بے زمینی کا دکھ

مریض کا فوری علاج صرف اس کے انسان ہونے کے ناتے سے کیا جاتا ہے


Amjad Islam Amjad October 12, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: زمین اور اس کی ملکیت سے متعلقہ مسائل انسانی زندگی' معاشرت اور ادب تینوں حوالوں سے تاریخ کے ہر دور میں سرفہرست رہے ہیں۔ قبر کی دو گز زمین سے لے کر پیمائش کا یہ دائرہ کراں تا کراں پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ کسی زمین کے ٹکڑے کا قبضہ اور اس میں بسنے والی خلق خدا پر حکومت کا نشہ ایسا ہے جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور یہ وہ حمام ہے جس میں افراد' حاکم طبقات' نسلی گروہ اور بعض صورتوں میں پوری قوم کی قوم ایک جیسے ننگے ہوتے ہیں۔

ہمارا یہ کرہ ارض جس کا صرف ایک چوتھائی حصہ خشکی پر مشتمل ہے اور جس پر فی الوقت تقریباً سات ارب انسان سانس لے رہے ہیں' اپنی وسعت اور ہماری ضرورت کے اعتبار سے نہ صرف کافی ہے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ آبادی کو بھی بآسانی اپنے دامن میں پناہ دے سکتا ہے مگر اس کے باوجود جوع الارض کا یہ عالم ہے کہ صاحبان اختیار مختلف خود ساختہ فلسفوں اور حیلوں بہانوں سے بے وسیلہ لوگوں کو جینے تو کیا مرنے کے لیے بھی دو گز زمین دینے کو تیار نہیں جس کی طرف مشہور روسی مصنف لیوٹالسٹائی نے اپنی ایک کہانی How much land does a man require میں بہت دل دہلا دینے والے انداز میں اشارہ کیا تھا۔

یوں تو انسانی تاریخ مختلف ادوار میں مختلف علاقوں سے لوگوں کو بے گھر' بے زمین اور بے وطن کرنے کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ پرانے وقتوں میں اس طرح کا ظلم عام طور پر رنگ' نسل' مذہب' زبان طبقے یا طاقت کے بے محابا استعمال کی وجہ سے روا رکھا جاتا تھا لیکن اس جدید' ترقی یافتہ' علوم کی دولت سے مالا مال اور حقوق انسانی کے علم بردار زمانے میں اس کے کچھ ایسے بھیانک روپ سامنے آئے ہیں کہ جنہوں نے جانوروں کی سطح پر زندہ رہنے والے درندہ صفت قاتلوں کو بھی شرمندہ کر کے رکھ دیا ہے۔

گزشتہ نصف صدی میں فلسطین' بوسنیا اور اب برما عرف میانمار کے علاقوں میں جس طرح انسانوں کو بے گھر اور بے وطن کیا گیا ہے اور اللہ کی زمین خود اسی کے بندوں پر تنگ کر دی گئی ہے' یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو انسانیت کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ اتفاق سے ان تینوں واقعات میں جو لوگ اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں ان کی اکثریت عقیدے کے اعتبار سے مسلمان کہلاتی ہے۔ اس تخصیص کی نوعیت اور وجوہات پر بحث ہو سکتی ہے اور ہو بھی رہی ہے مگر یہ اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے اور وہ بھی فروہی اور متنازعہ فیہ۔ جب کہ بطور انسان ہمارا ایک دوسرے سے بنیادی رشتہ' تعلق اور پلیٹ فارم ''انسانیت'' یا انسان ہوتا ہے سو جس طرح اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لائے گئے مریض کا فوری علاج صرف اس کے انسان ہونے کے ناتے سے کیا جاتا ہے اس وقت نہ اس کی آئی ڈی چیک کی جاتی ہے نہ شہریت نہ کریڈٹ کارڈ اور نہ کچھ اور۔ اسی طرح سے کسی شخص کے انسانی حقوق کا تحفظ بھی کسی اضافی شرط سے بالاتر ہو کر کیا جانا چاہیے اور کسی کو بھی اس سے روگردانی کی کسی بھی وجہ سے اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

روہنگیا مسلمان میانمار میں کب، کیوں اور کیسے آباد ہوئے۔ بطور شہری ان کا اسٹیٹس کیوں ہوا میں معلق ہے؟ ان کی نسل کشی کی رواں لہر کی اصل نوعیت اور محرکات کیا ہیں؟ اور امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی انسانی حقوق کی چیمپیئن خاتون کس وجہ سے انھیں اپنے ملک سے نکالنے پر تلی ہوئی ہے اور اس طرح کے مسائل کا کوئی قابل عمل حل کس طرح سے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج کل زباں زدخاص و عام ہیں اور سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر دنیا بھر کے اہل دل ان مظلوم لوگوں کے انسانی حقوق کی بازیافت کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

زبان' نسل اور علاقے کے حوالے سے تقریباً سات لاکھ آبادی پر مشتمل اس گروہ کا تعلق تاریخی اعتبار سے بنگال کے ساتھ بنتا ہے اور جدید قومی ریاستوں کی تشکیل سے پہلے یہ لوگ بھی اس علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے۔ عالمی سرحدوں کی سختی سے پابندی نہ ہونے کی وجہ سے کئی انسانی گروہ حسب ضرورت اور حسب موقع اپنے قیام کی جگہیں بدلتے رہتے تھے اور جو جہاں آباد ہوتا تھا وہیں کا باشندہ سمجھا جاتا تھا کہ اس زمانے میں قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کا کوئی باقاعدہ نظام وضع ہی نہیں ہوا تھا۔ سو یہ روہنگیا مسلمان اپنی خانہ بدوش طبیعت اور کئی مشترک عوامل کی وجہ سے اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں جاپانیوں کے خلاف ایک مدافعتی حصار قائم کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے ان لوگوں کو نہ صرف کچھ خاص علاقوں میں آباد کیا بلکہ اس کے نوجوانوں کو فوجی تربیت کے ساتھ ہتھیار بھی مہیا کیے لیکن نہ اس عمل کے دوران میں اور نہ ہی میانمار کی آزادی کے دنوں میں ان لوگوں کے شہری حقوق کے تعین پر توجہ دی گئی جس کی وجہ سے یہ لوگ برما میں رہائش پذیر تو رہے مگر وہاں کے باقاعدہ شہری نہ بنائے گئے دوسری طرف یہ بنگالی النسل ہونے کے باوجود چونکہ اس علاقے سے نقل وطن کر چکے تھے۔ اس لیے اب یہ مشرقی پاکستان اور بعدازاں بنگلہ دیش کے شہری بھی نہیں رہے تھے۔

یہ سلسلہ شاید اسی طرح چلتا رہتا لیکن اطلاعات کے مطابق اراکان کا وہ علاقہ جس میں ان لوگوں کی اکثریت آباد تھی اب بوجوہ بھارت اور میانمار سمیت کئی ملکوں کے لیے تجارت' معدنیات' صنعت اور کچھ اور حوالوں سے خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے جس کی وجہ سے ان سے یہ علاقہ خالی کرانا ضروری ہو گیا تھا۔ سو 2012 کے بعد ان کے خلاف یہ دوسری باقاعدہ مہم چلائی گئی ہے۔ چند دن قبل الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ برادرم میاں عبدالشکور سے اس مسئلے کے ممکنہ حل پر گفتگوکا موقع ملا تو اس معاملے کے کئی اور پہلو بھی سامنے آئے جن میں سے ایک بنگلہ دیش حکومت کا پاکستانی تنظیموں کو وہاں کے کیمپوں میں کام کرنے کی اجازت نہ دینا بھی شامل تھا جس کا حل یہ نکالا گیا کہ کچھ برادر اسلامی ممالک بالخصوص ترکی کے دوستوں کے تعاون سے اس سلسلے کو آگے بڑھایا گیا جب کہ میاں عبدالشکور سمیت کچھ دوستوں کے امریکن پاسپورٹ بھی کام دکھا گئے۔ معلوم ہوا کہ روہنگیا مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی آبادی کراچی میں بھی بغیر پاکستانی شہری حقوق کے مقیم ہے۔

کسی بھی ملک کے لیے لمبے عرصے تک مہاجرین کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جسے جلد از جلد حل کرنا سب ہی کے فائدے میں ہوتا ہے۔ روہنگیا مہاجرین فی الوقت کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ملک اتنے زیادہ لوگوں کو اکیلا اپنے اندر ضم کر سکتا ہے۔ سو ایک قدرے پیچیدہ مگر ایک بہت حد تک قابل عمل حل یہ سامنے آ رہا ہے کہ اگر دس پندرہ ممالک انسانی بنیادوں پر تقریباً پچاس ہزار نفوس فی ملک اپنے ذمے لے لیں تو ان لوگوں کی مستقل اور باعزت آباد کاری کا رستہ نکل سکتا ہے اور یہ بوجھ کسی کے لیے ناقابل برداشت بھی نہیں ہوگا۔ اقبال نے جاگیرداروں کو مخاطب کر کے جو بات اپنی نظم' الارض للہ'' میں کہی تھی وہ بہرحال یاد رکھنے والی ہے کہ

دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں

تیرے آبا کی نہیں میری نہیں تیری نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں