنچا دیا گیا جس کی مثال مسلمانوں کی سیکڑوں سال کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ اس دو دھاری تلوار سے مسلمانوں کو کروڑوں کی تعداد میں ذبح کیا گیا ہے۔ یہ سامراج کا پرانا طریقہ واردات ہے کہ جب بھی اس کا وجود خطرے میں پڑتا ہے، وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کبھی پہلی اور دوسری عالمی جنگ اور کبھی خانہ جنگی کرا دیتا ہے۔ یہ 013ء اور 014ء ہی بتائے گا کہ مذہب کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سامراج کی حکمت عملی باقی رہے گی یا نہیں جب کہ اس چیز کے زیادہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کو ٹالنے اور اس کے تحفظ کے لیے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں میں مذہبی جنونیت کو مزید بڑھاوا دیا جائے کیونکہ یہی ایک واحد نسخہ ہے جس پر عمل درآمد کرنے سے مسلمان برباد اور امریکا محفوظ رہ سکتا ہے... رہے نام اللہ کا۔

آخر فروری سے 12 مارچ تک جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہو گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں