میدانِ سیاست میں ہنگامہ

پیر مظہرالحق کے بیان پر سیاسی اور سماجی تنظیموں کا شدید ردعمل


Junaid Khanzada February 26, 2013
پیر مظہرالحق کے بیان پر سیاسی اور سماجی تنظیموں کا شدید ردعمل۔ فوٹو : فائل

گذشتہ ہفتے صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق بیان پر سیاسی درجۂ حرارت انتہا کو پہنچ گیا۔

حیدرآباد کے شہریوں کا یونیورسٹی کے قیام کا دیرینہ مطالبہ سندھ یونیورسٹی کی صورت میں پورا کیا گیا تھا، لیکن اسے جامشورو منتقل کردیا گیا، جس کے بعد یہ شہر سرکاری جامعہ سے محروم ہے۔ پچھلے دنوں ایک تقریب میں پیر مظہرالحق نے کہاکہ وہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی راہ میں آہنی دیوار ثابت ہوں گے۔ ان کے اس بیان پر شہری تشویش میں مبتلا تھے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور سندھ بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مقامی تاجروں کی نمایندہ تنظیم انجمن تاجران نے بھی اس بیان کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے اتوار کو ہڑتال کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں شہر میں کاروبار بند رہا اور ٹریفک معمول سے کم رہی۔ متحدہ کی رابطہ کمیٹی کے اعلان کے مطابق حیدرآباد میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا، جس سے زونل انچارج محمد شریف نے خطاب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیر مظہرالحق کا حیدرآباد میں یونیورسٹی نہ بنانے کا اعلان، درحقیقت بیان نہیں بلکہ ایک متعصب سوچ، نظریہ ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین، اسی متعصب رویے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سندھ کے عوام ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں، لیکن بعض سیاسی وڈیرے اور جاگیردار سندھ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کاکہنا تھاکہ پی پی کی اعلیٰ قیادت اگر پیر مظہر الحق کے بیان سے متفق نہیں تو اس کا نوٹس لے اور ان سے استعفی لیا جائے۔ دوسری صورت میں عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ ایک شخص کی نہیں، بلکہ پی پی کی سوچ ہے۔ آج سندھ کے عوام کو معلوم ہو گیاکہ کون یہاں تعلیم عام ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

جوائنٹ زونل انچارج نوید شمسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کا منشور بے روزگاری کا خاتمہ اور تعلیم کو عام کرنا ہے اور ایم کیو ایم نے اپنے منشور پر عمل بھی کیا، جس کی وجہ سے عوام میں شعور بیدار ہوا، جس نے سیاسی پیر اور وڈیروں کو خوف زدہ کر دیا ہے اور وہ سازشوں پر اتر آئے ہیں، لیکن ایم کیو ایم شاہ عبدالطیف بھٹائی کے فلسفے پر عمل کرتی رہے گی۔ ایم این اے صلاح الدین نے خطاب کا کہنا تھاکہ سندھ کو تقسیم کی طرف لے جایا جا رہا ہے، ہم پاکستان کے خلاف سازشیں کام یاب نہیں ہونے دیں گے، اب حیدرآباد ہی میں نہیں بلکہ سندھ کے ہر شہر میں یونیورسٹی بنے گی۔ سابق ایم این اے سید طیب حسین کا کہنا تھاکہ پیر مظہر الحق نے نہایت تنگ نظری اور متعصبانہ رویے کا مظاہرہ کیا، جو ان کی بیمار ذہنیت کا عکاس ہے۔ ایم پی اے سید وسیم حسین کا کہنا تھا کہ متعصبانہ رویے رکھنے والا شخص وزیر تعلیم تو کیا، وزیر جنگلات بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس مظاہرے میں ایم کیو ایم حیدرآباد زون کے ذمے داران، تمام شعبہ جات کے کارکنان اور شہری بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے متعلق پیر مظہرالحق کے بیان کو مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں نے بھی تعلیم دشمن رویے کا عکاس بتایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ انجمن تاجران کے جنرل سیکریٹری اکرام الدین گڈو نے وزیر تعلیم نے اپنے بیان سے ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی وڈیرانہ سوچ رکھنے والے شخص ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اگر مظہرالحق نے حیدر آباد میں یونیورسٹی کے قیام میں رکاوٹ بننے کا بیان نہیں دیا ہے تو فوری طور پر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کردیں تاکہ ان کا عوام اور تعلیم دوست ہونا ثابت ہو جائے۔ مسلم لیگ فنکشنل حیدرآباد سٹی کے نائب صدر شاہد خان، ملک ابراہیم، صادق قریشی، نعیم شیخ اور دیگر نے ایک بیان میں وزیر تعلیم کے متعصبانہ رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی اس کا نوٹس لے۔ جمعیت علمائے پاکستان سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناظم علی آرائیں نے کہا ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم کا بیان تعلیم دشمنی اور سندھ کو تاریکی میں دھکیلنے کے مترادف ہے، پی پی نے ہمیشہ لسانیت کو ہوا دے کر سندھ میں اپنی سیاست کو چمکایا ہے، ماضی میںکوٹا سسٹم نافذ کر کے اردو اور سندھی زبان بولنے والوں کے درمیا ن دوری پیدا کی، سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس منظور کر کے نفرتوں کو پروان چڑھایا۔ انھوں نے کہاکہ فوری طور پر صوبائی وزیر تعلیم کو عہدے سے برطرف کر کے پیپلز پارٹی حیدرآباد سمیت پورے سندھ کے عوام سے معافی مانگے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے خلاف پیر مظہرالحَق کے بیان اور اس پر ایم کیو ایم کے رد عمل کو ملی بھگت قرار دیا اور کہا کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے، گورنمنٹ کالج پھلیلی کو یونیورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے اس کی مقبوضہ زمین کو واگزار کرایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی حیدرآباد کے امیر شیخ شوکت علی نے پریس کلب میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ چار تعلقوں پر مشتمل ضلع حیدرآباد ملک کا پانچواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے، جس کی آبادی تقریباً اٹھائیس لاکھ ہے، تعلیمی بورڈ حیدرآباد سے ہر سال پچاس ہزار سے زاید طلبہ و طالبات انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرتے ہیں، لیکن یہاں جنرل یونیورسٹی، میڈیکل اور انجینیئرنگ کالج موجود نہیں، جس کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں، سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے جامشورو منتقل کر دی گئی، اسی طرح لیاقت میڈیکل کالج اور مہران انجینیئرنگ کالج حیدرآباد کے لیے منظور کیے گئے تھے، لیکن انھیں بھی جامشورو میں رکھا گیا جو مقامی طلبہ کے ساتھ ظلم ہے۔

انھوں نے کہا کہ حیدرآباد میں اعلی تعلیمی اداروں کی کمی دورکرنے کے لیے جماعت اسلامی نے یونیورسٹی بناؤ مہم شروع کی، حکومت سندھ نے حیدرآباد کے علاوہ اضلاع میں یونیورسٹیاں قائم کرنا شروع کردی ہیں، جسے ہم سراہتے ہیں، مگر اس شہر کو بھی اس کا جائز حق ملنا چاہیے، اس تعلیمی حق کے لیے جماعت اسلامی نے عوامی تحریک کے قائد رسول بخش پلیجو، سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی، سابق صوبائی وزیر نواب راشد علی خان، ورلڈ سندھی کانگریس سمیت تمام پارٹیوں سے ملاقات کی اور سبھی نے حیدرآباد اس کی حمایت کی ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم کا بیان تعصب پر مبنی اور قابل مذمت ہے، گورنر سندھ نے حیدرآباد میں میڈیکل کالج قائم کرنے کا جعلی اعلان کیا اور گورنر ہاؤس میں زبانی افتتاح کر دیا، پیر مظہر الحق کا بیان اور ایم کیو ایم کا ردعمل ملی بھگت ہے۔ بعد ازاں جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبا، الخدمت فاؤنڈیشن اور یونیورسٹی بناؤ مہم کے کارکنان نے پریس کلب کے باہر احتجاج بھی کیا۔

سندھ میں بلدیاتی نظام کا خاتمہ اور نئے بل کی منظوری کی خوشی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے حیدرآباد سمیت زیریں سندھ میں ریلیاں نکالی گئیں اور اس خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ قوم پرست جماعتوں نے بھی اس سلسلے میں مظاہرے کیے اور ان کے کارکنوں نے خوشی میں نعرے لگائے۔ حیدرآباد میں پیپلز پارٹی اور ایس ٹی پی کے کارکنان کے درمیان ہوائی فائرنگ کا مقابلہ بھی دیکھنے میں آیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں