ماہ فروری اور فلسطین
اسرائیلی حکومت اور افواج ایسے کئی معاہدے کرکے انھیں خود ہی توڑ چکے ہیں۔
لاہور:
یوں تو سال کے بارہ مہینے ہی فلسطین اور فلسطینیوں کی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں لیکن ماہ فروری بھی بعض اہم واقعات کی وجہ سے فلسطین کی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ دس فروری انیس سو انیس تک پہلی عرب فلسطین کانفرنس بیت المقدس میں منعقد ہوئی ۔اسی مہینے پیرس میں امن کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ عرب فلسطین کانفرنس نے پیرس پیس کانفرنس کو ایک یادداشت بھیجی جس میں بالفور اعلامیے کو مسترد کیا گیا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔ پیرس امن کانفرنس پہلی عالمی جنگ کی فاتح اتحادی طاقتوں کا اجتماع تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر شکست خوردہ مرکزی طاقتوں کے لیے امن کی شرائط طے کرنے کے لیے پیرس کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا جس میں بتیس ممالک کے سفارت کار شریک تھے۔
چودہ فروری انیس سو اکتیس کو برطانوی وزیر اعظم رمسے میک ڈونلڈ نے صہیونی لیڈر چائم ویئزمین کو خط لکھ کر برطانوی وزیر پاسفیلڈ کے وائٹ پیپر سے لا تعلقی کا اعلان کردیا۔ پاس فیلڈ نے یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی کو بہت زیادہ محدود کردیا تھاجس کے بعد صہیونی نسل پرست یہودیوں نے دنیا بھر میں مظاہرے کیے تھے۔
سات فروری انیس سو انتالیس کو لندن کانفرنس منعقد ہوئی جو بغیر کسی اتفاق رائے کے ختم ہوگئی۔ یہ کانفرنس جاری تھی کہ ستائیس فروری انیس سو انتالیس کو صہیونیوں نے پورے فلسطین میں بم دھماکے کیے جس میں اڑتیس عرب شہید اور چوالیس زخمی ہوئے۔ اس مہینے میں عرب آبادی سڑکوں پر تھی ، ان کے مظاہرے چل رہے تھے اور اطلاعات تھیں کہ برطانیہ فلسطین کی آزادی کی تجویز دینے والا ہے۔ صہیونیوں کے بم دھماکے اس کا رد عمل تھے۔
اٹھائیس فروری انیس سو چالیس لینڈ ٹرانسفر ریگولیشنز نافذ العمل ہوا۔ انیس سو انتالیس کے وائٖٹ پیپر میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کے ان کی زمین پر حقوق کا تحفظ کیا جائے لہذا زمین کی منتقلی سے متعلق قوانین نافذ کیے گئے۔ اس کے تحت فلسطینی زمین کو تین زون اے ، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا تھا اور اس میں علی الترتیب تریسٹھ فیصد، بتیس فیصد اور پانچ فیصد علاقہ رکھا گیا تھا۔ ان قوانین کے خلاف یہودیوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
بارہ فروری انیس سو بیالیس میں برطانوی پولیس نے بدنام زمانہ صہیونی دہشت گرد ایوراہم اسٹرن کو ہلاک کردیا۔ پولینڈ میں پیدا ہونے والا اسٹرن انیس سو پچیس میں فلسطین منتقل ہواتھا۔ انیس سو انتیس میں اس نے بدنام زمانہ صہیونی دہشت گرد گروہ ہگانا میں شمولیت اختیار کی ۔ انیس سو اکتیس میں انھوں نے نسل پرست یہودی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے ہگانا سے علیحدگی اختیار کرکے ایک نیا جنگجو صہیونی گروہ ارگن تشکیل دیا۔ اسٹرن نے خفیہ سرگرمیوں کے لیے اپنا نام یائر رکھا۔ وہ فلسطینیوں سے زیادہ برطانویوں کو یہودیوں کا بنیادی دشمن تصور کرتا تھا۔
