ڈیوڈ کیمرون کا دورہ بھارت
بھارت کے دل پر کوہ نور ہیرے کی یاد اور اہمیت آج بھی اسی طرح نقش ہے جو مٹائے نہیں مٹتی۔
پاکستان میں کوئٹہ میں سو سے زائد لوگ شہید ہوئے اور ادھر بھارت میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے سو کے قریب بڑے کاروباری تاجر حضرات اور وزراء کی ٹیم لے کر بھارت پہنچے۔ یہ کیسا عجب اتفاق تھا کہ کوئٹہ کے سانحے کے بعد وہ تاریخ بھی طے تھی جب پاکستان کو گوادر کا پورٹ چائنا کے سپرد کرنا تھا تو یہ سب کاروباری معاہدے کی رو کے مطابق تھا، لیکن دنیا بھر میں اس سپردگی کے حوالے سے ایک ہلچل سی مچ گئی، ویسے جو کام اب ہوا ہے اسے 2008 میں ہو جانا تھا، کیا ڈیوڈ کیمرون کا یہ دورہ بھی اسی خجالت کا مظہر تو نہیں تھا جو انھوں نے پاکستان چین دوستی کے بعد قائم کیا گویا جاؤ جی پاکستان! ہم تم سے نہیں بولتے اور فوراً گدی پکڑ کر رسید کر دیا گیا، خیر یہ تو صرف کہنے کی باتیں ہیں، لیکن ڈیوڈ کیمرون کا اصل مقصد بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کرنا اور اپنے جنگی طیاروں کی فروخت سے تھا، گو بھارت، پاکستان کے مقابلے میں امریکا اور برطانیہ کی دوستی خاصی مضبوط ہے، لیکن یہ دورہ خاص کاروباری نوعیت کا تھا جس میں ڈیوڈ کیمرون کے منہ کا ذائقہ کچھ پھیکا سا رہا۔
ڈیوڈ کیمرون انگلستان کے وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے چورانوے(94) سال بعد اس یادگاری باغ پر بھی حاضری دی جس میں ہونے والی خون کی ہولی آج بھی لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے، گو اس بدنما واقعے کو برسوں بیت چکے ہیں۔ 1919میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برصغیر کے لوگ متحد ہو کر یہاں قائم برطانوی سامراج کی زبردستی اور اپنے ملک پر قبضے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد اتنی بڑی تعداد میں برصغیر کے عوام میں چھپا ہوا آزادی کا لاوا احتجاج کی صورت میں پھوٹ پڑا تھا وہ حالات کے مارے نہتے بڑے پرسکون انداز میں آزادی کے لیے آواز بلند کر رہے تھے، لیکن انگریز سامراج جو اپنی مغروریت فرعونیہ میں اس وقت تک بہت آگے نکل چکا تھا کہ دنیا پر اس کے پنجے مضبوط ہو چکے تھے، پھر کون تھا اتنی بڑی طاقت سے باز پرس کرنے والا اور یوں ان نہتے آزادی کے متوالوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی، جلیانوالہ باغ برطانوی تاریخ کے ماتھے پر آج بھی بدنما داغ بن کر چمک رہا ہے اس پر اب بھی ان کی دہشت گردی کے خلاف بڑی بڑی باتیں بنانے کا یہ عالم کہ نہ پوچھیے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس واقعے میں 379 لوگ شہید ہوئے تھے جب کہ بھارتی سرکار ایک ہزار سے زائد جانوں کے ضیاع کا دعویٰ کرتی ہے۔
ڈیوڈ کیمرون نے اس بدترین واقعے کو شرم ناک Shameful Event کہہ کر اتنا تو ثابت کر دیا کہ جو کچھ ماضی میں حکومت برطانیہ نے کیا برا کیا، لیکن بس اس سے زیادہ وہ کچھ نہ بولے۔ بھارت میں سرکاری انداز میں ان کے اس دورے پر کچھ ملے جلے رجحانات ظاہر ہوئے اور کچھ اسی طرح کا حال عوام کا بھی ہے گو کیمرون نے تو بھارتی عوام میں بہت ملنے جلنے کی کوشش کی اداکار عامر خان کے ساتھ وہ ایک گرلز کالج بھی پہنچ گئے، سکھوں کے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل بھی جا پہنچے، اصل میں ان کا مقصد اپنے جنگی سامان کو بھی سر تھوپنا ہے جسے بھارتی سرکار قبول کرتی کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
