سختیاں جھیلنے والے غریب
غریب بے مقصد تصادم کو پسند نہیں کرتا، ہمارے معاشرے میں عوام خوبصورت زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کرسکتے
قومی سطح پر عوام کا سب سے بڑا مسئلہ روایات کی پاسداری نہ کرنا ہے، جو دن بہ دن گمبھیر ہوتا جارہاہے۔ ہمارے نظام عدل میں بے شمار خامیوں کی وجہ سے ہم مایوسیوں کی دلدل میں اترتے جارہے ہیں، اگر اس معاشرے میں انصاف کا پرچم بلند نہ ہوا تو طبقاتی جنگ عروج کا راستہ اختیار کرلے گی، حصول انصاف کی راہیں محدود کردی گئی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عوام کے حق کی بات نہ کی جائے تو اس نے چیخ و پکار کے بجائے خاموشی اختیار کرلی ہے۔
غریب بے مقصد تصادم کو پسند نہیں کرتا، ہمارے معاشرے میں عوام خوبصورت زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے عوام کسمپرسی کی زندگی ان امیروں کے سامنے خاموشی سے گزارنے پر مجبور ہیں۔ مزے کی بات دیکھیں کہ سیاسی بیانات بڑے پرلطف ہوتے ہیں۔
عوام کے دلوں میں امید کی کرن جاگتی ہے مگر یہ صاحب حیثیت لوگ جب عوامی سطح پر کسی خوشگوار سیاسی بیان کو پڑھتے ہیں تو انھیں اس میں بڑی مشکلات نظر آتی ہیں، جب کہ ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے، مسائل جھیلنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے، یہ کروڑوں لوگ سیکڑوں لوگوں سے ہارجاتے ہیں اور پھر ان کے مسائل چنگاری کی طرح راکھ میں دب جاتے ہیں۔
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور بیوروکریٹ دانشمندانہ فیصلوں سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں اور تکبر کے چراغوں میں غربت کا خون جل رہا ہے۔ ہمارے سیاسی حضرات کے لیے عوامی تنازعات نمٹانے کے لیے وقت ہی نہیں ہے اور غریبوں کے لیے کیسی خوفناک صورتحال ہے۔
گزشتہ سال ایک اشتہار اخبارات میں آیا، جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عوام سے ایک وعدہ کیا تھا کہ شادیوں میں صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی۔ وہ گھرانے خوش ہوئے جن کے گھر بیٹیاں بیٹھی ہیں اور وہ غربت کی چھاؤں تلے اچھے وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ پھر کچھ دن بعد اخبارات میں ایک خبر بڑی نمایاں طور پر موجود تھی کہ کراچی میرج ہال، لان اور بینکویٹ اونرز ایسوسی ایشن کو کچھ اعتراضات ہیں اور پھر ان اعتراضات کو منظور وسان، ایم پی اے سعید غنی اور مولابخش چانڈیو کی توسط سے وزیراعلیٰ تک پہنچادیا گیا ہے اور آج اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے اور وہ اعتراضات بغیر کسی فیصلے کے جیت گئے اور غربت ہار گئی۔
یوں یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہوگیا اور ہوسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ اس بیان اور اس اشتہار کو بھول بھی چکے ہوں۔ مراد علی شاہ صاحب جو عزت رب کریم نے آپ کو دی ہے وہ بہت کم خوش نصیبوں کو ملتی ہے، آپ صوبہ سندھ کے اختیارات کے مالک ہیں اور ان اختیارات کی زد میں جو غربت کے مارے ہیں اور امیر جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں، دونوں آتے ہیں۔
