کڑوی گولی
جب سے بھارت نے اسرائیل کا ہاتھ پکڑا ہے وہ فوجی اعتبار سے خطے میں ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے اپنے بھاشن میں پاکستان کو دھمکیوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی ترقی اور امن پسندی کے تو خوب گیت گائے مگر کشمیریوں پر اپنی سینا کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی صفائی پیش کرنے کی زحمت گوارا کی۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی کھل کر عکاسی کرکے بھارتی جمہوریت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کا عالمی برادری نے ضرور نوٹس لیا ہوگا لیکن بھارت کشمیر کے معاملے میں اتنا ہٹ دھرم ہوگیا ہے کہ عالمی برادری کی ناراضگی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ سشما نے پاکستان پر ایک اور مضحکہ خیز الزام لگایا ہے کہ پاکستان نے ستر برس میں صرف دہشتگرد پیدا کیے جب کہ بھارت نے ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کیے۔
اگر بھارت نے کوئی دہشتگرد پیدا نہیں کیا تو مودی کو احمد آباد کے قتل عام کے حوالے سے امن پسندی اور دہشتگردی میں سے کس خانے میں ڈالا جائے گا؟ اگر بھارت واقعی اہنسا کا پجاری ہے تو پھر وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کا احترام کرتے ہوئے کشمیریوں کو حق خود ارادی دینے کے بجائے انھیں ظلم و زیادتی کے ذریعے بھارتی شہری بننے پر کیوں مجبور کر رہا ہے۔ تمام عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر میں افسپا اور ٹاٹا جیسے ظالمانہ قوانین نافذ کرنے پر بھارت پر لعن طعن کر رہی ہیں مگر بھارت بے پرواہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ہونے کا راگ الاپ رہا ہے۔
امریکا اور دیگر مغربی ممالک جو خود کو حقوق انسانی کا چیمپئن کہتے ہیں کشمیریوں کے معاملے میں خاموش ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا خطاب یقینا عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا تھا مگر لگتا ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر یہ کوئی اثر نہ ڈال سکا تو اس کی ٹھوس وجہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ان کی گڈبک میں نہیں ہے جب کہ بھارت نہ صرف ان کی گڈ بک میں ہے جب کہ ان کا چہیتا ملک بن چکا ہے کیونکہ وہ ان کے چہیتے اسرائیل کا اب قدرتی دوست ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بھارت کو اس کی سوا ارب کی منڈی ہونے کی وجہ سے امریکا اور یورپی ممالک اس پر جان چھڑکتے ہیں اگر یہ بات تھی تو پھر آج سے پچیس سال قبل وہ بھارت پر اتنے مہربان کیوں نہیں تھے۔ بھارت تو پہلے بھی بڑی منڈی تھا اصل وجہ یہ ہے کہ تقریباً دو دہائی قبل بھارت نے عالمی سیاست میں اپنی پسپائی دیکھ کر اپنی ڈھونگ غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی کو پس پشت ڈالکر اسرائیل سے نہ صرف دوستی کرلی بلکہ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے بس تب سے بھارت مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا بن گیا ہے۔
اس وقت پورا مغرب بھارت کا گرویدہ ہے وہ اسے ہر طرح سے نوازنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ اس کی کسی فرمائش کو خالی نہیں جانے دیتے۔ پورا مغربی میڈیا بھی اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے۔ اس کی تمام دہشتگردی کو نظرانداز کر کے اسے ایک امن پسند اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
بھارت مغربی ممالک سے جو بھی ہتھیار طلب کر رہا ہے وہ اسے عطا کرنے میں ذرا نہیں ہچکچا رہے۔ انھوں نے اسے بعض ایسے مہلک ہتھیار بھی دے دیے ہیں جن کا وہ اہل بھی نہیں ہے مگر چونکہ ان ہتھیاروں کے لیے اسرائیل کی سفارش موجود تھی چنانچہ انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ وہ اسرائیل سے بھی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانیوالے ہتھیار حاصل کر رہا ہے۔ اسرائیل نے بھارت کو بعض ایسے حساس آلات بھی فراہم کر دیے ہیں جنکے ذریعے بھارتی فوجیوں کو کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر کسی پتے کے کھڑکنے تک کی خبر ہوجاتی ہے چنانچہ آزاد کشمیر سے کوئی انسان تو کیا کوئی جانور بھی مقبوضہ کشمیر میں داخل نہیں ہوسکتا۔
جب سے بھارت نے اسرائیل کا ہاتھ پکڑا ہے وہ فوجی اعتبار سے خطے میں ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے ساتھ ہی اس کا عالمی سطح پر اثر و رسوخ بھی بڑھا ہے۔ ابھی حال ہی میں ٹرمپ نے پاکستان کو جو دھمکی دی ہے اس کا مقصد بھی بھارت کو خوش کرکے اس کے دوست اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ کوئی کیا جانے کہ ان کے نزدیک اسرائیل کی کیا قدر و قیمت ہے۔ انھوں نے محض اس کی بقا کی خاطر عراق، لیبیا اور شام جیسے طاقتور ممالک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
اب صرف ایران رہ گیا ہے جسے اسرائیل اپنے لیے ایک بڑا خطرہ خیال کرتا ہے چنانچہ مغربی ممالک ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور لگتا ہے جب بھی انھیں موقع میسر آیا وہ اسے بھی اسرائیل دشمنی کا مزہ چکھا دینگے چونکہ اسرائیل کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بھی خطرہ لاحق ہے اسی لیے مغربی ممالک پاکستان کے جوہری پروگرام کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے دہشتگردوں کے ہاتھوں میں جانے کے نام نہاد خطرے کا واویلا کرکے اسے رول بیک کرانے کے درپے ہیں گوکہ پاکستان مغربی ممالک کو یقین دلا چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام کسی طرح بھی اسرائیل کے خلاف نہیں ہے اس کا مقصد صرف بھارتی جارحیت سے ملک کا دفاع کرنا ہے مگر وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہیں۔
مغربی ممالک کی اسرائیل کے آگے یوں ہاتھ جوڑ کر اس کی جی حضوری کرنے سے تو ایسا لگتا ہے کہ اصل میں اسرائیل ہی دنیا پر حکومت کر رہا ہے اور مغربی ممالک تو بس اس کی عالمی حکومت کے ہرکاروں کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک اسرائیل کے وجود کی مخالفت کرتا آرہا ہے وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ملک قرار دیتا ہے۔ پہلے پورا عالم اسلام اسی اصول پرکاربند تھا مگر رفتہ رفتہ مصلحت آمیزی اور ضرورت کے تحت کئی اسلامی ممالک نے اس اصول کو توڑ ڈالا ہے۔
اب تک دس اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں جن میں ترکی اردن مصر اور ایران بھی شامل ہیں۔ ایران نے تو 1950 میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا تاہم خمینی حکومت کے زمانے سے ایران کے اسرائیل سے تلخ تعلقات چل رہے ہیں۔ سعودی عرب جو عالم اسلام کا اہم ملک ہے خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے سعودی حکومت کی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اب حالات ایسا رخ اختیار کرچکے ہیں کہ سعودی حکومت اسرائیل کی عالمی سیاست میں اہمیت کے پیش نظر بعض شعبوں میں اس کے قریب دکھائی دیتی ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے وہ پہلے سے ہی مغرب نواز ہے ۔ وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کے لیے خطرہ خیال کیے جاتے تھے ان کی تباہی پر کسی حکومت کو کوئی ملال نہیں ہے۔ اس وقت شام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مغربی ممالک نے اسے تباہ برباد کردیا ہے۔ مغربی ممالک کے شام پر حملوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عراق لیبیا اور شام کی تباہی سے تو فائدہ صرف اور صرف اسرائیل کو پہنچا ہے۔
مجوزہ اسلامی متحدہ فوج کے قیام کا مقصد بھی بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اسلامی ممالک میں دہشتگردی کے خاتمے کی آڑ میں بعض سرکش ممالک کو مغربی ممالک کا مطیع و فرمانبردار بنانا ہے۔ ایسے حالات میں کسی بھی ملک کا اسرائیل سے بیر رکھنا مگرمچھ سے بیر رکھنے کے مترادف ہے۔ راقم پہلے بھی اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہے کہ بھارت سے دشمنی ہمیں بہت مہنگی پڑسکتی ہے اگر ہم نے اسرائیل سے دشمنی جاری رکھی۔ دراصل بھارت نے پاکستان پر بھاری پڑنے اور کشمیریوں کو فلسطینیوں کی طرح اپنا غلام بنائے رکھنے کے لیے ہی اسرائیل سے اپنا رشتہ جوڑا ہے۔
اسرائیل سے اس کی دوستی کی وجہ سے ہی امریکا اور اس کے اتحادی اس کے پشت پناہ بن گئے ہیں۔ مغرب کی نظر میں ہماری وقعت گرنے کی وجہ سے ہی ہمارے اندرونی اور بیرونی حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں ہماری قربانیوں کو رد کردیا گیا ہے کھلے عام ہمیں دہشتگرد اور دہشتگردوں کو پناہ دینے والا ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکا نے ہماری اقتصادی اور عسکری امداد بھی روک دی ہے اگرچہ ہم نے چین کا دامن تھام لیا ہے مگر وہ بھی ہماری اندرونی افراتفری، سیاستدانوں کے اقتدار کے لیے ہنگامہ آرائی اور بڑھتے ہوئے عدم استحکام سے گھبرا کر ہی اب ہمیں اپنا اسرائیل کہنے کے بجائے صرف اپنے دوست تک محدود کردیا ہے۔
ایسی صورتحال میں ہمیں مغرب کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ مغرب پر ہماری اقتصادی اور فوجی ضروریات کا انحصار ہے پھر ہمیں سب سے اہم اپنی بقا کو قائم رکھنے کے لیے اسرائیل سے دشمنی کو ختم کرنے پر غور وخوض کا آغاز کرنا ہوگا۔ یقیناً یہ ایک کڑوی گولی ہے لیکن اسے نگلنے میں دیر کرنے سے کہیں مرض کا علاج نہ ہوجائے۔