پیپلزپارٹی کیخلاف مخالف سیاسی جماعتیں پھر سرگرم

باغی گروپ کی تشکیل کیلیےغلام مرتضیٰ جتوئی،پیر صدر الدین شاہ راشدی، ذوالفقار مرزا، ارباب غلام رحیم کو ٹاسک سونپ دیا گیا


G M Jamali October 05, 2017
اربوں روپے کی مبینہ کرپشن اجاگرکرنے کیلیے حیدرآباد، دادو، لاڑکانہ ، سکھر ، خیرپور ، مورو اور دیگر اضلاع میں جلسے کیے جائیں گے فوٹو: فائل

پیپلزپارٹی کو آئندہ انتخابات میں صوبے بھر میں کمزور کرنے کے لیے پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کو وسعت دینے اور سندھ ڈیموکریٹک الائنس کو دوبارہ بحال کرنے پر غور شروع کردیا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے درمیان باغی گروپ بھی تشکیل دیا جائے گا۔ انتہائی ذمے دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سے ناراض رہنماؤں سے رابطوں کاسلسلہ چہلم امام حسین ؓ کے بعد شروع کردیاجائے گا۔

اس ضمن میں این پی پی کے سربراہ غلام مرتضیٰ جتوئی ، فنکشنل لیگ کے صوبائی صدر پیر صدر الدین شاہ راشدی، ڈاکٹرذوالفقار مرزا، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو خصوصی ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ روز منعقدہ ایک اجلاس میں مذکورہ رہنماؤں نے پی پی پی مخالف رہنماؤں اور پیپلز پارٹی کے اندر ناراض اہم شخصیات کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔ اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے کی روشنی میں ترقیاتی منصوبوں میں گھپلوں، لاڑکانہ، خیرپور، نواب شاہ (بے نظیرآباد) پیکیج میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن، بے روزگاری، بیڈ گورننس کے حوالے سے حیدرآباد، دادو، لاڑکانہ ، سکھر ، خیرپور ، مورو اور دیگر اضلاع میں جلسے منعقد کیے جائیںگے تاکہ عوامی سطح پر سندھ میں گذشتہ9سال سے ہونے والی کرپشن کو بے نقاب کیا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ ماضی کی طرح سندھ ڈیموکریٹک الائنس کو دوبارہ فعال کیا جائے اور ایک ہی انتخابی نشان کے تحت آئندہ ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ لاڑکانہ ، جیکب آباد ، شکارپور ، کندھ کوٹ ایٹ کشمور ، سکھر اور دادو سمیت دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے پی پی رہنماؤںنے پارٹی قیادت سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے علیحدہ باغی گروپ تشکیل دینے کے حوالے سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کے سابق صدر سید غوث علی شاہ کو بھی پی پی مخالف رہنماؤں سے رابطوں کے لیے تیار کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ ڈیموکریٹک الائنس کی بحالی کی صورت میں مسلم لیگ (ق) ، مسلم لیگ (ٖف) ، این پی پی اور اتحاد میں شامل دیگر رہنما ایک ہی انتخابی نشان سے انتخابات میں حصہ لیں گے جبکہ مذکورہ اتحاد کا تحریک انصاف کے ساتھ بھی انتخابی الائنس متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں بعض رہنماؤں نے ایک انتخابی نشان کے تحت الیکشن میں حصہ لینے کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ ہر ضلع کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ اتحاد تشکیل دے کر پی پی کا مقابلہ کیا جائے تاہم اس ضمن میں حتمی فیصلہ سندھ آگہی مہم کے نتائج کے بعد کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