انیس سو سینتیس میں ارگن گروپ میں اختلافات ہوئے اور اس کے کئی اراکین ہگانا لوٹ گئے جب کہ اسٹرن نے ہگانا قیادت کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ اسٹرن نے پولینڈ میں یہودی دہشت گرد تربیتی مراکز قائم کیے ۔فلسطین واپسی پر برطانوی انتظامیہ نے اسے گرفتار کرلیا اور وہ اگست انیس سو انتالیس سے جون انیس سو چالیس تک قید میں رہا۔ وہ عارضی طور پر بھی برطانوی انتظامیہ اور فلسطینیوں کے خلاف حملے بند کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ جب اگست انیس سو چالیس میں ارگن نے جنگ عظیم دوم کے دوران برطانیہ پر حملے معطل کرنے کی پالیسی اختیار کی تو ایوراہم اسٹرن نے ارگن سے علیحدہ ایک دہشت گرد گروہ لیہی تشکیل دیا۔ وہ برطانیہ کویہودیوں کے لیے نازی جرمنی سے بھی زیادہ بڑا خطرہ قرار دیتا تھا۔ یورپی یہودیوں کی فلسطین نقل مکانی کے لیے اس نے نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی سے بھی اتحاد کی کوششیں کیں جو ناکام ثابت ہوئیں۔
لیہی گروپ کی انتہا پسندی اور لوٹ مار کی کارروائیوں کی وجہ سے اسٹرن اور اس کا گروپ یہودیوں میں بھی بدنام ہوا۔ فلسطین مینڈیٹ کے تحت فلسطین میں موجود برطانوی انتظامیہ بھی اس صورت حال سے نالاں تھی۔ انھوں نے انیس سو بیالیس میں اسٹر ن کی گرفتاری پر انعام کا اعلان کردیا۔تل ابیب میں جس جگہ بارہ فروری کو اسٹر ن کو ہلاک کیا گیا وہ عمارت اب لیہی تحریک کا میوزیم ہے۔
فروری انیس سو سینتالیس کو لندن رائونڈ ٹیبل کانفرنس دوبارہ شروع ہوئی جو دس فروری تک جاری رہی۔ ا س کانفرنس میں برطانوی وزیر خارجہ ارنسٹ بیوین نے موریسن ،گریڈی فیڈرل پلان سے جدا تجاویز دیں جو فلسطینیوں اور جیوش ایجنسی نے مسترد کردیے۔ اس پر ارنسٹ بیوین نے فلسطین مینڈیٹ ختم کرنے اور مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان کردیا۔
فروری انیس سو انچاس میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا مصر سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جو اسرائیلی افواج نے خود ہی مختلف علاقوں میں حملہ آور ہوکر توڑ دیا۔ اسرائیلی حکومت اور افواج ایسے کئی معاہدے کرکے انھیں خود ہی توڑ چکے ہیں۔
فروری دو ہزار چھ میں امریکی ایوان نمایندگان میں فلسطینی انسداد دہشت گردی ایکٹ دو ہزار چھ پیش کیا گیا۔ یاد رہے کہ جنوری میںتحریک مقاومت اسلامی حماس فلسطینی انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اور اسے حکومت سازی کا موقع ملا تھا۔ اس پر فلسطینیوں کے دشمن بوکھلا گئے تھے۔ امریکی ایوان نمایندگان میں فلسطین کو دی جانے والی امداد بند کرنے کی دھمکی پر مبنی مجوزہ انسداد دہشت گردی ایکٹ بھی فلسطینیوں کو حماس کو منتخب کرنے کی سزا دینے کے لیے پیش کیا گیاتھا۔
امریکی ایوان نمایندگان میں مجوزہ قانون سازی کا یہ بل ری پبلکن پارٹی کی خاتون رکن الیانا راس لیہٹینن نے یکم فروری کو پیش کیا۔ دو سو چوہتر دیگر اراکین نے بھی اسے کو اسپانسر کیا۔ مئی میں یہ قانون منظور ہوا اور دسمبر دو ہزار چھ میں امریکی صدر نے اس پر دستخط کرکے اسے امریکی قانون کے طور پر نافذ کردیا۔ اس قانون کے ٹائٹل میں لکھا گیا کہ اس کا مقصد فلسطینی انتظامیہ کے زیر کنٹرول فلسطین میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا، دو ریاستی حل کی حمایت کرنا اور ان تنظیموں ، افراد اور حکومتوں کی مخالفت کرنا جو دہشت گردی کی حمایت کرتی ہیں۔
یعنی یہ قانون حماس کی جمہوری فتح کے خلاف صہیونی رد عمل تھا جو ہمیشہ کی طرح امریکی ایوانوں سے ظہور پذیر ہوا۔ جب جنوری میں حماس الیکشن میں کامیاب ہوگئی تو امریکا نے محمود عباس کی شکست خوردہ فلسطینی انتظامیہ کے زیر کنٹرول جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کا قانون منظور کرکے دراصل فلسطین کے عوام کا مذاق اڑایا کیونکہ انھوں نے حماس کو منتخب کیا تھا۔ امریکا حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے اور اس کی حمایت کرنے پر ایران اور شام کو دہشت گردی اسپانسر کرنے والی ریاستیں قرار دیتا ہے ۔ یہ الزام ایسے ہی ہے جیسے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