آپ کل اختیارات کے مالک ہیں، آپ پہلی فرصت میں ون ڈش پر پابندی کا فوری اعلان کرکے غریبوں کی دعا کے حصار میں مقید ہوجائیں۔ وہ شخص جس کی چار بیٹیاں ہیں اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے، وہ تین سو افراد کے کھانے کے 2 سے 3 لاکھ کہاں سے لائے گا، اس میں ہال کا کرایہ شامل نہیں ہے، اگر آپ کھانے پر پابندی کا بل اسمبلی سے پاس کرواتے ہیں تو آپ کو اندازہ نہیں ان دعاؤں کے سحر میں آپ کا کتنا اقبال بلند ہوگا۔
اگر آپ شادی کے کھانے پر پابندی عائد کرنے پر کامیاب ہوجاتے ہیں تو غریب کے پاس تو عزت بچانے کے لیے ایک جملہ ہوگا کہ کیا کریں بھئی کھانے پر پابندی ہے۔ اس غریب کے پاس عزت اور رقم بچانے کا ایک راستہ تو ہوگا کہ وہ مالی طور پر توہین اور تذلیل سے بچ جائے گا۔ بینکویٹ ہال میں کرایہ ڈیڑھ لاکھ سے کم نہیں، ہماری اکثریت کرایہ کے مکان میں رہتی ہے اور ہر گھر میں بیٹیاں موجود ہیں۔
اب جس کی تنخواہ کم از کم چالیس ہزار ہے وہ بیس ہزار کرائے کی مد میں دیتا ہے، باقی بچے بیس ہزار اب اس بیس ہزار میں پیٹ کی دوزخ کو بھی بجھانا ہے، بچوں کی تعلیم بھی ہے، اب ایسے میں وہ کس طرح ہال کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ دے گا، کیسے ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ میں کھانے کا انتظام کرے گا۔
ہال کا مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے غریب کا کہ اسے سیکیورٹی دی جائے تو وہ باہر ٹینٹ لگا کر بھی ڈیکوریشن کا کرایہ 25 ہزار دے کر اپنی بچی کی شادی کردے گا اور ٹینٹ کے باہر شادی کے اختتام تک پولیس موبائل موجود ہوں اور شادی والا گھر عزت و تکریم سے پولیس موبائل کو 5 ہزار اچھی سیکیورٹی کے نام پر دے دیں، جس کی باقاعدہ رسید دی جائے اور یہ پیسے تھانے میں جمع ہوں جو پولیس ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے کام آئے۔
یہ تجویز آپ پاس کروائیں تاکہ ڈیڑھ لاکھ کرایہ جو غریب کے بس سے باہر ہوچکا ہے اس کی جان چھوٹ جائے۔ شادی کے کھانے پر فوری پابندی کا اعلان کریں۔ بینکویٹ اونرز ایسوسی ایشن کے اعتراضات تو مان لیے اور غریب بے چارہ مایوسی کی ڈفلی بجا رہا ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ماضی میں شادی کے کھانے پر پابندی عائد تھی، پرویز مشرف کا دور تھا، بحیثیت ایک صحافی ایک خوشحال امیر و کبیر سیاسی شخصیت کی بیٹی کی شادی میں جانے کا اتفاق ہوا، جب لان پہنچا تو ہال کو چاروں طرف سے پولیس اور سیکیورٹی والوں نے حصار میں لے رکھا تھا، وہاں ایم این اے، ایم پی اے، وزیر، مشیر، بیوروکریٹ، افسران کثیر تعداد میں موجود تھے، لاتعداد مختلف ڈشیں میزوں پر موجود تھیں اور آنے والے مہمانوں پر پھول نچھاور کیے جارہے تھے۔ یہ
تھی پابندی، عائد ہونے کے باوجود خوشحال گھرانے کی شادی جنھوں نے قانون کو لاقانونیت میں لپیٹ دیا اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا اور جو پوچھنے والے تھے وہ خود پہرے دار تھے۔ دوسری بات قابل غور ہے کہ شادی ہال کو رات بارہ بجے بند کرنے کا ایک قانون نافذ ہے، ان اوقات کو بارہ کے بجائے 11 بجے کیا جائے تاکہ لوگ جلدی سکون سے اپنے گھروں کو جاسکیں، اس پر بھی عمل کروائیں۔