کراچی سمیت ساحلی علاقے میں زلزلے و سونامی کا خطرہ

خطرناک فالٹ لائن زون کی پٹی پرواقع ہیں، بحیرہ عرب میں 3 پلیٹس کے ٹکرانے سے ان علاقوں میں سونامی اور زلزلہ آ سکتا ہے


Syed Ashraf Ali October 08, 2017
سندھ میں کراچی اور دیگر اضلاع میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے صوبائی و مقامی حکومتوں کی تیاریاں تک مکمل نہیں ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی سمیت سندھ وبلوچستان کا ساحلی علاقہ خطرناک فالٹ لائن زون کی پٹی پرواقع ہے اور زلزلہ وسونامی کا خطرہ موجود ہے۔

کراچی سمیت سندھ وبلوچستان کا ساحلی علاقہ 3 پلیٹس کے جنکشن پر واقع ہے جس سے زلزلے وسونامی کا خطرہ موجود ہے، ماضی میں 28 نومبر 1945ء میں بحیرہ عرب کے شمال اور مکران کوسٹل میں خطرناک سونامی آنے سے 4ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے ، اس سونامی کے اثرات کراچی کے جزائر پر بھی پڑے تھے۔

مختلف ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی بحیرہ عرب کے ساحل کے موڑ پر واقع اس لیے سونامی سے محفوظ ہے تاہم محکمہ موسمیات کے متعلقہ افسران کی آرا اس سے مختلف ہے جس کے تحت مکران سب ڈکشن پر آنے والے سونامی سے کراچی بھی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

دریں اثنا کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے صوبائی ومقامی حکومتوں کی تیاریاں مکمل نہیں ہیں، متعلقہ سرکاری اداروں نے بڑی ناگہانی آفات زلزلہ ، سونامی، طوفان یا دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے نہ تو پیشگی کوئی انتظام کیا ہے اور نہ ہی قدرتی آفات آنے کے بعد ریسکیو آپریشن کرنے کی اہلیت موجود ہے، سول ڈیفنس 20 سال سے غیرفعال، پی ڈی ایم اے بھی عملی طور پر امدادی سرگرمیاں انجام دینے سے قاصر ہے جبکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی بڑی ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے مکمل استطاعت نہیں رکھتی، تین اسنارکل اور33 آگ بجھانے والی گاڑیاں کئی برسوں سے خراب ہیں۔

کراچی میں 85 فیصد سے زائد بلند عمارتوں کی تعمیرات میں قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے، کراچی میں زیادہ شدت کا زلزلہ، سونامی و دیگر بڑی ناگہانی آفات انتہائی تباہی کا سبب بن سکتی ہے، ماضی میں محکمہ سول ڈیفنس کے تحت ہر یونین کمیٹی میں ایک وارڈن اور 5رضاکار ہوتے تھے جومقامی سطح پرتمام نجی وسرکاری عمارات، اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی آبادی کی مکمل معلومات رکھتے تھے، علاقائی سطح پر سائرن سسٹم موجود ہوتا تھا جبکہ رضاکاروں کی اعلیٰ نوعیت کی تربیت بھی کی جاتی تھی، 20سال سے یہ محکمہ غیرفعال ہے، مقامی سطح پر رضاکار موجود نہیں ہے جبکہ سول ڈیفنس کے ٰ حکام صنعتی سطح پر حفاظتی اقدامات کے معائنے کے بہانے لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔

8 اکتوبر 2005ء میں ملک میں آنے والے خطرناک زلزلے کے بعد نینشل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ 2006ء میں قائم کیا گیا، بعدازاں 18ترمیم کے تحت 2010ء میں اختیارات صوبائی حکومت کو تفویض کردیے گئے، تقریباً 12سال گزرجانے کے باوجود یہ ادارہ ناگہانی آفات کے بعد امدادی سرگرمیاں کرنے کے قابل نہیں بنا ہے، اس وقت یہ ادارہ صرف متعلقہ سرکاری ونجی محکمہ میں رابطہ وآگاہی مہم، تربیت، ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان اور وارننگ جاری کرنے کے فرائض انجام دے رہا ہے۔

کراچی میں بلند عمارتوں کا جنگل قائم ہو چکا ہے ، 85فیصد سے زائد عمارات کی تعمیرات میں قوائد و ضوابط کی خلاف وزری کی گئی ہے جبکہ زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیرات کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے، کراچی میں زلزلہ یا سونامی آنے کی صورت میں بڑی تباہی آنے کا امکان ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کا محکمہ فائر بریگیڈ چھوٹی قدرتی یا غیر قدرتی آفات کی صورت میں امدادی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے جبکہ بڑی ناگہانی آفات سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے، متعلقہ محکمہ کے پاس اسوقت صرف 45فائر ٹینڈر ہیں جن میں صرف 12صحیح حالت میں ہیں جبکہ 33آگ بجھانے والی گاڑیاں خراب ہیں، چاراسنارکل موجود ہے، صرف ایک اسنارکل کام کررہی ہے تین اسنارکل کئی سالوں سے خراب پڑی ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کا اربن سرچ اینڈ ریسکیو اکیڈمی(یو ایس آر اے) بھی بڑی آفات آنے کی صورت میں پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کے لیے بڑی سطح پر کارروائی کرنے سے قاصر ہے، اس کے پاس چھوٹی مشینری ، 48تربیت یافتہ ملازمین ہیں جو امدادی سرگرمیوں میں کام کرتے ہیں تاہم ہیوی مشینری، بلڈوزر، ڈمپر لوڈر،کرینیں اور ہیلی کاپٹر موجود نہیں ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں