جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاک افغان امن عمل
افغانستان کے لیے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی نئی پالیسی کے کارن بھارتی ارادوں اور مقاصد کو تقویت ملی ہے۔
شورِ محشر سا بپا ہے کہ امریکی وزیر دفاع جیمز مَیٹس اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان میں قدمِ رنجہ فرمانے والے ہیں۔ ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک جیمز میٹس پاکستان آ بھی چکے ہوں۔کوئی کہتا ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو دھمکیاں دینے آرہے ہیں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ اُن کا دَورہ پاکستان سے مل کر افغانستان میں امن عمل کو مستحکم کرنے کی پہلی کوشش ہے۔پاکستان تو خالص نیت سے افغانستان میں کامل امن چاہتا ہے۔یہ واضح خواہش 11اکتوبر کو کراچی میں کی گئی جنرل باجوہ صاحب کی تقریر میں بھی ملتی ہے۔
سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کی قیادت میں سابق سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف نے دوتین بار افغانستان کا دَورہ کیا تھا۔افغان صدر جناب ڈاکٹر اشرف غنی کے دل میں اگر کہیں پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات مستحکم کرنے کی کوئی شمع جھلملا بھی رہی تھی تو اسے نریندر مودی کی اسٹیبلشمنٹ نے بڑی چالاکی اور عیاری کے ساتھ گُل کر دیا۔
افواجِ پاکستان کی قیادت نے، اپنی منتخب سیاسی قیادت کی اشیرواد سے، افغانستان سے اچھے تعلقات بنانے اور افغان امن عمل کوآگے بڑھانے کی کوششوں میں کمی آنے دی ہے نہ بددلی کا مظاہرہ کیاہے ۔افغان دہشت گردوں نے اگرچہ2600کلومیٹر طویل پاک، افغان سرحد پر قیامتیں بپا کیے رکھیں، پاک فوج کے کئی جوانوں اور افسروں کو دھوکے و بزدلی سے شہید بھی کیا اور افغان خفیہ اداروں نے پاکستان میں کئی مقامات پر خودکش دھماکے کرکے کئی پاکستانی شہریوں کی زندگیوں کے چراغ بجھا دیے ہیں۔
اگرچہ افغان حکمران بھارتی خفیہ اداروں کی انگلیوں پر ناچتے ہُوئے بھارتی ایجنٹوں کو بلوچستان میں خونی وارداتیں کرنے کی جملہ سہولتیں بھی فراہم کرتے رہے ہیں اور ہنوذ کرتے ہیں۔ اِن سب کے باوجود پاکستان کی عسکری قیادت نے پاک، افغان امن عمل (Peace Process)کے حوالے سے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ اِس کے لیے بے پناہ صبر اور برداشت کا بار بار مظاہرہ بھی کیا گیا ہے اور کئی یار لوگوں کے طعنے ، مہنے بھی سہنے پڑے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان اور پاک فوج نے، افغانستان کے لیے، وسیع القلبی کے مظاہرے کیے ہیں۔ پاک، افغان امن عمل کی بیل کو سِرے چڑھانے اور افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں میں اپنا مستحسن حصہ ڈالنے ہی کی یہ قابلِ ستائش نیت تھی کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایک سے زیادہ مرتبہ افغان صحافیوں کے وفود نے پاکستان کے دَورے کیے ہیں تو جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم سے پاک فوج کی جانب سے انھیں ہر قسم کی سہولتوں اور آسائشوں سے نوازا گیا۔ انھیں راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں مدعو کرکے کھانے بھی کھلائے گئے، جنرل صاحب نے بنفسِ نفیس ان سب افغان اخبار نویسوں سے ملاقاتیں کر کے پیار بھری باتیں بھی کی ہیں اور اُن کے ساتھ گروپ فوٹو بھی بنوائے۔
یہ تصویری رونقیں ہمارے میڈیا کی زینت بھی بنی ہیں۔ آئی ایس پی آر نے بھی میجر جنرل آصف غفور کی قیادت میں اُن کے ساتھ محبت بھرا سلوک کیا ہے۔ یہ افغان صحافی بھائی ہر بار ڈیڑھ ، ڈیڑھ درجن کی شکل میں پاکستان آئے مگر افواجِ پاکستان نے کوئی ناک بھوں چڑھائی نہ کسی بیزاری ہی کا اظہار کیا۔مجھے خود بھی ان افغان صحافیوں کے وفود سے ملنے کا اتفاق ہُوا ہے، اس لیے راقم اپنے براہ راست مشاہدات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ جنرل باجوہ کی طرف سے انھیں تمام محبتوں سے نوازا گیا۔ کوئی کمی نہ رہنے دی۔