اسی دوران بھارت میں بم دھماکہ بھی ہو گیا، دہشت گردی کی یہ واردات بھارت کے لیے ایک الارم کی صورت میں بجنے لگی کہ اب تو بھارت کو اپنے جنگی آلات و تنصیبات کو بھی تروتازہ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ویسے بھی ایشیائی ممالک میں کیا بھروسہ کب کیا ہو جائے؟ بھارت جو کچھ بھی سوچ رہا ہے ہو سکتا ہے کہ اب اس کے خیالات میں تبدیلی آئے، ویسے بھی بھارت کو آن ریکارڈ اپنے جنگی سازوسامان کی جو ضرورت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ انھیں آف دی ریکارڈ اس سامان کی ضرورت ہوتی ہے جس میں اس کے ساتھی دوست ممالک بھی شامل ہیں اور اس سامان کو کس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، پھر کبھی بھی۔۔۔۔
بھارت کے دل پر کوہ نور ہیرے کی یاد اور اہمیت آج بھی اسی طرح نقش ہے جو مٹائے نہیں مٹتی۔ جواہر لال نہرو کے دور سے لے کر من موہن سنگھ تک کے دور میں اس ہیرے کی بازیابی کی صدائیں گونجتی رہیں جو اب برطانیہ کی ملکہ کے سر کے تاج کی زینت بنا ہوا ہے۔ اب ڈیوڈ کیمرون سے اس ہیرے کی واپسی کا مطالبہ انتہائی احمقانہ تھا، لیکن جائز تھا، یہ ضرور ہے کہ بے چارے ڈیوڈ کیا کر سکتے تھے کہ ملکہ صاحبہ خود اتنی اعلیٰ خصوصیات کی مالک ہیں کہ اپنے تاج میں بزور شمشیر اور کچھ زہریلی سازش کے بل بوتے حاصل کرنے والا ہیرا بڑی شان سے جڑوا بیٹھیں۔ بس یہاں آ کر انگریزوں کی ساری تمیز، سارا اخلاق دم توڑ دیتا ہے۔
ایسے میں ہمیں کس قسم کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں، لیکن کیا کریں یہ ہمارا اخلاق ہے کہ ملکہ صاحبہ ہیں جی۔۔۔۔! کوہ نور ہیرا خود چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے کہ ایشیاء میں خاص کر پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے بیانات دینے والوں کی اپنی تاریخ بدترین سازشوں اور دہشت گردی سے بھری پڑی ہے اور میں ہوں اس کا گواہ کہ میں پہلے نڈر، انصاف پسند، ایماندار، بے باک ٹیپو سلطان کے تاج کی زینت تھا، لیکن جس بیدردی سے ٹیپو سلطان کی ریاست سے مجھے نوچا کہ آج تک میرا دل لہو لہان ہے، واقعی اگر یہ ہیرا بول سکتا تو شاید آج دنیا بھر میں ہونے والی زہریلی سازش، جاسوسی، دہشت گردی جو ملکوں میں امن و امان کی دشمن ہے اسے پیچھے چھوڑ دیتا کہ جو ڈیڑھ دو صدی پہلے پڑھے لکھے انگریزوں نے کیا کیا اس وقت کی حکومت برطانیہ برصغیر میں ہونے والے فسادات اور برطانوی فوج کی زیادتیوں سے لاعلم تھی کیا اس وقت ان کی تعلیم کا نصاب گم ہو چکا تھا۔
کیونکہ اس وقت تو ان پر صرف لوٹ کھسوٹ سوار تھی، دوسروں کی سرزمین کو جس بے دردی سے حکومت برطانیہ لوٹتی آئی ہے کیا کسی انٹرنیشنل کورٹ میں اس کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج ہوا ہے؟ گو اس لوٹ کھسوٹ میں ان کے ہمراہ فرانس اور اٹلی بھی شامل تھے لیکن برطانیہ سب سے آگے تھا، کیا ٹیپو سلطان کی نسل کے شہزادے جو آج بھی بھارت کی سڑکوں پر رکشہ چلاتے ہیں ان میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ ڈیوڈ کیمرون سے اپنے بڑوں کا حساب کتاب کر سکیں، کسی انٹرنیشنل کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں؟ جو کچھ انگریز سامراج نے برصغیر کی سرزمین پر کیا اس کا پھل آج بھی دونوں ممالک کاٹ رہے ہیں جو عرش پر تھے آج خاک ہو گئے اور جو خاک پر تھے وہ عرش پر آ گئے گو یہ دنیا اور زمانے کی رفتار کا دستور ہے، لیکن یہ دستور ایسے بدنما نقش ماضی کی تختی پر ثبت کر دیتا ہے جو بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے جیسے ڈیوڈ کیمروں اور آج کے برطانوی گورے کے لیے۔ کیا وہ اپنے ماضی کے سربراہوں کو اتنی بھیانک غلطیوں کے لیے معاف کر سکیں گے؟