سلام استاد
آج استادوں کی بے توقیری کی کچھ ذمے داری خود اساتذہ اور کچھ والدین پر عائید ہوتی ہے۔
5 اکتوبر کی دوپہر میں کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں بارہ پندرہ طلبہ کے درمیان تھی۔ یہ آصف فرخی کے طلبہ سے ملاقات کی تقریب تھی۔ وہ لڑکیوں اور لڑکوں کو اردو پڑھاتے ہیں، ان میں سے چند 2017 کی ابتدا میں شائع ہونے والی میری کتاب The House of Loneliness پڑھ چکے تھے۔ یہ میری اردو کہانیوں کے تراجم ہیں۔ ان مترجمین میں فیض صاحب، ثمینہ رحمن، محمد عمر میمن، رشمی گووند، یوسف شاہد اور شاہ بانو کے علاوہ کئی دوسرے بھی شامل ہیں۔ اس روز میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات تھی کہ میری بیٹی فینانہ فرنام دو دن کے لیے کراچی آئی تھی اور وہ بھی وہاں موجود تھی۔ انوشہ یہ کہانیاں پڑھ کر آئی تھیں اور ان کے بارے میں مجھ سے بہت سی باتیں پوچھنا چاہتی تھیں۔
اس روز ان نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں سے باتیں کرتے ہوئے مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ آج 5 اکتوبر ہے، استادوں کا عالمی دن۔ اس روز دنیا کے مختلف شہروں میں پڑھنے والے اپنے پڑھانے والوں کو یاد کررہے تھے، ان کے احترام میں سر جھکا رہے تھے۔ کراچی کے ایک تعلیمی ادارے فاطمہ جناح گورنمنٹ گرلز اسکول اور کالج کی لڑکیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر وسیع میدان میں ''سلام استاد'' لکھا اور منیلا کے علاوہ دنیا کے کئی شہروں میں بچوں نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اپنے استادوں کی محنت، محبت اور عظمت کا اعتراف کیا۔
ہمارے یہاں ایک زمانہ تھا کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ بعض حالات میں خون کے رشتوں سے افضل ٹہرتا تھا اور وہ بچے جو اپنے استاد کا احترام نہ کریں ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کتنا ہی پڑھ لیں، علم کی دولت سے محروم رہیں گے۔
اردو اور ہماری دوسری زبانوں میں استاد اور شاگرد کے رشتے کے بارے میں کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ اس وقت اشفاق احمد کا ایک افسانہ 'گڈریا' یاد آیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے استاد اور شاگرد اور ہندو مسلم رشتے کے حوالے سے شاید ہی کوئی دوسرا افسانہ 'گڈریا' کی ہمسری کرتا ہو۔ مسلمان شاگرد ہے اور فارسی، عربی اور اردو میں طاق استاد جو پیدائشی اعتبار سے ہندو ہے اور 'داؤجی' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ جس عقیدت اور احترام سے مسلم اکابرین کا نام لیتا ہے، اس کا ہم اس وقت تک اندازہ نہیں کرسکتے جب تک اس افسانے کو سطر سطر پڑھ نہ لیں۔
منکسرالمزاجی کے سبب داؤجی اپنا تعلق ابوجہل کے خانوادے سے جوڑتے ہیں اور اپنے استاد کے بارے میں کہتے ہیں ''میں حضور کے درکا ایک ادنیٰ کتا۔ میں حضرت مولانا کی خاک ِ پا سے بدتر بندہ' حضرت کے ایک اشارے نے مجھ چنتو کو منشی چنت رام بنا دیا۔'' 'گڈریا' ایک ایسی کہانی ہے جو آخر کو پہنچتے پہنچتے رقت طاری کردیتی ہے۔ اس میں ایک ایسا استاد ہے جو نا بینا ہے اور اپنی پیٹھ کو تختی یا سلیٹ کی طرح استعمال کرتا ہے۔ پشت پر سے کرتا ہٹا کر شاگرد سے کہتا ہے کہ وہ اپنی انگشت شہادت سے اس پر جیومٹری کی شکلیں بناتا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔
نابینا استاد، شاگرد کی انگلی کی جنبش سے بنی ہوئی اشکال کو بول بول کر درست کرتا جاتا ہے اور پھر کہانی کے آخری مناظر ہیں جب ملک کا بٹوارا ہوچکا ہے اور غنڈوں کے ایک جتھے نے داؤجی کو گھیر لیا ہے۔ ان کی پگڑی اتار لی گئی ہے۔ شاگرد اس منظر کو دیکھتا ہے، ان غنڈوں کو داؤجی کی بے ادبی سے روکنا چاہتا ہے لیکن خونیں آنکھیں اور ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ کر لرز جاتا ہے۔ پھر مسواکیں کاٹنے والی درانتی سے داؤجی کی بودی (چٹیا) کاٹ دی جاتی ہے۔ کچھ انھیں قتل کرنے کے درپے ہیں۔ ایک ان سے کلمہ پڑھنے کی فرمائش کرتا ہے۔ عالم و فاضل داؤجی پوچھتے ہیں ''کون سا کلمہ؟''
محلے کا ایک نامی گرامی غنڈہ ان کے ننگے سر پر اس سختی سے چپت مارتا ہے کہ داؤجی گرتے گرتے بچتے ہیں۔ وہ انھیں گالی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ''سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں؟'' یہ جملہ ہم سے کیا کہتا ہے۔ آپ خود ہی غور کریں۔ مجھ میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں۔ سوچتی ہوں کہ یہ افسانہ ہمارے نصاب میں کیوں شامل نہیں؟ یہ ہمارے سامنے کیسے رمز آشکار کرتا ہے۔ آج اکیسویں صدی کی ابتدا میں بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں لکھا جانے والا یہ افسانہ ہمارے بچوں کو شاید کچھ عجیب سا لگے۔ وہ کہیں کہ کمپیوٹر ایج میں اس افسانے کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔
ایسے میں ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ مغرب جہاں یہ تمام ایجادات ہورہی ہیں، انھوں نے اپنے قدیم حوالوں کو کیوں ترک نہیں کیا۔ وہ کیوں یونانی اور لاطینی میں لکھے ہوئے ادب سے اپنا رشتہ کچھ اس طرح جوڑتے ہیں جیسے یہ کل کی باتیں ہوں۔ ان کے بچے اور نوجوان یہ پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ ان کے خلائی جہاز مریخ اور مشتری کی خبر لا رہے ہیں لیکن وہ یولیسس کو بھی پڑھتے ہیں اور اوڈیسی سے بھی ان کا تعلق ہے۔ جدید و قدیم کا جیسا خوب صورت امتزاج مغرب میں پایا جاتا ہے، اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک خوشگوار بات ہے کہ اب کچھ دنوں سے ہمارے یہاں اس طرف توجہ دی جارہی ہے۔ چند افراد اور ادارے کوشش کررہے ہیں کہ نئی نسل کو پرانی روایات اور اقدار سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ ایسے ہی لوگوں اور اداروں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں 'سلام استاد' کا دن منایا اور نئی نسل کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ استاد کی عزت و اہمیت کے بارے میں ہماری روایات سے آگاہ ہوسکیں۔
آج استادوں کی بے توقیری کی کچھ ذمے داری خود اساتذہ اور کچھ والدین پر عائید ہوتی ہے۔ آج بھی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں استاد کی عزت و احترام میں کمی نہیں آئی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بڑھتے اور پھیلتے ہوئے شہروں نے ہماری بہت سی خوبصورت روایات اور اقدار کو نگل لیا ہے۔
5 اکتوبر کو حبیب یونیورسٹی میں مجھ سے سوال کیا جارہا تھا کہ میں پاکستان میں رہنے کے باوجود دنیا کے ان دوسرے علاقوں کے بارے میں کیوں لکھتی ہوں جہاں درد کے دریا بہتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ کیا ادیب خونیں تنازعات کے دنوں میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟ ان کے لکھے ہوئے لفظ نفرتوں کے زہر کے لیے امرت ہوسکتے ہیں؟ میرا کہنا تھا کہ جنگ کے دنوں میں یہ ادیب ہوتے ہیں جو اپنے لفظوں سے اُمید کے چراغ جلاتے ہیں اور دل زدہ انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔
وہ بات جو کہنے سے رہ گئی، وہ یہ تھی کہ ان کے ذہنوں میں روشن دماغی اور انسان دوستی کے بیج ان کے استاد بوتے ہیں۔ انھیں سینچتے ہیں اور دنیا کو ایک دل کش اور دل آرام جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس روز اگر مجھے یاد ہوتا کہ آج استاد کا دن ہے تو میں انھیں مقتول امریکی صدر ابراہم لنکن کا ایک خط سناتی جو لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کے نام لکھا تھا۔ لنکن کا کہنا تھا کہ:
میں جانتا ہوں کہ اسے یہ سیکھنا ہے... کہ سب لوگ اچھے نہیں... کہ سب لوگ سچے نہیں، لیکن اسے یہ سکھایے... کہ ہر ظالم کا سامنا کرنے کے لیے بھی ایک ہیرو ہوتا ہے... اور ہر خود غرض سیاستدان کے لیے بھی ایک سچا لیڈر ہوتا ہے... اسے سکھایے کہ ہر ایک دشمن کے لیے، ایک دوست ہوتا ہے... اگر آپ کر سکتے ہیں... تواسے حسد سے بالاتر کردیں... اسے سب سے پہلے سکھائیں کہ دھونس دینے والوں کو آسانی سے دبایا جاسکتا ہے... اسے سکھائیں، اگر آپ سکھا سکتے ہیں کہ کتاب کا جادو، بے مثال ہے... اسے وقت دیں تاکہ وہ یہ غور کرے کہ... پرندوں کا آسمان کی طرف اڑنا... شہد کی مکھیوں کا دھوپ میں نکلنا... اور پہاڑوں میں گلابوں کا کھلنا...ان باتوں کے پیچھے کیا راز ہیں... اسے سکھائیں کہ اسکول میں نقل کرنے سے فیل ہوجانا کہیں زیادہ باعثِ عزت ہے... اسے سکھائیں کہ اپنے خیالات پر یقین رکھنا کس قدر اہم ہے... چاہے دوسرے اس سے کہیں کہ اس کے خیالات غلط ہیں... کوشش کریں کہ میرے بیٹے کو ایسی طاقت دیں... کہ وہ ہجوم کے پیچھے نہ بھاگے... جب کہ ہر کوئی اس میں شامل ہورہا ہو... اسے یہ بھی سکھائیں کہ وہ...اچھی اور بری باتوں میں تمیز کرے اور صرف اچھی باتوں کو دل سے لگائے... اگر آپ سکھا سکتے ہیں تو اسے سکھائیں کہ جب دکھی ہو اس وقت کیسے مسکرائے... اسے سکھائیں کہ آنکھوں میں آنسو آجائیں تو اس میں شرم کی بات نہیں۔ اسے سکھائیں کہ قنوطیت پسندوں سے دور رہے... اسے سکھائیں کہ ہمیشہ خود پر یقین کرے... کیونکہ جب اس کو خود پر یقین ہوگا... تو وہ انسانیت پر یقین رکھے گا۔یہ ایک باپ کی طرف سے بہت بڑی توقع ہے... آپ وہ ضرور کریں، جو کرسکتے ہیں اور دیکھیں کہ آپ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں... میرا بیٹا بہت ہی نفیس ننھا انسان ہے۔
ابراہم لنکن نے یہ خط اپنے بیٹے کے استاد کے نام لکھا تھا اور اس کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک خالص باپ بن گیا تھا۔ آج ہمیں ایسے ہی والدین اور ایسے ہی استادوں کی ضرورت ہے جو ہماری نئی نسل کو شعور اور دانائی عطا کرسکیں۔ ایسے ہی استادوں کے لیے ہمارے بچے 'سلام استاد' کی انسانی زنجیر بنائیں گے۔ ان بچوں پر ہمیں ناز ہوگا اور اس کا یقین بھی کہ ہمارا سماج بہتر رنگ اختیار کرے گا۔