خاموش طوفان
اب تو فوج نے یہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ خاموشی بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے
وطن عزیز میں ان دنوں ایک بار پھر رونقیں لگی ہوئی ہیں اور سیاست کی یہ رونقیں روز بروز اپنی چمک دمک بڑھاتی جا رہی ہیں ۔ پہلے تو ایک سال تک رونق کا یہ میدان دن دہاڑے ہماری اعلیٰ عدلیہ کی پر شکوہ عمارت کے باہر لگتا رہا جب کہ شام ڈھلے یہ میدان میڈیا میں لگ جاتا اور بھانت بھانت کے تبصرے کیے جاتے، مخالف سیاستدانوں کے ایک دوسرے کو طعنے دینے کا مزہ عوام لیتے اور حقیقت میں پہلی بار عوام اپنے منتخب نمایندوں کے حقیقی روپ سے آشناء ہو ئے بلکہ ان نمایندوں کے جوہر عوام پر کھل گئے ۔ وزیر اعظم کی نااہلیت کے بعد رونقوں کا یہ میدان کچھ دن کے لیے ماند پڑ گیا، پھر اسلام آباد سے لاہور کے سفر کے دوران میاں نواز شریف نے یہ رونق دوبارہ لگانے کی کوشش کی ۔
لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں جی ٹی روڈ پر ماند پڑ جانے والی یہ رونق نواز لیگ نے بہر حال کسی نہ کسی طرح بحال کر ہی لی اور اس کے ضمنی اثرات ابھی تک دھوم دھام کے ساتھ جاری رکھنے کی کوشش ہے۔ سابق وزیر اعظم اپنے کارکنوں سے مختلف تقاریب میں خطاب کے بعد لندن روانہ ہو گئے، وہی لندن جس کے بارے میں آج کل سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ چل رہا ہے کہ ایک انگریز نے پاکستانیوں کی لندن میں کثیر تعداد میں موجودگی دیکھ کر کہا کہ اگر آپ نے ہمارے پیچھے پیچھے یہیں آجانا تھا تو ہمیں کیوں نکالا۔ جس خوش ذوق نے بھی یہ تبصرہ کیا ہے بڑا بر محل کیا ہے۔
رونقوں کی اس دنیا میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران میرے پسندیدہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف ایک بار پھر اپنے اندر کی سچائی باہر لائے ہیں اور کہا ہے کہ چند مشیروں اور وزیروں سے چھٹکاراحاصل کیا جائے جنہوں نے اپنے لیے جھنڈے والی گاڑیاں بچانے کے لیے غلط مشورے دئے جن کی وجہ سے آج نواز شریف کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔ میاں شہباز شریف جب بھی بولتے ہیں بڑی صاف گفتگو کرتے ہیں اور اپنے دل کی بات دل میں رکھنے کے بجائے باہر لے آتے ہیں اور شاید ان کی کامیابی کی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کی وجہ سے اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی مقبول ہیں۔
سیاست کی سرِ بازار لگی ہوئی یہ رونقیں آیندہ انتخابات کا عمل مکمل ہونے سے مشروط ہیں اگر بیچ میں کچھ اور نہ ہو گیا تو یہ رونقیں قائم و دائم رہیں گی اور ہم اخبار نویس ان سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ان رونقوں کو بحال رکھیں گے کہ ان کے دم سے ہی سیاست اور صحافت کا کاروبار چلتا ہے۔
سیاست جن سیاستدانوں کے دم قدم سے آباد ہے وہ اگر مثبت ہو ں تو یہ رونقیں دوچند ہو جاتی ہیں مگر آج کل کی سیاست میں یہ رونقیں لگی ہوئی تو ضرور ہیں لیکن بے رحم نظر آرہی ہیں کہ ان میں ہر کوئی اپنے مفاد کی ہی بات کر رہا ہے اور اپنے آپ کو لازم وملزوم قرار ددینے کی روش بہت پرانی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیر نظام نہیں چل سکتا لیکن دنیا کا ایک اپنا اصول ہے جس میں کسی کی بھی ذات لازم نہیں بلکہ سب کا ایک کردار متعین ہے وہ آتا ہے اپنا اچھا برا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے، لوگ کچھ عرصہ اسے یاد رکھتے ہیں لیکن بعد میں وہ بھی دوسرے ناگزیر لوگوں کی طرح ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجاتا ہے۔
ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی کایہ کہنا ہے کہ میاں نواز شریف ہی وہ واحد شخصیت ہے جو پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر نواز شریف اس ملک کے حکمران نہ ہوئے تو خدانخواستہ یہ متحد نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم نے کیا سطحی بات کی ہے، یہ درست ہے کہ وہ نواز شریف کی آشیر باد سے ہی وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے ہیں ۔دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے اپنے سابقہ نااہل وزیر اعظم کو سیاسی پارٹی کا دوبارہ سربراہ چن لیا ہے جس طرح کے مضحکہ خیز تبصرے بین الاقوامی میڈیا میں جاری ہیں ان کو پڑھ کر رہی سہی عزت سادات بھی خطرے میں ہی نظر آرہی ہے۔
جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی ہماری تاریخ جدو جہد سے بھری پڑی ہے، موجودہ صورتحال میں بھی شاید اس بات کو بہتر طور پر سمجھا جائے کہ ہم نے ایک طویل عرصہ آمریتوں کے سائے تلے گزارا ہے اور ہم میں سے بیشتر اسی سائے میں پل بڑھ کر جوان ہوئے ہیں اور پھر انھی آمریتوں کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو ہمارے جمہوری حکمرانوں نے اس بد صورتی کے ساتھ حکمرانی کا فرض نبھایا کہ کرپشن اور ناانصافی کے گراف میں بلندی دیکھ کرلوگ دوبارہ سے تبدیلی کی دعا مانگے لگتے ہیں اور فوج کے لیے ملک بچاؤ کی آوازیں سنائل دینے لگتی ہیں ۔
چونکہ ہم نے زیادہ عرصہ آمریت میں گزارا ہے اس لیے ہمارے عوام جمہوریت سے زیادہ شاید آمریت کے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کو جمہوریت کی نسبت آمریت میں سکون محسوس ہوتا ہے حالانکہ بدترین جمہوریت کو آمریت پر فوقیت دی گئی لیکن ہمارے یہاں جمہوریت کو بدترین سے بھی آگے کے کسی درجے تک لے جایا گیا ہے جس سے جمہوریت اور اس کے رکھوالے سیاستدانوں سے عوامی بیزاری بڑھ گئی ہے۔
بار بار کے فوجی اور جمہوری تجربوں کے بعد ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے سیاستدان اگر اپنا اقتدار جاتا دیکھیں تو وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ اب فوج ملک کی باگ دورڑ سنبھال لے اور اس دفعہ خواہش یہی ہے مگر ہزاروں خواہشوں والی ہی بات ہے اور دم ہے کہ نکل ہی نہیں رہا بلکہ اب تو فوج نے یہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ خاموشی بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے جب کہ ہم خاموشی کو بھی طوفان کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں اور اس دفعہ یہ طوفان آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر آنے کی توقع ہے، اللہ خیر کرے۔