شادی میں اسراف اور فضول خرچی
صدیوں سے جو بڑے بوڑھوں کے بنائے ہوئے چلے آرہے ہیں جن کی پیروی نہ کرنے سے برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔
شادی ایک مذہبی فریضہ ہے جسے سماجی طور پر بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ شادی کے لفظی معنی ''خوشی'' کے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ فریضہ اپنے اندر خوشیوں اور مسرتوں کا ناقابل خزانہ سموئے ہوئے ہے۔ بیٹے، بیٹی، بھائی یا بہن کی شادی متعلقین کے لیے شادمانی اور خوشیوں کا پیغام بن کر آتی ہے۔ مگر اس یادگار موقع کو بعض لوگوں نے دکھاوے بے جا اسراف اور جھوٹی شان و شوکت کی نذر کردیا ہے۔
شادی اور اس سے منسلک رسموں پر جو لوگ زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ان کو عموماً معاشرے میں اتنی ہی زیادہ عزت و تکریم دی جاتی ہے اور شادی کے کئی دنوں تک اس گھرانے کے چرچے ہوتے رہتے ہیں جب کہ جن غریب والدین کے پاس ان فضول رسومات کی ادائیگی کے لیے پیسہ نہیں ہوتا، چنانچہ انھیں اپنے خاندان اور سمدھیانے میں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے، لڑکی کو تمام سسرال والوں سے والدین کی غریبی کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ وہ رسم و رواج جن کی ہم پیروی کرتے ہیں۔
صدیوں سے جو بڑے بوڑھوں کے بنائے ہوئے چلے آرہے ہیں جن کی پیروی نہ کرنے سے برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو دستور زمانے سے چلا آرہا ہے اور جو رسم و رواج صدیوں سے رائج ہیں ان کے مطابق تو چلنا ہی پڑتا ہے۔ جنھیں نسل در نسل منتقل کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان نمود و نمائش اور اسراف پر مبنی رسومات کی ابتدا منگنی سے شروع ہوتی ہے اور شادی کے بعد ہفتے بھر تک یہ جاری رہتی ہیں۔
منگنی کی رسم رشتہ کنفرم کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ اس رسم پر بھی بے جا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں منگنی کی رسم میں لڑکے اور لڑکی والوں کی طرف سے مٹھائی کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کو ڈائمنڈ کی انگوٹھیاں پہنائی جاتی ہیں۔
لڑکے والوں کی طرف سے دلہن کے لیے قیمتی ملبوسات، زیور، پھل، پھول اور مٹھائی وغیرہ بھیجی جاتی ہے جس کے جواب میں لڑکے والوں کو بھی دولہا کے لیے سوٹ، انگوٹھی، مٹھائی اور پھول وغیرہ کے ساتھ دیگر لوازمات کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں طرف سے مہمانوں کی خاطر تواضح کی جاتی ہے۔ اس رسم کی ادائیگی اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ رسم منگنی کی ہے یا نکاح کی۔
اس رسم کی ادائیگی کے بعد شادی تک کے وقفے کے دوران عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے تہواروں پر دونوں فریقین کی طرف سے عیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جس میں ان مواقعوں پر منگنی کی طرح لڑکی اور لڑکوں کے لیے قیمتی کپڑوں اور دیگر لوازمات مٹھائی، فروٹ اور پھولوں کی شمولیت لازمی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں گھرانوں کے درمیان دعوتوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ منگنی سے شادی کے عرصے کے دوران بعض گھرانوں میں تو اس قدر خرچ کردیا جاتا ہے کہ ایک اوسط درجے کے گھرانے کی تین سے چار لڑکیوں کی شادیاں باآسانی ہوسکتی ہیں۔
