محبت اور سمجھ کا توازن

نارمل رویے ایک معیاری ماحول کی تشکیل کرتے ہیں، جب کہ ابنارمل کردارمعیار سے انحراف کرتا ہے۔


Shabnam Gul October 13, 2017
[email protected]

کچھ دن پہلے ذہنی صحت کا عالمی دن منایا گیا۔ جس طرح کے پیچیدہ حالات کا دنیا کو سامنا ہے، وہ دن بہ دن انتہائی خطرناک نوعیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ انسانی قدروں کی پامالی کے ساتھ فطری ماحول بھی زوال پذیر ہو رہا ہے۔ ذہنی امراض میں اضافے کی وجہ رویوں و ماحول کی آلودگی ہے۔ نارمل رویے ایک معیاری ماحول کی تشکیل کرتے ہیں، جب کہ ابنارمل کردارمعیار سے انحراف کرتا ہے۔ لفظ ابنارمل لاطینی لفظ سے ماخوذ کیاگیا ہے، جس کے مطابق معیار سے دوری غیر رواجی رویوں کو جنم دیتی ہے۔ ان لوگوں میں ذہنی وجسمانی عدم مطابقت پائی جاتی ہے۔

ذہنی بیماری کی مختلف وجوہات ہیں۔ جس میں ایک وجہ منفی سوچ کی پختگی ہے۔ ذہنی صحت، ان ممالک میں زوال پذیر دکھائی دیتی ہے۔ جو سماجی، سیاسی ومعاشی مسائل میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ ذہنی صحت کو جو خطرات لاحق ہیں ان میں چند عوامل کارفرما ہیں۔

موروثی اثر، پرورش، ناپختہ شخصیت، حالات اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ذہنی بیماری کا کیسے تعین کیا جائے؟ بعض اوقات نفسیاتی ماہرین بھی یہ نہیں سمجھ پاتے۔ کیونکہ یہ تشخیص انتہائی باریک بینی پر مشتمل مشاہدے کا تقاضا کرتی ہے، جب کہ نفسیاتی معالج کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا۔ زیادہ تر وہ اپنے تجربے اور علامات کی بنیاد پر نتیجہ برآمد کرتے ہیں۔ ذہنی تکلیف کا اندازہ رویوں، حرکات و سکنات اور معیار زندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ ابنارمل رویوں کو Maladaptive Behaviour (ماحول کے ساتھ ذہنی، جذباتی یا عملی عدم مطابقت رکھنے والے رویے) یہ رویے ماحول میں انتشار برپا کردیتے ہیں۔ جو انسانوں کو ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف پہنچاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ شخصیت میں زیادہ تشویش، خوف، بے جا غصہ، غیر مستقل مزاجی اور بے زاری ہو تو فوری طور پر نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر علاج تک رسائی حاصل نہ ہو تو ماحول تبدیل کرلینا چاہیے۔ غصہ یا جارحیت معاشرے میں عام ہیں اور رواجی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ بالکل اسی طرح شکایتی رویے، غیبت و دیگر غیر انسانی رویے ہیں جو عدم برداشت پر مبنی ہوتے ہیں۔

غصہ یا جارحیت، دلی ناآسودہ خواہشات کا ردعمل ہے، انسان کے پاس جینے یا خوش رہنے کے لیے کتنی جگہ پائی جاتی ہے۔ یا شخصی آزادی کا کس قدر احترام کیا جاتا ہے۔ یہ دو سوال ایسے ہیں جن کے جواب سے ذہنی صحت کے معیار کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مرضی کا آسمان یا انتخاب کا اختیار کم لوگوں کو میسر ہے۔ بعض لوگ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ غیر زندگی یا رویوں کے تضاد کو سمجھنے یا برتنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور ذات سے بالاتر ہوکے سوچتے ہیں۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ فقط سکھ، ذاتی خوشی اور موافق حالات کی امید رکھتا ہے، لیکن یہ حالات ہمیشہ اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیتے۔ چیزوں کو مسترد کرنے کی وجہ، انھیں اپنے معیار کے مطابق دیکھنے کی کوشش ہے، جب کہ قبولیت کا مطلب ہے کہ دوسروں کو بغیر تبدیلی کی خواہش کے، ساتھ لے کر چلیں۔

انسانی ذہن کا سب سے بڑا فتنہ، انا کا جال ہے۔ انا، حاکمیت، ضد، تنگ نظری، منفی رویوں اور بدلہ لینے کی خواہش کو پروان چڑھاتی ہے اور ناپسندیدہ رویوں کے حبس میں روح کا گلاب مرجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی میں نظم و ضبط کی اپنی اہمیت ہے۔ ایسا دائرہ کار جو فرد سے ذہنی آزادی کا حق نہیں چھینتا۔

جدید تحقیق کے مطابق ذہنی امراض کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جس کا سبب ماحول کی آلودگی بتائی جاتی ہے۔ ہوا کی آلودگی، کرہ ارض کی زندگی کی بقا کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ہوا میں موجود آلودگی کے ذرات، ذہنی دباؤ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ جو نہ فقط مہلک جسمانی بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں بلکہ ذہنی امراض کے لیے بھی راستہ ہموار کرتے ہیں۔ بعض اوقات جسمانی بیماریوں کے حامل افراد میں بھی ذہنی دباؤ پایا جاتا ہے۔ یہ خوف اور تشویش طبعی بیماری کو مزید بڑھا دیتی ہے، اگر کسی شخص کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے اور وہ بلڈ پریشر کا مریض بھی ہے تو اسے اپنے غصے کا حل ازخود ڈھونڈ لینا چاہیے۔ کیونکہ دل کے امراض، فالج یا مہلک بیماری کسی حد تک غصے یا جارحیت کا ردعمل ہوتی ہے۔

بچے کی پرورش میں چند بنیادی رویے شامل ہونے چاہئیں جن میں خود اعتمادی، سچائی اور عفو و درگزر اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو جسمانی مشقوں، کھیل کود اور تعمیری سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ بچے اگر بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں ماحول میں تبدیلی چاہیے۔

بڑوں کے ذہنی دباؤ کی سب سے بڑی وجہ بچوں، ٹین ایجرز یا نوجوانوں کے عدم مطابقت پر مبنی رویے ہیں۔ یہ رویے فطری اور جسمانی تبدیلیوں کے زیر اثر ہوتے ہیں ۔ والدین کو اولاد کی ذہنی، جسمانی و روحانی تکلیف کو سمجھنا چاہیے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں گے۔ بچے بہت بڑی حد تک والدین کا عکس ہوتے ہیں۔ ان پر والدین کے ظاہری رویوں سے لے کر اندرونی کیفیات تک کا اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا پرورش کا طریقہ بھی بچے کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ زیادہ سختی یا نرمی کے مضر اثرات بھی اس کی شخصیت کا توازن بگاڑ دیتے ہیں ۔

ذہنی امراض سے لڑنے کے لیے ان مسائل کی سمجھ اشد ضروری ہے۔ خاص طور پر گاؤں و دیہات میں پیروں، عاملوں و مرشدوں کا کاروبار فقط ذہنی پیچیدگی کے حامل افراد کی وجہ سے زوروں پر ہے۔ یہ مٹکے والے یا دھلائی والے بابا ان مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے انھیں زندہ درگور کرکے رکھ دیتے ہیں۔

ان ذہنی بیماروں میں زیادہ تر نوجوان لڑکے و لڑکیاں شامل ہیں۔ جو زیادہ تر خاندانی جھگڑوں، غربت اور اخلاقی پسماندگی کے باعث ذہنی طور پر غیر فعال ہوجاتے ہیں۔ ان مریضوں میں اکثر موروثی طور پر منتقل ہونے والی ذہنی بیماری کے متاثرین بھی شامل ہیں ۔ صحیح معالج تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی۔ کیونکہ اکثر لوگ ذہنی مسائل و صحت کی پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہوتے۔

غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی سمجھ کو چھوڑیے، یہاں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی خود آگہی کے جوہر سے محروم ہیں۔ وہ فرد کو سمجھے بغیر دنیا کو دریافت یا فتح کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا حل فقط یہ ہے کہ جیسے ہی رویوں کا تضاد سامنے آئے یا انفرادی رویے روزمرہ کے کاموں کے معیار کو متاثر کرنے لگیں یا رابطوں میں دراڑیں پڑنی شروع ہوجائیں۔ فوری طور پر ایسے عدم مطابقت پر مبنی رویوں کو دھیان میں لانا چاہیے۔

ان تمام تر منفی رویوں و رجحانات کو ایک دم سے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، مگر برداشت، سمجھ اور مثبت انداز فکر کو ساتھ لے کر ذہنی انتشار کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمدردی، پیار اور توجہ سے بڑھ کر کوئی دوسرا علاج ممکن نہیں ہے۔ ذہنی مسائل غصے یا غیر عقلی رویوں سے کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ ان کے حل کے لیے محبت اور سمجھ کا توازن چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں