فروغ تعلیم میں نجی اداروں کا کردار
اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کالج آف کامرس کی انتظامیہ نے کامرس کی تعلیم کو کیا اہمیت دی۔
اعلی و معیاری تعلیم کا فروغ ملک و قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں گراں قدر خدمات پیش کی گئی ہیں، اور مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ خصوصا پبلک سیکٹر میں اعلیٰ و معیاری تعلیم کے فروغ کو فوکس کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں پبلک یونیورسٹیز کو باعمل بنایا گیا ہے تاہم یہ بات انتہائی اہم ہے کہ حکومت کے اس مشن کو نجی تعلیمی سیکٹر نے بھی اتنا ہی سنجیدگی سے لیا ہے جس سنجیدگی کے ساتھ حکومت نے خود ضمن میں اس پر کام شروع کر رکھا ہے۔ تاہم یہ الگ بحث ہے کہ کس نجی یونیورسٹی نے اعلیٰ و معیاری تعلیم کے فروغ اور تحقیق کے عمل کو عملی طور پر جاری رکھا ہے اور اپنی کارکردگی کو پہلے سے بہتر بنایا ہے۔
پنجاب کی سرزمین یوں تو کئی حوالوں سے مشہور و معروف ہے مگر تعلیم و تحقیق کی بات ہو تو ایجوکیشن کا حب پنجاب کو قرار دیا جاتا ہے۔ فروغ تعلیم، حصول تعلیم، تعلیمی سہولیات، طلب کے مطابق ریسرچ ورک کی فراہمی اور اسکالر شپ یہ سب وہ اقدامات ہیں جن میں نجی تعلیمی سیکٹر کسی بھی صورت میں پبلک سیکٹر سے پیچھے نہیں ہے۔ اور اگر اس حوالے سے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب (یو سی پی) کا نام لیا جائے تو خواب حقیقت بن کر عملی طور پر ہونہار طالبعلموں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یو سی پی کا قیام 2002 میں عمل میں آیا تاہم یہ پنجاب کی تاریخ کا ایک خوبصورت حصہ ہے جو 1985 میں پنجاب کالج آف کامرس کی صورت میں عوام میں متعارف کرایا گیا۔
اس وقت کامرس کی تعلیم کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کالج آف کامرس کی انتظامیہ نے کامرس کی تعلیم کو کیا اہمیت دی اور کس انداز سے معیار تعلیم کو بلند کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب کالج آف کامرس پنجاب گروپ آف کالجز میں تبدیل ہو گیا۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ نئی جدت، جدید خطوط اور بین الاقوامی معیار کو ہر لمحے میں ملحوظ خاص رکھا گیا اور خصوصا مارکیٹ کی طلب کے مطابق امیدواروں کو کامرس کی تعلیم فراہم کی گئی۔ جس کی ایک خاص وجۂ شہرت یہ بھی بنی کہ پنجاب گروپ آف کالجز کی انتظامیہ نے فروغ تعلیم اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور شہر ہی کی نہیں بلکہ پنجاب کی سطح پر اعلیٰ کوالیفائیڈ اساتذہ کی دستیابی کو یقینی بنایا جس کا اثر یہ ہوا کہ اس گروپ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی ملی اور یہ خواب حقیقت کا روپ دھار گیا کہ کامرس کی تعلیم میں مستند ادارہ پنجاب گروپ آف کالجز ہی ہے۔
اس دوران دیگر نجی کالجز نے بھی عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ کامرس کی تعلیم کا فروغ جاری رکھا اور ان کو بھی کسی حد تک کامیابی ملی تاہم جو اعلیٰ و معیاری تعلیم کی فروغ کا عزم اپنے آپ سے اور عوام سے پنجاب گروپ آف کالجز کی انتظامیہ نے کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اور اپنی کامیابیوں کو بڑھاتے ہوئے بالٓاخر گروپ نے ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ کیا جو اپنی ہی نرسری یعنی کالجز میں پروان چڑھنے والے طالبعلموں کو اعلیٰ تعلیم بھی فراہم کر ے اور جس کا معیار بھی ٹھیک اسی طرح طے کیا گیا جیسا کہ پبلک سیکٹر تعلیمی اداروں اور نمبر ون جامعات میں کیا جاتا ہے۔ خواہ وہ میڈیکل سائنسز کی بات ہو یا انجینئرنگ کی، ہر لحاظ سے طالبعلموں کی تعلیمی اور تحقیقی پیاس کو بجھانے کے لیے ایک ایسے ادارے کے قیام کا تصور کیا گیا جس کی تکمیل 2002 میں یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کی صورت میں عوام کے سامنے آئی اور آج دس سال کے عرصہ میں یونیورسٹی ان ترقی کی منازل کو تیزی سے طے کر رہی ہے جس کی ملک و قوم کو ضرورت بھی ہے اور حکومت کی مانگ بھی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب گو کہ ایک نجی یونیورسٹی ہے مگر اس کا معیار کسی بھی بہترین ملکی نمبر ون پبلک یونیورسٹی سے کم نہیں ہے۔ یو سی پی اپنے ہم عصر تمام نجی جامعات سے بہتر قرار پائی ہے۔ یونیورسٹی میں جنرل ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ، فارمیسی، انجینئرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن او ر مختلف دیگر پروگرامز کامیابی سے جاری ہیں۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ یہ بات آسانی سے جان لیں گے کہ یونیورسٹی کا مقصد کیا ہونا چاہیے اور اس کو کن خطوط پر استوار کرنا چاہیے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دیگر یونیورسٹیز کے لیے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب ایک رول ماڈل ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ تعلیمی اور تحقیقی ماحول کے ساتھ طلبا و طالبات کی دلچسپی کا منبع یہ یونیورسٹی تعلیمی سہولتوں کی ایک ایسی مثال ہے جس میں ایک ہی چھت تلے امیدواروں کو متنوع تعلیمی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
جو بات سب سے خاص ہے وہ یہاں کی فیکلٹی ہے جس کو دیکھ کر اعلیٰ و معیاری تعلیم کی گارنٹی خود بخود مل جاتی ہے۔ ان میں پرو ریکٹر ڈاکٹر ظفر اللہ ہوں، ڈاکٹر ظفر اقبال جدون ہوں، ڈاکٹر جمشید ہوں، تبریز شامی ہوں، پروفیسر رشید خالد ہوں یا دیگر ایک سے بڑھ کر ایک استاد یونیورسٹی کی شان کو اس طرح سے بڑھا رہا ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ پر رشک آتا ہے جو حقیقت میں عوام کے بچوں اور بچیوں کو علم و تحقیق کی درست سمت میں پروان چڑھا رہے ہیں، یونیورسٹی میں انٹرنیٹ کی مفت سہولیات، کیفے ٹیریا، حفظان صحت کے مطابق فوڈ اسٹریٹ، جوس شاپ الگ سہولیات ہیں۔ یونیورسٹی میں انٹرنیٹ کی مفت سہولت، لائبریری، اسپورٹس میں گزشتہ تین سال سے ایچ ای سی کی چیمپئن شپ ٹرافی اور دیگر تقریبات کا انعقاد بھی یونیورسٹی کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔
مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم امیدواروں کی پروفیشنل تربیت بھی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں دیگر مختلف ادارے بھی اس یونیورسٹی کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ غیر ملکی دوروں اور معذور طالب علموں کے لیے مخصوص نشستیں اور اسکالر شپ یہ سب وہ تمام چیزیں ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کی شہرت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ گو کہ اس وقت یونیورسٹی میں7800 طالبعلم تعلیم و تحقیق میں مصروف ہیں مگر یہ طالبعلم کسی سفار ش کی بنیاد پر نہیں داخل ہوئے بلکہ ایک ٹف میرٹ سے گزر کر یونیورسٹی کا اثاثہ بنے ہیں۔ اور یہ بات انتہائی اہم ہے کہ یونیورسٹی کے ہر شعبہ میں، جن میں خاص طور پر فارمیسی، بزنس ایڈمنسٹریشن اور انجینئرنگ کے شعبہ جات شامل ہیں، کروڑوں روپے کی لاگت سے ''لیبز'' تیار کی گئی ہیں جن سے طالبعلم استفادہ کرتے ہیں۔
اعلیٰ و معیاری تعلیم کے فروغ اور تحقیق کے عمل کو بڑھانے کا رجحان یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کی طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ اور آگے بڑھنے کا یہ عزم کبھی ماند نہیں پڑے گا کیونکہ اس گروپ کا ایک خاص مشن ہے اور وہ ہے آگے ہی آگے بڑھتے جانا۔ اور آگے اور آگے۔