مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ
بین الاقوامی سیاست میں عالمی طاقت کے طور پر آپ کا بھیانک چہرہ دیکھ کر لفظ انسانیت پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔
GENEVA:
آپ کا پاگل پن خود امریکا اور اس میں بسنے والوں کوکس مصیبت میں ڈالنے والا ہے، اگر اس کا ذرا بھی ادراک آپ کر سکیں تو شاید اپنے مکروہ ارادوں اور مذموم مقاصد سے باز آجائیں، لیکن آپ سے کسی بھلائی کی امید توخود امریکا کے دانشوروں کو بھی نہیں۔ سب لوگ آپ سے نالاں ہیں، آپ کو ڈبلیو ڈبلیو ای کا ایک کردار سمجھتے ہوئے مضحکہ اڑاتے ہیں اور پھبتیاں کستے ہیں، یقین جانیے مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا! کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ آپ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں، لیکن آپ سے زیادہ قصور وار تو امریکا کی وہ تاریخ ہے جس کا ہر پَنّا خون سے رنگا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کی جس روایت کو آپ نے آگے بڑھایا ہے وہ تو صدیوں پرانی ہے۔ آپ نے تاریخی کتب میں ریڈانڈین باشندوں کی امریکی سرزمین پر نسل کشی کے دردناک واقعات پڑھ کر یقیناً اپنے سابقین کو داد دی ہوگی، ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکی طاقت کے تباہ کن اظہار پر خوشی کے مارے آنکھیں ضرور چمکتی ہوں گی، دنیا بھر میں علاقائی اور عالمی دہشتگردی کی پشت پناہی کے امریکی کردار کو سراہتے ہوئے آپ کتنی بار خوشی سے جھومے ہوں گے، عراق، افغانستان، فلسطین، شام اور دنیا کے دیگر شورش زدہ خطوں میں انسانیت کے چیتھڑے اڑاتے جنگی جہازوں کو آپ نے امریکی وقار کی علامت سمجھا ہوگا۔
محترم! سپر پاور ملک کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز ہوکرکچھ نیا کرنا آپ کا بے شک حق ہے، لیکن اس حق کو آپ نے جس طرح استعمال کیا اس کی امریکی تاریخ میں نظیر نہیںملتی، آپ تو عالمی انسانی حقوق کی پامالی میں سابقین سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ امریکی اسلحے کو پوری دنیا میں پھیلانے کے تیز ترین مشن کا آغازکیا، سفری پابندیوں کو سخت تر ین کردیا، پریس کی آزادی پر لعنت بھیجی، پناہ گزینوں کو امریکا کے سرکا بوجھ قرار دیا، بیرونی امداد میں کمی کرکے امریکی معیار زندگی کو فوقیت دی۔ غرض امریکا کے اندر اور باہر تشویش کی فضا پیدا کرنے کے سارے گُر ایک ایک کر کے آپ آزمائے جارہے ہیں، لیکن دنیا خاموش تماشائی ہے۔ آپ نے تو پہلے ہی گوانتا نامو بے میں واقع امریکی قید خانے میں وسعت کا ارادہ ظاہر کرکے دو چار آواز اٹھانے والوں کو بھی چپ کی نیند سلا دیا ہے۔
''ہر دل عزیز'' امریکی صدر! گوانتانامو جیل کا نام آجائے تو آگے دوسری بات کرنے کا حوصلہ ہی نہیں پڑتا، آنکھوں کے سامنے نارنجی جمپر اور سر پر لپٹے دم گھوٹتے کالے تھیلے میں مقید، مضبوط سلاخوں کے پیچھے کرب سے چیختے چلاتے، ڈارون کے بندر نما انسان یاد آنے لگتے ہیں، جن کو اس عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم سے گزارکر، زندگی کا سارا عرق نچوڑ لیا گیا۔ گوانتاناموجیل کے قیام کے سولہ سال امریکی دہشتگردی کی بدترین مثال کے سوا اورکچھ نہیں ہیں۔ اب آپ یہاں نئی فوجی تعمیرات کا آغاز کروا چکے ہیں۔ جدید فوجی تنصیبات سے اس جہنم کو مزین کر رہے ہیں لیکن ذرا یہ تو بتایے اب کی بار اس جہنم کو بھرنے کے لیے کس ملک کی طرف لشکرکشی کا ارادہ باندھا ہے؟
ان پنجروں کی رونق بڑھانے کے لیے دو پیروں والے جانور کس سرزمین سے درآمد کریں گے؟ کن اتحادیوں کے ساتھ مل کر اب کون سی سرحدوں کو پامال کریں گے؟ مشہورِ زمانہ امریکی منافقانہ پالیسیوں کی بھینٹ اب کس دیس کے باسی چڑھیں گے؟ اور سب سے اہم بات تو یہ کہ اب کون سا ملک مفادات کے حصول کی خاطر، اپنے ہی شہریوں کو، اس قید خانے کی زینت بنانے کے لیے آپ کے حوالے کرے گا؟ کچھ روز قبل ایک خبر میری نظروں سے گزری، جس میںآپ نے اس قید خانے کو نہایت قابل قبول جگہ قرار دیا، تو فوری خیال آیا کہ مستقبل میں بہ حیثیت امریکی صدر آپ شاید یہیں قیام فرما کر نظامِ دنیا چلانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، لیکن جب پوری خبر پڑھی کہ یہ ''برے لوگوں'' کے لیے نہایت قابل قبول جگہ ہے تو تھوڑا افسوس ہوا۔ بھلا کئی سو ایکڑ پر دراز قید خانے میں آپ تنہا کیسے رہ پائیں گے، پھر آپ کے سائزکا نارنجی جمپر مہیا کرنا بڑا مسئلہ بن جائے گا، خیر۔
جنابِ صدر! یہ خط پڑھ کر آپ جس کرب سے گزریں گے اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں نے اس انداز میں آپ سے مخاطب ہونے کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا لیکن خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا رکھوالا ثابت کرنے والے ''امریکا'' کے اندر اور باہر ظلم اور ناانصافی اور اس پرآپ کی ہٹ دھرمی کا سلسلہ اب اس قدر طول پکڑچکا ہے کہ آئینہ دکھائے بغیرکوئی چارہ ہی نہیں، اگر آپ سابق صدر باراک اوباما کے حکم نامے کو برقرار رکھتے ہوئے گوانتا نامو کے عقوبت خانے کو بند کردیتے تو مورخ آپ کا احسان مند ہوتا، لیکن آپ کا تو عزم یہ ہے کہ اب یہاں لائے جانے والے قیدیوں تک ریڈکراس کی رسائی بھی نہیں ہونے دیں گے، نہ ان کے مقدمے عدالت میں چلائے جائیں گے۔ پہلے ہی یہاں ڈھائے جانے والے ناقابل برداشت مظالم کے باعث متعدد قیدی ہلاک ہوئے، کچھ نے خودکشی کی، اب آپ کیا نیا کرنیوالے ہیں۔ اس کو سوچ کر روح کانپ رہی ہے، حواس مختل اور قوت گویائی سلب ہو رہی ہے۔ آپ کے ان ظالمانہ فیصلوں کو تاریخ اپنے سینے میں دفن کرچکی ہے۔ ظلم اور بربریت کی یہ داستانیں کیسے فراموش ہو سکیں گی۔
جناب صدر! آپ کی مسلم دشمنی کے قصے تو طشت از بام ہیں اسی لیے گوانتا ناموکو وسعت دینے کے فیصلے نے مسلم دنیا کے کان کھڑے کردیے ہیں۔ آفت اور مصیبت کی ساعت نزدیک معلوم ہو رہی ہے، دکھوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ مائیں پریشان ہیں کہ پھر ان کی گود اجڑے گی تو گوانتا نامو جیل آباد ہوگی۔ ''نافرمانوں'' کوگردنوں سے پکڑ پکڑ کر یہاں ڈالا جائے گا۔ درد اور تکلیف سے چیختے چلاتے روتے گڑگڑاتے ان انسانوں کا تماشا جدید دنیا کے بے حس مکین بے پرواہی سے دیکھیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں لفظ انسانیت میں انسان کو تلاشیں گی، تھوڑا بہت شور مچائیں گی اورخاموش کر وا دی جائیں گی۔
محترم ٹرمپ صاحب! انسان تو ازل سے اپنی ہی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔ کسی کو منزل ملی اورکسی کا سفر رائیگاں گیا، لیکن امریکا کے عطا کردہ سامراجی نظام نے اس سفر میں انسانیت کے جو بھیانک تصورات پیش کیے ہیں۔ اس کی مثال ماضی بعید تک کہیں نہیں ملتی۔ نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں بدی کا منبع قرار دیے جانے والے فرعونوں میں میں بھی انسانیت کی کچھ نہ کچھ رمق موجود تھی، اسی کے تحت ایک فرعون نے معصوم بچے موسی کو قتل کرنے کے بجائے اپنے ہی محل میں پلنے کی اجازت دی، تو دوسرے فرعون نے خواب کی تعبیر بتانے والے یوسف کی علمیت کو قید خانے کے اندھیرے پر فوقیت دے کر انھیں آزاد کر دیا، میں ان کے اس فعل کو اب انسانیت ہی سے تعبیر کرتی ہوں۔ معذرت کے ساتھ آپ کے اندر تو انسانیت کی اتنی سی بھی رمق نہیں ملتی۔ تاریخ کی کتابوں میں ہی ایک اور دلچسپ کردار شداد سے سامنا ہوا۔ محترم! کیا آپ جانتے ہیں اس نے اپنی بے پناہ طاقت کے اظہار کے لیے کیا کیا تھا؟ زمین پر جنت بنائی تھی! بھلا طاقت کے اظہار کا یہ کون سا طریقہ ہوا؟ میرا خیال ہے کہ شداد کے اطراف اتنے دانا وبینا مشیر ہی نہیں تھے جو اس کو سمجھاتے کہ طاقت کا اظہارکرنے کے لیے جنت نہیں بناتے بلکہ جہنم دہکاتے ہیں، ایسے عقوبت خانے تعمیرکرتے ہیں جن میں ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث انسان اپنے وجود کے معنی ہی کھو دے، لیکن آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس درندہ صفت مشیروں کی بھی کمی نہیں ہے۔
جنابِ اعلیٰ! اگر ایسا ممکن ہو جائے کہ ماضی کے تمام فرعونوں کو زندہ کرکے آج کی دنیا کا دورہ کروایا جائے، تو مجھے یقین ہے کہ صرف گوانتا نامو ہی نہیں بلکہ اسرائیل میں واقع کیمپ1391، روس کی بوتیر اور ولادی میر سینٹرل جیل، بارہ سو ایکڑ پر پھیلی کینیا کی کمیتی سیکیورٹی جیل، روانڈا کی گیتا مارا جیل، شام کی تادمور ملٹری جیل، شمالی کوریا میں موجود کیمپ 22 اور آپ ہی کے ٹیکساس میں واقع کارزویل جیل میں ہونے والی درندگی اور انسانیت سوز مظالم دیکھ کر وہ بھی کان پکڑتے ہوئے واپس عدم سدھارنے کی خواہش ظاہر کریں گے۔
آخر میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ بین الاقوامی سیاست میں عالمی طاقت کے طور پر آپ کا بھیانک چہرہ دیکھ کر لفظ انسانیت پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔
آپ کا قیمتی وقت لیا ، معذرت خواہ ہوں۔