کئی افغان صحافیوں کو پاک فوج کے اس شاندار سلوک کی برسرِ مجلس تحسین کرتے ہُوئے بھی مَیں نے سُنا۔پاکستان کے دَورے پر آنے والے افغان صحافی اپنے دل میں تو جنرل باجوہ کی مہمان نوازی کی داد دیتے ہوں گے۔ ممکن ہے افغانوں کے لیے جنرل باجوہ کی یہ مہمان نوازی مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے ثمر آور ثابت ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ بھارت نے، امریکی شہ اور اعانت سے، افغانستان میں جس طرح اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں، اِس اثرورسوخ کو جَلد کم کرنا ہمارے کسی بھی ادارے کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ افغانستان کے لیے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی نئی پالیسی کے کارن بھارتی ارادوں اور مقاصد کو تقویت ملی ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کے لیے ضرررساں تو ہے ہی، خود افغانستان بھی اس سے مجروح ہو سکتا ہے۔
اِس کا فوری احساس سابق افغان صدر، حامد کرزئی، کے اس بیان میں بھی جھلکتاہے:'' افغانستان کے لیے امریکا کی نئی پالیسی میں خطے کے لیے خونریزی کا پیغام ہے۔'' اِس پس منظر میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اکتوبر2017ء کے پہلے ہفتے کابل کا دَورہ کیا ہے تو مقصدِ وحید یہی تھا کہ پاک، افغان امن عمل کومستحکم بھی کیا جائے اور اِس کے متعلقہ راستوں کو کشادہ بھی کیا جائے۔
افغانستان میں بھارتی وظیفہ خواروں کی موجودگی کو پیشِ نگاہ رکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں بآسانی آجاتی ہے کہ جنرل باجوہ کے کابل میں قدم رکھتے ہی بعض اطراف سے اُن پر سخت تنقید کیوں کی گئی۔ افغان پارلیمنٹ کے بعض ارکان(مثلاً : دولت وزیری، فاطمہ عزیز، عبدالحئی اخوندزادہ) نے جنرل صاحب اور پاکستان کے خلاف بیانات دیے۔
افغان خفیہ ادارے کے سابق دونوں سربراہوں(رحمت اللہ نبیل اور امراللہ صالح)نے بھی اپنی اپنی ٹویٹس میں جنرل باجوہ اورپاکستانی اداروں پر تنقید بھی کی اور اُن کی آمد کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اصحاب جس طور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے صاف دکھائی دیتے ہیں، اُن سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے دَورئہ کابل کے موقع پر ایسی ہی ٹویٹس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ پاکستان، حکومتِ پاکستان اور سپہ سالارِ پاکستان نے مگر افغانستان کو اپنا بنانے کے کوششیں ترک نہیں کی ہیں۔
اِنہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جب جنرل باجوہ یکم اکتوبر کو کابل میں افغان صدر اور افغان سپہ سالار سے ملاقاتیں کررہے تھے تو سفیر عمر ذخلوال نے اِس ملن کے بارے میں مسرت اور شادمانی سے یوں ٹویٹ کیا:'' Candid,positive,respectful,constructive and encouraging meeting in a long time.I,m proud to have played a facilitating role in all this. یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سفیر عمر صاحب کی متذکرہ ٹویٹ نے رحمت اللہ نبیل اور امراللہ صالح ایسے شرارتی افغان عناصر کی دونوں ٹویٹس کو غیر موئثر بنا کر رکھ دیا۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا دَورئہ کابل تو ایک روزہ تھا لیکن بھارتی میڈیا اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کے پیٹ میں تین ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ اوراب جب کہ دو اہم امریکی وزرا (مبینہ طور پر افغانستان میں امن عمل کو پائیدار بنانے کی غرض سے) پاکستان آرہے ہیں تو ایک بار پھر بھارتی میڈیا کے پیٹ میں درد اُٹھنے لگا ہے۔ شور مچایا جارہا ہے کہ اِن امریکیوں کی پاکستان آمد سے کہیں پاکستان اور امریکا پھر سے اِک مِک نہ ہو جائیں۔