استعماریت اور پاکستان آٹھواں حصہ
صدیوں کی تہذیب فراعین کو مٹی کا ڈھیر بنانے کی صلاحیت سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔
NAROWAL:
نفی، اثبات کا مقام :کرہ ارض کے موجودہ معروضی حالات میں حضرت انسان کے اپنے وجود، موجودات ارض وسماء سمیت حیات کائنات کولاحق کھلے خطرات بلا شبہ بھیانک صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ رائج حالات کی روشنی میں انسانیت اور حیات کائنات کی رنگینیوں اور دل نشینیوں سے محبت رکھنے والے حضرات جب حالات کا تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں تو ان کو آنے والے وقتوں میں لرزہ خیز تباہی وبربادی کے دل ہول مناظرکے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔سوائے ان کے جو موجودہ استعماریت کے دلدادہ اور مادیت پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ان کی نظر باکمال مغرب اور ان کے مقلد مماک کی ترقی سے آگے دیکھنے کی جسارت سے محروم ہے۔ اس قسم کے حضرات کواپنی ملازمت کے پہلے دن سے ریٹائرمنٹ اور بڑھاپے کے خیال سے ہی اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوتے ہیں اور اس احساس کے تحت ان کوریٹائرمنٹ پلان،لائف انشورنس یا بیمہ پالیسی بنوا لیے جانے کی فکرکھائے جاتی ہے ۔حالانکہ اس فکر میں وہ پہلے سے دو بچے ہی اچھے کا عملی شاہکار بنے نظر آنے کی کوششوں میں مصروف بھی ہوتے ہیں۔ان کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں میسر ترقی اور تعیشات کی وجہ سے حیات کائنات بھیانک نتائج کی جانب گامزن ہے۔
تو پھر اس قسم کے حالات اور طرز تمدن کے تسلسل سے آنے والی نسلوں کو کیا حاصل ہوسکتاہے؟ ایسی صورتحال میں اگر ان سے پوچھا جائے کہ ''دنیا میں پھیلی دہشتگردکارروائیوں کی آڑ میں انسانوں کے بے گناہ قتل عام پر سینہ کوبی کرنے اور دنیاکو امن وسکون کا گہوارا بنانے کے دعوے کرنے والے امریکا بہادر سمیت مغربی ممالک کی اسلحہ ساز فیکٹریاں کن کا قتل عام کرنے اورکن کو مادی فوائد پہنچانے کا وسیلہ بنی ہوئی ہیں؟تحقیق کے نام پرخود ساختہ وائرس اور تمدنی خرابات کی وجہ سے پھیلی بیماریوں سے بچاؤکی ادویات اور ان کے استعمال کی خاطرعالمی اداروں کی توسط سے ان بیماریوں پر ضابطہ لائے جانے کے پروگرامز بناکر ریاستوںکو قرضہ جات وامداد کی صورت فراہم کی جانے والی ویکسینز، رقوم اور ان کی نگرانی کرنے والی تنظیمیں کس کے لیے راہ ہموار کرنے میں مصروف کار ہیں؟ ''شاید ان سوالوں کی تمام تر ذمے داری جدید عالمی استعمار ی سوچ کو قرار دیے جانے کے جواب پر منتج ہو۔
ایسی صورتحال میں اگر یہ سوال کیا جائے کہ کرہ ارض پر وہ کون سا نظریاتی انسانی گروہ ،کرداری لحاظ سے قومی تشخص اورمادی لوازمات سے بہرہ مند ریاست ہے جو اس عالمی استعماریت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یا ان کی سازشوں کا شکاربنی ہوئی نظر آتی ہے ؟ تو بلاشبہ ہر ایک کی زبان پر مسلمان، پاکستانی تشخص اور ریاست پاکستان ہی کانام آئے گا۔ جس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے طالب علموں کوچاہیے کہ وہ جناب ابرہیمؑ سے لے کر موجودہ انسانی ارتقائی مراحل تک کی تاریخ کو تحقیقات نظریہ پاکستان کی روشنی میں ایک غیر منقطع تسلسل کی لڑی میں پرو کر دیکھیں۔
تب وہ برملہ طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کے موجودہ مشترکہ ارتقائی مرحلے کی تمام تر افراتفری اور ہنگامہ خیز صورتحال وارثی ابراہیمؑ کے سوال کی مرہون منت ہے۔جس میں ایک طرف نسبی طور یہودی قومی تشخص، ان کی ریاست اسرائیل اور ان کی استعماریت کے پٹھو ممالک وانسانی گروہ جب کہ دوسری جانب نسبی لحاظ سے عرب، نظریاتی طور مسلمان اور خاص طور پاکستانی مسلم صاف دکھائی دیں گے۔ تب عالم انسانیت سے متعلق تمام گروہوں یعنی اقوام عالم کو بر مبنی علیٰ وجہ البصیرت دعوت فکر دیے جانے کی راہ ہموار ہوسکے گی کہ جناب ابراہیمؑ کی تحقیقات وتعلیمات کی نفی اور اثبات کے نکات پر موجود اس تقسیم میں وہ کس مقام پر کھڑے ہیں ۔
عورت کا مقام : جناب ابرہیم ؑکی جانب سے اطمینان قلب کی خاطر عدم سے وجود کے نکتے پر کی گئی تحقیق جب سینوں کی انتہاء پر پہنچی تو نتائج میں سمجھایا گیا کہ جناب ابراہیم ؑکے پروردگار کے بتائے گئے آئین پر زندگی بسر کرنے والے زرخرید غلام کی زندگی سے قصر (فرعون آمون ہوتپ چہارم)اخناطون اول میں حاکم وقت کوبھی اپنے پیچھے دست بستہ کھڑا کرنے کی منزل کو پہنچتے ہیں۔ وہ صدیوں کی تہذیب فراعین کو مٹی کا ڈھیر بنانے کی صلاحیت سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ جس کی جدید پیمانوں پرتصدیق ''قرآن، سائنس و بائبل''کتاب کے مصنف ڈاکٹر مورس بوکائی فرعون من فناح کی ممی میں پیداہوجانے والی خرابی کی تحقیق کے دوران کرچکے ہیں۔
اس آئین کا اطلاق صرف اولاد ابراہیمؑ (یا انبیاء وآئمہ)کے لیے ہی مختصر یا محدود نہیں بلکہ اس ضمن میں''رومی بابو''ہی کیوں نہ ہوں؟ وہ بھی ''غار والے صاحب''بن کر دنیا کو سبق دے سکتے ہیں۔ جب کہ اس آئین کے عملی اطلاق سے ایک سوسال بوڑھے شخص اور بارہ سالہ معصوم وناتواں بچے کے ہاتھوں ارض حجاز کے ذی ذرہ خطے کو عالیشان تہذیب وتمدن کا مرکز بنایاجانا ممکن بن سکتا ہے ۔جہاں آنے والوں کے لیے ایک عورت(جو نبی نہیں تھیں) کی ممتا کے احترام میں صفا ومروہ کی پہاڑیوں پر دوڑ لگانے کولازمی (فرض) قراردیکر اپنے گھر کے طواف جتنی فضیلت عطا کی۔تاکہ اس تہذیب سے وابستہ انسان دنیا میں عورت کے عزت واحترام کرنے کا درس لے کروہاں سے اپنے اپنے خطوں میں واپس جائیں۔
پیغام ارض حجاز : دنیا کے تہذیبی مراکز سے ہوکر اپنے خطوں کوواپس آنے والے صرف اس تہذیب اور اس سے وابستہ انسانی گروہ (قوم)کی مادی نشانیوں سمیت ان کی تاریخی عظمتوں ورفعتوں کے گیت گانے لگتے ہیں۔ جس طرح ہمارے وسیع النظر وترقی یافتہ افراد کرتے ہیں۔حالانکہ ان کے انھی گیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تاریخی عظمتوں کے باوجود ان کا حالیہ تمدنی نظام استعماریت کے تمدنی نظام کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، لیکن تاریخ کے طالب علم کے لیے کتنی محسور کن صورتحال ہے کہ ارض حجاز پر جناب ابرہیم ؑکے پروردگار کی بتائی گئی تہذیب کے تمام تر اجزائے ترکیبی لگ بھگ 4 ہزار سال قدیم ہیں۔
جو کہ ان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ یہاں تک آنے والے سب کے سب اولاد ابراہیمؑ ہونے کے باعث آپس میں بھائی اور جسد واحد ہیں اور جب یہاں سے واپس جائیں تو عالم انسانیت سے وابستہ تمام انسانی گروہوں کو اولاد آدمؑ کی حیثیت میں اپنا بھائی جانوتا کہ تم میں اعتدال پیدا ہو۔ چونکہ انسانوں کا موجودہ ارتقائی مرحلہ فردی وخاندانی سطح سے اٹھ کر قومی سطح تک پہنچ چکاہے اس لیے کیا ہی خوبصورت تشریح ہے کہ ریاست پاکستان آج تمام تر مذہبی و مسلکی تنازعات سے بلند ہو کر دنیا کے ہر ایک گوشے میں نہتے و مظلوم انسانوں کی داد رسی اور حمایت میں سب سے آگے اور نمایاں نظر آتا ہے۔جس کی پاداش میں وہ روزنئی نئی سازشوں سے بھی نبردآزماء ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے عالمی استعماریت سے اپنی علیحدگی کا کھلم کھلا اقرار اپنے پاسپورٹ پر نمایاں الفاظ میں درج کیا ہواہے،جوکہ وارثی ابراہیم ؑکی سب سے روشن علامت ہے اور یہ تو ہر ایک ذی ہوش انسان جانتا ہے کہ وارثی ابراہیم ؑکا مطلب امامت انسانیت کے فرائض ہیں۔ (البقرہ:124)
(جاری ہے)