کہیں ہم بھی کولن نہ بن جائیں…
ایک مربوط اور مضبوط خاندان فرد کی ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔
KABUL:
''کیا تمہارے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم ائیر پورٹ پر جہاز سے اتر کر، اپنا سامان وصول کر کے باہر نکلو تو تمہارے انتظار میں کوئی اپنا عزیزکھڑا ہوا ہو؟ '' کولن نے سوال کیا۔
'' ہاں ... ہمیشہ ایسا ہوتا ہے!!'' میں نے جواب دیا۔
'' جب تم کہیں جانے کے لیے ائیر پورٹ پر جاؤ تو کوئی رشتہ دارتمہیں الوداع کہنے کو آتا ہے؟ '' اس کے اگلے سوال میں نہیں بلکہ ا س کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ جو مجھے سمجھ میں نہیں آیا تھا۔''ایسے مواقع پر تو ہمارے ہاں رخصت ہونے والوں کے ساتھ ایک بہت بڑا مجمع ہوتا ہے... دو لوگوں نے جانا ہو تو آٹھ دس لوگ تو ضرور رخصت کرنے کو آتے ہیں!!'' میں نے اسے بتایا، ''کئی بار تو دوچار لوگوں کو بیس بیس لوگ بھی ائیر پورٹ تک چھوڑنے جاتے ہیں!'' میںنے اسے شرمندگی سے بتایا، کیا سوچتا ہو گا کہ لوگ ہمارے ہاں کتنے فارغ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے ائیر پورٹ پر قابل دید رش ہوتا ہے۔'' اچھا... '' اس نے ایک گہری سانس لی، ''میں سمجھا کہ میں تمہیں کوئی انوکھی بات بتانے والا ہوں جو میں نے یہاں ترکی میں دیکھی ہے!!'' اس نے وضاحت کی، ''میں تو جانے تیس سالوں سے سفر کر رہا ہوں یا بتیس سے مگر آج تک جب بھی کہیں گیا ہوں تو گھر سے ائیر پورٹ جاتے ہوئے اور واپس لوٹ کر گھر تک بھی ٹیکسی سے ہی سفرکرتا ہوں!!''
''اوہ... یہ تو بہت اچھی بات ہے، ظاہر کہ تم لوگوں کے ہاں پر کسی کو وقت کی اہمیت کا اندازہ ہے اور کسی کے پاس بھی ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے!!'' میں نے اسے تعریفی الفاظ کی سند دی۔''ارے نہیں... مجھے تو اچھا لگا ایسا دیکھ کر، میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ خوش قسمت لوگ ہیں جنھیں رخصت کرنے اور ان کا استقبال کرنے کو کوئی موجود ہوتا ہے، کتنا اہم لگتا ہے کہ کوئی آپ کے استقبال کے لیے کھڑا ہو، بار بار پرواز کی آمد کا وقت چیک کر رہا ہویاآپ جہاز کی طرف جاتے ہوئے آخری ڈیسک سے مڑ کر دیکھیں تو کوئی نم آنکھوں سے آپ کو جاتے ہوئے دیکھ کر زیر لب الوداعی الفاظ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ لہرا رہا ہو!''
''ہاں یہ تو ہے... '' میں نے فوراً پینترا بدلا۔
'' پتہ ہے، کل صبح غبارے کی فلائٹ کے دوران اپنے ساتھ کھڑے باقی لوگوں کو دیکھ رہا تھا، وہ سب دو یا اس سے زائد کے گروہ میں تھے، مردوں نے اپنی عورتوں کو اپنی بانہوں کے حلقے میں لے رکھا تھا جیسے انھیں تحفظ دے رہے ہوں اور یہ دیکھ کر مجھے لگا کہ میں اس غبارے پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں تنہا ہوں!! '' حسرت بھرا لہجہ۔''پانی لو گے تم؟'' میں نے پانی کی بوتل اسے پیش کی۔ گزشتہ سارا دن ہم نے پیاس کے مارے ہلکان ہو ہو کر گزارا تھا، جہاں کہیں رکتے اور پانی میسر آتا تو مجبورا تین سے چار گنا قیمت پر پانی کی بوتلیںخریدنا پڑیں تو میں نے اس روز کے لیے قریبی اسٹور سے ایک درجن بوتلیں خرید لیں، جن کی قیمت میں سیاحتی مقامات پر پانی کی ویسی ہی صرف تین بوتلیںملتیں۔
'' تم مجھ سے پانی کا پوچھ رہی ہو؟'' pigeon valley میں پس منظر میں کبوتروں کی غٹرغوں اور سیاحوں کے شور کی وجہ سے وہ سن نہ سکا تھا۔'' ہاں ... '' کہہ کر میں نے ایک بوتل اس کی طرف بڑھائی۔
''شکریہ!'' کہہ کر اس نے بے یقینی سے وہ بوتل پکڑی۔ اس نے کہا نہیں مگر اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اسے مفت میں کچھ دے سکتا ہے، ''تمہاری بہت مہربانی، مجھے پانی کی بہت طلب ہو رہی تھی، یہاں گرمی ناقابل برداشت ہے!!'' پچھلے روز ہی ا س کی حالت دیکھ کر میں نے اسے مشورہ دیا تھاکہ وہ کوئی سن بلاک خرید لے جو ا س نے یقینا لے لیا ہو گا مگر کپاڈوکیہ ( ترکی) کے سنگلاخ پہاڑوں پر پڑنے والی حدت کا کوئی سن بلاک مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔
کولن Colin) ) امریکی تھا اور استنبول سے ہم اور وہ ایک ہی پرواز پر کپاڈوکیہ آئے تھے... ہم نے سوئے اتفاق ایک ہی ٹور گروپ سے بکنگ کروا رکھی تھی اس لیے ایک دن پہلے صبح کے اڑھائی بجے ہمیں ہمارے ہوٹل سے لے کر جب گاڑی نے ایک اور ہوٹل کا رخ کیا تو اندازہ ہوا کہ ہمارا شریک سفر کولن اسی گروپ کا حصہ ہے۔ علیک سلیک ہوئی اور اس کے بعد کپاڈوکیہ کے قیام میں ہمارا اور اس کا ہوٹل مختلف تھا مگر دن کا اور تمام وقت تفریحی اور تاریخی مقامات کے سفر میںکافی ساتھ رہا تھا۔''کیوں کولن ... تمہاری اپنی کوئی فیملی نہیں ہے... والدین، بہن بھائی اور بیوی بچے؟؟''
کپاڈوکیہ کے قیام کے اختتام پر ہم اور وہ ائیر پورٹ کے روانگی والے لاؤنج میں استنبول کے لیے اپنی پرواز کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے... ارد گرد رخصت ہوتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اس کے ذہن میں سوال اٹھا تھا۔
''والدین کیلیفورنیا میں رہتے ہیں، سال میں ایک بار کوشش کر کے کرسمس پر انھیں اور اپنے دوسرے بھائی کو ملنے کے لیے جاتا ہوں، کبھی کبھار وہ بھی نہیں ہو پاتا۔ نیویارک میں میں ایک فرم میں بہت اچھی ملازمت پر ہوں اور زندگی اتنی تیز رفتار ہے کہ اس سے زیادہ بار وقت نہیں نکال پاتا۔ دنیا گھومنے کا شوق مجھے آوارہ گرد بنائے ہوئے ہے ... بیوی بچے!!'' وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔ یقینا اس کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو چکی ہو گی، میں نے نتیجہ اخذ کیا۔
'' سوری مجھے تم سے ذاتی سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا!! '' میںنے معذرت کی۔'' کوئی بات نہیں... '' اس نے مسکرا کر کہا، ''شادی نہیں ہوئی میری!!''
''ہائیں ... وہ کیوں؟ '' اس کی شکل و صورت اچھی خاصی تھی، وہ اسمارٹ بھی تھا اورملازمت بھی اچھی بتا رہا تھا۔ عمر بھی اس کی چالیس سے اوپر ہو چکی ہو گی۔ میںنے پاکستانی ذہن سے سوچا تو مجھے کوئی وجہ نظر نہ آئی کہ اس کی شادی نہ ہوئی ہوتی۔''وقت نہیں ملا... اور اب مناسب رشتہ نہیں ملتا!!'' اس نے دیانتداری سے بتایا۔ '' اب بھی کچھ نہیں بگڑا... تم خلوص سے ڈھونڈو تو تمہیں کوئی مناسب بر مل جائے گا!!'' میں نے اسے مشورہ دیا، دل میں سوچا کہ ہوتا یہ پاکستان میں تو کب سے اس کی شادی ہو چکی ہوتی اور اب تو اس کے بچے بھی ہائی اسکول میں ہوتے۔
''ہم اپنی اپنی ذات میں بہت تنہا ہو گئے ہیں!! '' اس نے حسرت سے کہا، ''رشتے کمزور اور ناپائیدار ہو گئے ہیں، مادہ پرستی نے ہمیں اپنے پیاروں سے دور کر دیا ہے، ہمیں کام کے ایسے گورکھ دھندوںمیں الجھا دیا ہے کہ ہمارے پاس اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے وقت نہیں ہے... ہمارا ایک دوسرے سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔ جس عمر میں ہم اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اس کے بعد ہمارا اپنے والدین سے کوئی تعلق رہتا ہے نہ ان کا ہم سے، ہمیں ان کے اور انھیںہمارے مسائل کا علم نہیں ہوتا!'' وہ رکا، ''میں جب مشرقی معاشروں کے بارے میں پڑھتااور دیکھتا ہوں تو مجھے وہ سب ناقابل یقین لگتا ہے... انسان رشتوں کی ڈور میں کتنی مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں، ان کے سکھ اور دکھ سانجھے ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ سب کچھ شئیر کرتے ہیں، غم بھی اور خوشیاں بھی۔ ہمارے ہاں تو کوئی کسی کو یوں پانی کی پوری بوتل نہیں دے دیتا جب تک اس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو!!''
''تم اب بھی اپنے والدین کو وقت اور توجہ دو، انھیں کوشش کر کے ملنے کے لیے جایا کرو تو تمہیں بھی ایک فیملی مل جائے گی اور تمہارے دل کی کئی حسرتیں ختم ہو جائیں گی!'' میں نے اسے ''مفت'' میں مشورہ دے دیا، وہ بھی ان کے ہاں کوئی نہیں دیتا ہو گا۔پرواز کے دوران میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے ہاں کے جوانوں کی سوچ ہے کہ رشتے او ر تعلق بوجھ اور obligation ہوتے ہیں، مسائل اور تکلیف کے حل کے لیے، خاندان کے ملوث ہونے کو وہ غیر ضروری مداخلت کہتے ہیں۔ انھیں اس معاشرے میں سب اچھائیاں نظر آتی ہیں جہاں کا فرد اپنی ذات میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے اور اپنے رشتے ہوتے ہوئے بھی وہ ان سے لاتعلق ہے۔ یہ منفی سوچ اور رجحان بد قسمتی سے اب ہمارے ہاں بھی در کرتا آ رہا ہے۔ ایک مربوط اور مضبوط خاندان فرد کی ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔ بسا اوقات سر رکھ کر آنسو بہانے کے لیے ایک کندھا دنیاکی سب سے بڑی نعمت لگتا ہے، بے لوث اور بے ریا محبت نچھاور کرنیوالے والدین، پیار کرنیوالے بہن بھائی، مضبوط ڈور میں بندھے ہوئے رشتے داراور مخلص دوست وہ نعمتیں ہیں جو ہمیں اب بھی میسر ہیں۔ کہیں مغرب کی اندھی تقلید میں انھیں کھو کر ہم بھی کولن نہ بن جائیں!!