ڈاکیے سے ڈاکوؤں تک
ہماری مشرقی شاعری اور روحانی داستانوں میں قاصد، نامہ بر اور ڈاکیہ بلکہ ڈاک بابو بڑے معروف کردار رہے ہیں
گزشتہ چند برسوں سے مختلف حوالوں سے عالمی سطح پر ''دن'' منانے کا رواج اب ہمارے یہاں بھی کم از کم فیس بک کی حد تک بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی نوعیت، اہمیت اور ضرورت سے جزوی سطح پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے مگر ایک بات غیر مشروط اس کے حق میں جاتی ہے کہ یہ دن رنگ، نسل، زبان، قوم، علاقے اور معاشی سطح پر غربت اور امارت کی تقسیم سے بالاتر ہوکر منائے جاتے ہیں اور یوں کسی نہ کسی حد تک ان کا اطلاق پوری نوع انسانی پر یکساں اور ایک ساتھ ہوتا ہے اور یوں اس طرح کے پیغام بھیجنے والوں کا پہلا اور بنیادی رشتہ ''انسانیت'' کا ہوتا ہے کہ اس کا محرک ہی Fellow Human Being ہونا ہے ان میں سے ایک قدرے کم معروف دن ''ڈاک کا عالمی دن'' ہے جو 9 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔
میرے جاننے والوں میں سے شعر برادری کی حد تک مرحوم ضیا جالندھری کے علاوہ صرف عزیزی نبیل قیصر ہی ایک ایسا شخص ہے جس کا اس شعبے سے پیشہ ورانہ تعلق بھی قائم ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ ضیا جالندھری مرحوم اس محکمے کے افسر اعلیٰ رہے اور عزیزی نبیل قیصر گزشتہ تقریباً تیس برس سے اوکاڑہ کے علاقے میں ڈاکیے یا اس سے ملتی جلتی نوکریاں نمٹاتا چلا آرہا ہے۔ وہ بوجوہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرپایا مگر شعر و ادب اور مصوری سے اس کا شغف غیر معمولی بھی ہے اور مستقل بھی۔
ہم سب کی طرح اسے بھی احساس ہے کہ یہ محکمہ اب قریب المرگ ہے کہ انفرمیشن ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا طوفان صدیوں سے قائم اداروں کے ساتھ ان کی یادوں کو بھی نگلتا چلا جا رہا ہے لیکن وہ طبعاً چونکہ ''وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے'' کا قائل ہے اس لیے اب بھی اس دن کے حوالے سے مجھ سمیت اپنے احباب کو یاد دہانی کے پیغام بھیجتا رہتا ہے۔
ہماری مشرقی شاعری اور روحانی داستانوں میں قاصد، نامہ بر اور ڈاکیہ بلکہ ڈاک بابو بڑے معروف کردار رہے ہیں اور ہماری عام گفتگو میں بھی ماضی قریب یعنی Fax مشین کے دور تک نامہ بری کے ان مانوس حوالوں کا ذکر بہت کثرت سے موجود رہتا تھا اور کچھ شعر اور مصرعے تو اس قدر زبان زد خاص و عام تھے کہ جیسے یہ کوئی لوک گیت ہوں
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس تھا!
ایسا ہو کوئی نامہ بر، بات پہ کان دھرسکے
سن کر یقین کرسکے، جاکر انھیں سنا سکے۔
اسی طرح ''چھٹی میرے ڈھول دی پہنچائیں وے کبوترا'' اور ''نامے کے کیے ٹکڑے قاصد کو بٹھا رکھا'' کے ساتھ ساتھ برصغیر میں باقاعدہ پوسٹل سروس کے ابتدائی دنوں میں بقول آتش ''عریضے ہوتے ہیں چاروں طرف کی ڈاک سے پیدا'' کی رنگارنگ آواز میں بھی ایک ایسی معاشرتی فضا کی نمائندگی کرتی تھیں جس میں خط سچ مچ نصف ملاقات کا درجہ رکھتے تھے اور ہمارے کئی مشاہیر کی زندگیوں اور ان کے فکر و فن کی تفہیم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ان کے لکھے ہوئے خطوط ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ ''خطوط غالب'' نے تو ان کوایک باقاعدہ ادبی صنف کا درجہ دے دیا کہ یہ اردو کی قدیم اور جدید نثر کو ملانے والے پل کا کام دے رہے ہیں۔
کاغذ پر لکھے اور ضرورت کے مطابق طرح طرح کے لفافوں میں بند کرکے بھیجے جانے والے ان خطوں، ڈاک کے ڈبوں، ڈاک خانوں اور ڈاکیوں کی اس دنیا میں خبر اور اطلاع کے ساتھ جو رومان اور طلسمات کی فضا قائم ہوئی تھی اب وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے کہ ای میل میسنجر، واٹس ایپ اور فیس بک نے اس پرائیوئسی اور دو طرفہ ملاقات کی اپنائیت اور رومان کو جس بری طرح سے مجروح اور برباد کیا ہے اس کا اندازہ ممکن ہے ہمارے بعد کی نسلوں کو نہ ہو سکے کہ وہ اس ذائقے سے آشنا ہی نہیں ہوں گے۔
مگر موبائل اور بالخصوص اسمارٹ فون کی ایجاد سے قبل کی دنیا میں جینے والے لوگوں کے لیے یہ نئے ڈاکیے کسی بھی طرح ڈاکوؤں سے کم نہیں اور ڈاکو بھی وہ جو صرف قتل ہی نہیں کرتے بلکہ مقتولین کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں کہ ان کی رسائی ان معاملات اور معلومات تک بھی ہے جنھیں لوگ بعض اوقات اپنے آپ سے بھی چھپا کر رکھتے ہیں۔
اب یہ معاملہ چونکہ بہت سنگین ہے اس لیے اس پر مزید بات کرنے سے پہلے خط کی پرانی دنیا سے متعلق ایک بہت دلچسپ اور مزیدار واقعہ جس کی ظاہری صورت اگرچہ بالکل ایک بنائے ہوئے لطیفے جیسی ہے مگر یقین کیجیے کہ یہ ایک بالکل سچا یعنی امر واقعہ ہے۔
ہوا یوں کہ بھارت کے ایک نیم ادبی قسم کے رسالے میں وہاں کے ایک بہت معروف اور مقبول مشاعراتی شاعر کی دوسری بیگم کا اپنے شوہر کی تعریف میں لکھا گیا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے اسمائے صفت کا استعمال ناقابل یقین فراخدلی سے کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موصوف اس وقت اردو دنیا کے سب سے بڑے شاعر سے بھی کچھ زیادہ بڑے ہیں اور اس کی مثال کچھ یوں دی کہ مرزا غالب کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں ایک ہفتے میں دس سے پندرہ تک تعریفی خطوط موصول ہوتے تھے جب کہ ان کے شوہر کو فی ہفتہ ملنے والے خطوط کی تعداد اس سے بیس گنا زیادہ ہے۔ اب مقام کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتی ہوں (بعد میں کچھ واقفان حال نے بتایا کہ یہ مضمون ان صاحب نے خود لکھ کر اپنی بیگم کے نام سے چھپوایا تھا)۔
اس واقعے کی محرک خود پرستی اور مضحکہ خیزی اپنی جگہ لیکن اس سے ایک اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ خط کی ہماری معاشرتی زندگی میں کیا اہمیت ہوا کرتی تھی۔ فی زمانہ کسی شعر، شخص، کردار یا بات کی مقبولیت کا اندازہ اس کو Like یا اس پر Click کرنے والوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے جس کا جھوٹ سچ اپنی جگہ مگر سب سے خطرناک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان پراسرار مشینی ذرائع نے ہماری کوئی بھی بات اور کوئی بھی لمحہ ''ہمارا'' نہیں رہنے دیا۔ غالب نے تو ایک خاص ذہنی و روحانی کیفیت کے حوالے سے کہہ دیا تھا کہ
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
لیکن اب ہماری ہر خبر ''وہاں'' موجود ہے جہاں کا حدود اربعہ خود ہمیں بھی معلوم نہیں۔ اور یہ سب کچھ ہم سے پوچھے بنا کیا جارہا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اب پردہ یا پرائیویسی کو بنیادی انسانی حقوق کی فہرست سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا ہے؟