اب ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔ شادی کی تقریبات اور مختلف لوازمات میں بے جا اسراف کا۔ سب سے پہلے لڑکی کی شادی کے لیے سونے کے زیورات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس وقت سونے کی قیمت تقریباً 50 ہزار روپے فی تولہ ہے۔ ایک فیملی اپنی لڑکی کے لیے زیورات کی خریداری میں مصروف تھی، وہ سونے کے ایک سیٹ کا دام پوچھتے اور فکرمند ہوجاتے۔
فیملی کے سربراہ جوکہ ہمارے ساتھ ہی تشریف فرما تھے ہم سے کہنے لگے ''اس مہنگائی کے دور میں بیٹیوں کی شادیاں کتنی مشکل ہوگئی ہیں۔ میں نے تنکا تنکا جوڑ کر ایک فلیٹ خریدا تھا۔ بیٹی کی شادی کے لیے وہ فلیٹ بیچ دیا ہے۔ مگر اس فلیٹ کی آدھی رقم کے برابر یہ ہلکے سے زیورات کی قیمت ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ باقی لوازمات کہاں سے پورے ہوں گے۔
دیکھیے، نکاح اور ولیمے کے ملبوسات زندگی میں زیادہ تر ایک مرتبہ ہی پہنے جاتے ہیں۔ میں نے بیٹی کے بہت کم قیمت جوڑے خریدے ہیں۔ پھر بھی دو جوڑے لاکھ لاکھ روپے کے ہیں۔ پھر لڑکے کی شیروانی اور فل سوٹ پچیس ہزار کے پڑے ہیں، اب سوچ رہا ہوں کہ کارڈ اور نکاح کے کھانے اور شادی ہال کا بندوبست کیسے ہوگا؟ والدین کی خواہش ہوا کرتی ہے کہ ان کی لڑکی جلد ازجلد اپنے گھر کی ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے وہ اچھے سے اچھے رشتے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بیٹی کا رشتہ طے ہونے کے بعد ان کی آرزو ہوتی ہے کہ بیٹی اپنے گھر میں آسودہ رہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے لڑکی کا جہیز تیار کیا جاتا ہے۔
اکثر مائیں بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد ہی تھوڑا تھوڑا بیٹی کا جہیز تیار کرتی رہتی ہیں۔ انھیں اس بات کا ڈر بھی رہتا ہے کہ اگر جہیز میں کسی چیز کی کمی رہ گئی تو ساری عمر بیٹی کو طعنے سننے کو ملیں گے۔ شادی چاہے کتنی ہی دھوم دھام سے کیوں نہ ہو لیکن باتیں بنانے والے اور مذاق اڑانے والے پھر بھی کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ''بچھو کسی دشمنی کی بنا پر ڈنک نہیں مارتا بلکہ یہ اس کی فطرت ہے۔'' بس یہ مثال ایسے لوگوں کی بھی ہے ۔ یعنی لڑکی کے والدین کا قرض میں بال بال جکڑ گیا ہو مگر لوگوں کے دلوں کو تسکین نہیں ہوتی۔ اب ذرا غور کیجیے کہ ایک بیٹی کی رخصتی پر اتنے اخراجات آتے ہیں اور اگر کسی کے گھر میں تین چار بیٹیاں ہوں تو وہ کیا کرے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شادی کے موقع پر کھانے کا سب سے زیادہ ضیاع کیا جاتا ہے۔ ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق شادی کی تقاریب میں تقریباً تیس فیصد کھانا ضایع کردیا جاتا ہے۔ شادیوں میں مہمان بڑی مقدار میں کھانا اپنی پلیٹوں میں نکال لیتے ہیں اور کھائے بغیر پلیٹوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔ جس کھانے سے سیکڑوں افراد پیٹ کی آگ بجھا سکتے تھے وہ یوں ہی ضایع ہوجاتا ہے۔ اس نمود و نمائش میں لاکھوں لوگ جو صرف اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ سب لوازمات کہاں سے کریں گے ان کی مثال ایسی ہے ''چپ بھی نہیں رہ سکتے اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔''
ملک میں لاکھوں لڑکیاں رشتے کے انتظار میں بالوں میں چاندی لیے بیٹھی ہیں۔ اور ان میں سے اکثر کی شادیاں صرف بے جا اور فضول رسموں پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات کی وجہ سے نہیں ہو پا رہی ہیں۔ مثلاً زیورات اور اعلیٰ قسم کے ملبوسات اعلیٰ کھانوں کا اہتمام، دکھاوے اور انا کے پردے کو آنکھوں سے ہٹا کر ہم لڑکے یا لڑکی شادی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے سادگی سے ادا کرتیں تو بہت سی شادیاں ہوسکتی ہیں۔