ڈاکٹر نجیب اللہ کی یاد میں

ڈاکٹر نجیب ایک دانشور اور محنت کش عوام کے سچے دوست تھے


Zuber Rehman October 05, 2017
[email protected]

ڈاکٹر نجیب اللہ کے انتقال کو اکیس برس بیت گئے۔ انھوں نے افغانستان کو سامراجی بندھنوں سے آزاد کیا، سود کے نظام کو ختم کیا، ولور ( بردہ فروشی) کے نظام کو غیرقانونی قرار دیا، جاگیرداری ختم کرکے تیس جریپ سے زیادہ زمینیں، بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جانے لگیں۔ یہ ایسے اقدامات تھے جس سے عالمی سامراج (امریکا) کو زبردست دھچکا لگا۔ امریکا اس بات پر خائف تھا کہ افغانستان کے اثرات پڑوسی ملکوں پر نہ پڑیں، ورنہ پاکستان اورہندوستان کے عوام بھی اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ کرنے لگیں گے کہ ہمیں بھی سامراجی مالیاتی بندھنوں سے آزادی ملنی چا ہیے، جاگیر داری ختم ہونی چاہیے، تعلیم اور صحت مفت فراہم کی جانی چاہیے۔

اکیس برس گزرنے کے بعد اب پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے نیویارک میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''80ء کی دہا ئی میں امریکی آ لہ کار بننا غلطی تھی، حقانی، حافظ سعید جیسے لوگ کبھی امریکا کے لاڈلے تھے، یہ لوگ 20 سے25 سال قبل وہائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑایا کرتے تھے، سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ بننا غلط فیصلہ تھا، ہمیں استعمال کیا گیا'' جب پاکستان میں سامراج مخالف، بایاں بازو اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان،افغانستان کی سامراج مخالف حکومت کے خلاف پاکستانی حکمرانوں کا سامراجی سازشوں میں ملوث ہونے کے خلاف آواز بلند کرتی تھی تو سامراجی پروپیگنڈہ باز یہ کہا کر تے تھے کہ ''یہ روسی ایجنٹ ہیں، جب کہ آج پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف خود کہہ رہے ہیں کہ ''امریکی آلہ کار بننا ہماری غلطی تھی'' یہ ایسی ہی سچائی تھی جس کا برملا اعتراف بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔ امریکا نے عراق پر مہلک کیمیاوی ہتھیار رکھنے کے الزام میں حملہ کیا اور بعد میں امریکا نے خود اعتراف کیا کہ ہمیں غلط اطلاعات فراہم کی گئی تھیں۔ ڈاکٹر نجیب اللہ ایک خوش مزاج، بااخلاق اورسوشلسٹ نظریات کے حامل انسان تھے۔ انھوں نے افغانستان کے عوام کی بھلا ئی کے لیے جوکچھ کیا، اسے افغانستان کے محنت کش عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ڈاکٹر نجیب اللہ کی شہادت پر ایک صحافی نے ملا منصور سے سوال کیا تواس نے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے نہیں مارا مگر جس نے بھی مارا ٹھیک کیا، وہ روسی ایجنٹ تھا، مگر اسے یہ یاد نہیں تھا کہ جس امریکا نے اسے پروان چڑھایا وہی اسے دفنا بھی سکتا ہے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ بہرحال ڈاکٹر نجیب ایک دانشور اور محنت کش عوام کے سچے دوست تھے ۔کمیو نسٹ پارٹی آف پا کستان کے رہنما سائیں عزیزاللہ، قومی محاذ آزادی کے رہنما معراج محمد خان سمیت متعدد رہنماؤں نے کابل جا کر ان سے ملا قاتیں کیں اور انقلابی حکو مت کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانی اور تحریک استقلال کے رہنما ائیر مارشل اصغر خان کو بھی کابل آنے کی دعوت دی تھی۔

انھوں نے دعوت قبول بھی کی تھی لیکن پاکستان میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے جا نہیں پائے۔ اس سے قبل مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا کوثر نیازی نے سوویت یونین کا دورہ کیا تھا اور مسلم بورڈ کے صدر ضیا الدین بابا خانوف کی امامت میں نماز پڑھی اورکہیں مو لانا نورانی کی امامت میں ضیا الدین بابا خانوف نے نماز پڑھی۔ ان عوامل سے سوویت یونین کے خلاف مذہب مخالف پرو پیگنڈہ زائل ہوا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ تا دم مرگ دہشتگردوں کے خلاف لڑتے رہے۔ نجیب اللہ شہید کے قاتلوں اور ان کے سر پرستوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں آج سارا خطہ برما سے لے کر افغانستان اور شام تک آگ اور خون میں نہلایا جاچکا ہے۔ 2011ء میں ایران میں زبردست عوامی احتجاج پر بے شمار سیاسی کارکنان اور طلبہ کوگرفتارکیا گیا تھا اور اب ان میں سے دو رہنماؤں کو عوام کو اکسانے اور ہڑتال کروانے کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ اس کے خلاف دنیا بھرکے امن پسند عوام اور ایران کے شہری اور پیداواری قوتیں احتجاج بھی کررہی ہیں۔ ایرانی ملا اشرا فیہ سعودی بادشاہت سے کم نہیں۔ وہاں عوام کو نقل وحمل اور سیاسی آزادی پر ترکی کی طرح قدغن لگائی ہوئی ہے۔ یہ بھی افغان دہشت پسندی کے ا ثرات ہیں۔جب کہ اس کے بد ترین اثرات یورپ اور امریکا میں بھی تیزی سے رونما ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے پاکستا نی حکمرانوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ اس عفریت کے خلاف مربوط اور ہمہ گیر پالیسی پر عمل پیرا ہوکر مذہبی انتہا پسندی اور اس کے اظہارکی تمام شکلوں سے نکلنے کا اعلان کرے۔ ان کی ملکی اور غیرملکی مالی اور سیاسی امداد کے تمام ذرایع کا خاتمہ کرے۔ فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی سوچ کے خا تمے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی مرتب کی جائے۔ یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے، مدرسوں کو مکمل طور پر سرکاری تحویل میں لے کر اسے نئے نظام تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔ مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتنے والی تمام آئینی وقانونی شقوں کا خاتمہ کیا جائے۔ درحقیقت جو لوگ سیاسی، صحافتی، دانشوری اور مذہبی اداروں کے ذریعے باالواسطہ طور پر دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں وہ بھی دہشتگردی میں شریک کار ہوتے ہیں۔

ٹی وی چینیلوں پہ آ کر بڑی چالاکی سے گھما پھرا کر دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں ۔ جیسے خواجہ آصف کے نیویارک میں دیے گئے اس بیان کی مخالفت کی گئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''امریکی آلہ کار بن کے ہم نے غلطی کی تھی '' اس پر خارجہ کمیٹی کے ارکان، تحریک انصاف کے عمران خان اور آفتاب شیرپاؤ نے ان پر تنقیدکرکے باالواسطہ طور پر دہشتگردی کی حمایت کی۔ مذہب کے نام پر جولوگ عوام کو نصیحت دینے میدان میں آ تے ہیں ان میں ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں کہ ان میں سے دہشتگردی کے لیے پودے تلاش کرتے ہیں اور انھیں چھانٹ کر اس کام میں لگا دیا جاتا ہے۔ یہ کام مدرسوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں ،امام بارگا ہوں اور مسجدوں میں کیا جاتا ہے اور پھر بھولے، سادے اور بیروزگار نوجوانوں کو دہشتگردی کے لیے اکسا کر ان کی زندگی سے کھیلا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی نرسریوں، تشریحاتی اداروں اور سہولت کار جماعتوں کی بھی سخت نگرا نی کی جائے۔

حالیہ واقعات جو اخبارات میں چھپ چکے ہیں کہ ایک مدرسے پر رینجرز نے چھاپہ مارکر دہشتگردی کا مواداور اسلحہ برآمد کیا اور ایک شخص کو تھانے لے گئے۔ اس کے بعد مدرسے کے علماء حضرات تھانے پہنچے اورکہا کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ رینجرز آ فیسر نے کہا کہ مہمان ہوگا لیکن اس کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ جس پر علماء نے جواب دیا کہ یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ اس مباحثے کے دوران کہیں سے فون آیا اور اس دہشتگرد کو چھوڑدیا گیا۔ لہذا ان خفیہ ہاتھوں کو بھی تلاش کرنا ہے اور انھیں ڈھونڈ نکالنا ہے۔ تب جاکر دہشتگردی اور قتل وغارت گری کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ تمام تر واقعات افغان ثور انقلاب کے خلاف رد انقلاب یعنی سامراجی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ جس کے خلاف نجیب اللہ آخر وقت تک ڈٹ کر لڑتے رہے اور اسی لڑائی میں اپنی جان مادر وطن افغانستان کی نذر کردی۔ ہمیں اس بات کا عہدکرنا ہو گا کہ ہر قسم کی فرقہ واریت، منافرت اورمذہبی تعصبات کو ختم کرنے کے لیے ڈاکٹر نجیب کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا اور مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی اور تفرقہ پرستی سے بالاتر غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں