ہر روز اِک نیا سقوطِ پاکستان
ذرا سوچیے اِس اٹھائیس دنوں کے فروری مہینے میں ہم نے کتنے دن کا م کیا ہے ، کتنے دن ہمارے بازار کُھلے رہے۔
ISLAMABAD:
اِس کرہِ عرض پر آج دنیا کا شاید ہی کوئی دوسرا ایسا ملک ہوجو زوال وانحطاط پذیری کی جانب اِس قدر تیزی کے ساتھ گامزن ہو۔ ہر روز ایک نیا بحران ہماری معیشت کی چولیں ہلادینے کے لیے ہمارے سروں پر کھڑا ہے۔ معاشی ابتری آخر ی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ ملک اور قوم کے نئے معماروں پر قرضوں کا بوجھ اُن کی استطاعت اور قوت سے بڑھ چکاہے ۔ وطنِ عزیز میں کوئی نیا کارخانہ یا انڈسٹریل زون تعمیر نہیں ہو رہا ہے، بلکہ پہلے سے قائم انڈسٹریل سیکٹر ہی تباہی و بربادی کے دہانے پرکھڑا ہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں۔مزدوروں اور محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد بیروزگار ہوتی جا رہی ہے۔کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری تو کیا ہوتی جب یہاں سے اپنے سرمایہ کار بھاگ رہے ہوں۔جس ملک میں ہر مہینے پندرہ دن کاروبار بند رہتا ہو وہ کیا خاک ترقی کریگا۔
ذرا سوچیے اِس اٹھائیس دنوں کے فروری مہینے میں ہم نے کتنے دن کا م کیا ہے ، کتنے دن ہمارے بازار کُھلے رہے۔ کوئٹہ میں ہونے والے اندوہناک جرائم اور قتل و غارت گری نے سارے ملک کی فضا کو مکدرکرکے رکھدیا ہے۔ سارا نظام ساکت و جام ہوکر رہ گیا۔ ریلیں، ہوائی جہاز او رآمدورفت بند ہونے کے سبب زندگی جیسے تھم کر رہ گئی ہو۔ اِس جدید ،تیزترین اور ترقی پذیر دنیا میںیہ ایک واحد ملک ہی ہے جہاں ترقی کی رفتار اُلٹی سمت سفر کر رہی ہے۔ امن و امان کی کشیدہ صورتحال اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران نے بچی کچی سرمایہ کاری بھی ختم کرکے رکھ دی ہے۔روپیہ اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے ۔ دنیا کی کوئی کرنسی اِس مختصر دور میں اِس طرح بے وقعتی کا شاید ہی شکار ہوئی ہوگی جتنی میرے پاکستان کی ہوئی ہے۔
حکمرانوں کو اپنے اعمال ،اپنی کارکردگی اور اپنے طرزِ حکومت پر کوئی تشویش، افسوس اور ملال بھی نہیں ہے وہ تو بس اِسی میں خوش ہیں کہ اُنہوں نے اپنے مینڈیٹ کے پانچ سال پورے کر لیے ہیں۔اُن کے لیے اِس سے بڑی اور کوئی کامیابی نہیں ہے کہ اُنہوں نے اپنا یہ ٹارگٹ پورا کر دیا ہے۔ اُنہیں اِس پر ذرہ برابر بھی احساسِ شرمندگی اور ندامت نہیں ہے کہ اُنہوں نے اپنی ناقص حکمتِ عملی کے سبب سارا ملک ایک بڑے کھنڈر میں بدل کر رکھدیا ہے۔ ریلوے دیوالیہ پن کا شکار ہو چکی ہے کہ آئے دن اُن کے بند ہونے کی خبریں اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ بربادی اور تباہی کے آثار ہر طرف اِس طرح پھیلے ہوئے ہیں جیسے کسی بڑی آسمانی آفت نے سارا ملک ملیا میٹ کر دیا ہو۔کوئی زلزلہ یا سیلابی ریلا بھی اتنی بربادی نہیں لاتا جتنی ہمارے عوام دوست اور جمہوری عاقبت نا اندیشوںنے گزشتہ پانچ سالوں میں کر دی ہے۔امن و امان سے لے کر معاشی و اقتصادی ،اخلاقی و تہذیبی ، اور تعلیمی وثقافتی تمام شعبوں میں وطنِ عزیز کی حالت انتہائی کشیدہ اور افسوس ناک ہے۔
1971 میں وطنِ عزیز کے دو لخت ہونے پر بھی باقی ماندہ پاکستان کی حالتِ زار اِس قدرکمزور اور نحیف نہ تھی جتنی آج کر دی گئی ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہمیں کِن ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی ہے۔ ہمارا جرم صرف یہی تھا کہ ہم نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے لیے ایسے حکمراں منتخب کر لیے جنھیں صرف اپنی خدمت اور کرپشن کے کوئی اور ہنر آتا ہی نہیں ۔اِس سارے پانچ سالہ جمہوری دور میں عوام کے شب و روز تو فکرِ معاش اور مصائب و مشکلات سے نبرد آزمائی ہی میں گذر گئے لیکن حکمراں طبقے کا ہر شخص پہلے سے زیادہ خوشحال اور مالی طور پر ذیادہ مستحکم ہو گیا ہے۔ ملک سار ا اندھیروں میں غرق ہو چکا ہے لیکن اکابرین ِ حکومت کے گھروں میں اُجالے ہی اُجالے ہیں۔ پشاور سے لے کر کراچی تک ہزاروں لوگ قتل ہوتے رہے اور اسلام آباد کے بڑے بڑے ایوانوں کے مکیں اِن واقعات کا صرف زبانی نوٹس ہی لیتے رہے۔قوم کو ہر بڑے ناگہانی اور افسوس ناک واقعے کے بعد یہ نوید سنائی جاتی رہی کہ صدرِ مملکت نے اِس کا نوٹس لے لیا ہے۔
یہ نوٹس اتنا بے وقعت اور غیر اہم ہوتا کہ چند دنوں ہی میں اپنا اثر زائل کر جاتااور ذمے داران کی پیشانیوں پر کوئی شکن بھی نہ پیدا کر پاتا۔ ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکزکراچی میں اسٹریٹ کرائمز ،ڈاکا زنی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ اِس شہر کی پہچان بن چکے ہیں۔ یہاں کے شہری کس قسم کی زندگی گذار رہے ہیں اِس کی کسی کو بھی پرواہ نہیں ۔ خوف اور روزگار کی فکر میں مارے ہوئے لوگ ہر مہینے پندرہ دن اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ بچے اسکول نہیں جا سکتے ۔بزنس اور کاروبار ہر روز کی ہنگامہ آرائی، ہڑتالوں اور احتجاجوں کے سبب تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ غریب محنت کش ، مزدور اور روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والے ہزاروں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مگر اسٹیک ہولڈر ز اور یہاں کے منتخب لوگ مصلحتوں اور مفاہمتوں کی عظیم روایتیں قائم کرنے کی جستجومیں لگے رہے۔بندر بانٹ اور افہام و تفہیم کی شاندار روایت قائم کرنے کے بعد اب جب الیکشن قریب ہوتے دکھائی دیے تو حکومت سے علیحدگی کا خیال پروان چڑھنے لگااور پانچ سال حکومتی بینچوں پر بیٹھنے والے اب اچانک اپوزیشن بینچوں پر براجمان ہوتے نظر آرہے ہیں۔ چالاکی، مکاری اوربے ایمانی ہمارے یہاں سیاست کے انمول اُصول بن چکے ہیں ، جو جتنا بڑا مکار اور چالاک ہو وہ اُتنا ہی کامیاب و کامران سیاستداں کہلائے گا۔کراچی میں ہزاروں افراد کے قتل عام کے بعد اپنی پانچ سالہ بے نیازی، بے اعتنائی اور جفا سے توبہ کا خیال تو ضرور آیا ہے لیکن اِس استغفار اور توبہ کے پسِ پردہ کچھ اور ہی عزائم اور عوامل بھی کارفرما ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ عوام کے سامنے طشت ازبام اور عیاں ہوتے جائیں گے۔
مصلحت کیشی، مفاد پرستی اور خود غرضی کی ایسی لاتعداد مثالیںہمارے جمہوری حکمرانوں کے نامہ اعمال میں درج ہو چکی ہیں لیکن اُنہیں کسی قسم کا ڈر اور خوف نہیں ہے کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ لوگ اُنہیں ایک بار پھر بھر پور مینڈیٹ سے نوازیں گے۔جب ساری قوم کے اجتماعی شعور اور فہم و اداراک ہی کا یہی حال ہو تو پھر اپنی تباہی و بربادی پر ماتم کیسا۔ہمارے حالات کے ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ہمیں اپنی تباہی کے لیے کسی مکار اور چالاک غیر ملکی دشمن کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہم خود ہی یہ کام بخوبی سرا انجام دے رہے ہیں۔
قومیں اپنے ماضی سے سبق حاصل کرکے احتیاط اور تدبر کے ساتھ مستقبل کے فیصلے کیا کرتی ہیں لیکن ایک ہم ہیں کہ ہم نے اپنے طور طریقے اور انداز نہیں بدلے ۔ہر بار اُسی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں اور وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔جمہوریت کا تسلسل اور حقِ رائے دہندگی کی مسلسل تربیت و تدریب بھی ہماری سوچ اور فکر نہیں بد ل سکتی۔ہماری سوچ کا دائر کا ر ، اُس کی وسعت و گہرائی اور قوتِ بصیرت صر ف شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہیں۔ ہم اُن کے سحر سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ہم ابھی تک طلسماتی نعروں اور کھوکھلے وعدوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ زمانے بدل گئے لیکن فہم و فراست اور عقل و دانش سے عاری ہمارا معاشرہ خود فریبی ، خام خیالی اور خوش فہمیوںکے شکنجے سے باہر نہ نکل سکا۔ ہم ابھی تک 70 کی دہائی والی سیاست کے گرد ہی گھوم رہے ہیں اور روٹی،کپڑا اور مکان جیسے پُر فریب نعروں او ر وعدوں کے وفا ہونے کے انتظار میں اپنا پہلے سے موجود اثاثہ بھی گنوابیٹھے ہیں۔