قبول ہے
یہ ذمے داری قبول کرنے کا عمل بھی عجیب ہے، نہ یہ پریس میڈیا کو معلوم ہوتا ہے نہ کسی اور ذریعہ پر منکشف ہوتا ہے
امریکی ریاست نیواڈا کے مشہورشہر لاس ویگاس میں ایک میوزک کنسرٹ جاری تھا کہ سامنے واقع مینڈیلے بے ہوٹل سے جو عمارت کی 32 ویں منزل پر واقع ہے، یکایک مجمعے پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ موسیقی کی سحر میں مبتلا اور دھنوں پر مدہوشی کے عالم میں تھرکتے ہوئے لوگوں کو اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ کیا ہو رہا ہے۔ بعض لوگ گولیوں کی آوازوں کو بھی موسیقی کا حصہ گردانتے رہے مگر جب تھرکنے والوں کو گرتے اور اسٹیج کے قریب بیٹھے لوگوں کو تڑپتے دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی۔
پولیس نے فوری کارروائی کی تو پتا چلا کہ منڈیلے بے ہوٹل کے ایک کمرے سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ پولیس نے کمرے کا دروازہ دھماکے سے اڑادیا اور مجرم کو گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ اس کی شناخت مقامی شہری 64 سالہ اسٹیفن کریگ پینڈوک کے نام سے ہوئی۔ اس اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 58 افراد مارے گئے اور 516 افراد زخمی ہوئے۔ یہ اتنا ہلاکت خیز اور دہشت گردی سے مملو واقعہ تھا کہ ماضی قریب میں اتنی بڑی خونریزی کی مثال نہیں ملتی۔
قاتل اس ہوٹل میں پچھلے کئی دنوں سے مقیم تھا اور اس نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے ارادے پر عمل در آمد کیا۔ اس کے کمرے سے متعدد قسم کے خود کار ہتھیار برآمد ہوئے۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہتھیار سازی کی ایک فرم میں ملازم رہ چکا تھا اور اسے ہتھیاروں کو جدید اور مزید کار آمد بنانے کا فن بھی آتا تھا۔
اس کی گرل فرینڈ 62 سالہ ایشیائی خاتون ماریکو ڈینلے کی تلاش بھی شروع ہوئی کیونکہ چند روز قبل وہ اس کی ہم سفر رہ چکی تھی مگر وہ اس وقت فلپائن میں تھی اور بعد میں از خود امریکا پہنچ گئی ہے۔ بظاہر اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور وہ مجرم کے ارادوں سے بے خبر معلوم ہوتی ہے۔
اگر خدانخواستہ یہ خطرناک اور ظالم دہشت گرد مسلمان ہوتا تو ساری دہشت گردی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اسلام سے نتھی کردی جاتیں اور کہا جاتا کہ مسلمان ہوتے ہی دہشت گرد ہیں۔ ان کے خلاف من حیث القوم نفرت کے جذبات ابھرتے، مسجدوں پر حملے ہوتے اور مسلمانوں کو بے گناہی کی سزا میں زد و کوب اور زخمی کیا جاتا۔
مگر اس انتہائی ہیبت ناک دہشت گردی پر رنج و غم کا اظہار تو کیا جارہا ہے مگر اس سلسلے میں دہشت گرد کا تعلق کسی انتہا پسند تنظیم سے نہیں جوڑا گیا۔ امریکی صدر نے تو فوری طور پر اسے ذہنی مریض قرار دے دیا تاکہ اس کا جرم ہلکا کیا جاسکے۔ حالانکہ اس نے اس حملے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی، اپنے کمرے کی کھڑکی سے دو زاویوں سے لگا تار فائرنگ کی۔ وہ خود کار ہتھیاروں کا ماہر تھا اور ہتھیاروں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے منصوبے کو اس قدر خفیہ رکھا کہ اس کی گرل فرینڈ بھی اس کے ارادوں سے نا واقف رہی اور ہوٹل میں سروس فراہم کرنے والے ملازمین بھی اس کی نقل و حرکت میں کوئی غیر معمولی چیز محسوس نہ کرسکے۔ ایسے دانا بینا کو دماغی مریض قرار دینا کم سے کم الفاظ میں مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ ساری باتیں اس لیے ہورہی ہیں کہ مجرم پشتینی امریکی گورا اور عیسائی ہے۔ ایشیائی النسل مسلمان نہیں ورنہ پوری مسلم دنیا اس کے عمل کی ذمے دار قرار دی جاتی۔
یہ ہے وہ موقع جس پر اظہار غم کے ساتھ یہ بھی سوچا جائے کہ ملزم کے اس دہشت گردی کے عمل کو عیسائیت سے کیوں نہ جوڑا جائے کیا اس کے احمقانہ، دہشت گردانہ عمل کو پوری گوری دنیا، سارے عیسائیوں کے سر تھونپا جاسکتا ہے۔ اگر نہیں تو مسلمانوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہے کہ ان کے کسی بگڑے نوجوان کے جذباتی عمل کو ''مسلم دہشت گردی'' اسلامی انتہا پسندی کیوں قرار دیا جاتا ہے۔
اس سارے قصے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ داعش نے اس حملے کی ذمے داری فوری طور پر قبول کرلی۔ ثابت ہوا کہ بعض عیسائی بھی داعش کے لیے کام کر رہے ہیں مگر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے داعش کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
یہ ذمے داری قبول کرنے کا عمل بھی عجیب ہے، نہ یہ پریس میڈیا کو معلوم ہوتا ہے نہ کسی اور ذریعہ پر منکشف ہوتا ہے البتہ متعلقہ حکومت کے حکام متعلقہ کو پتا چل جاتا ہے کہ ذمے داری داعش نے قبول کرلی۔ اگر یہ ذمے داری ملک کے اندر سے قبول کی گئی ہے تو قبول کرنے یا قبولیت کی اطلاع دینے والے کو فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی دوسرے ملک سے اطلاع دی گئی ہے تو اس کی ایجنسیوں کی مدد سے اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے مگر آج تک ذمے داری قبول کرنے کی اطلاع دینے والوں کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ در اصل یہ متعلقہ حکومتوں کے کام کی چیز ہوتی ہے کہ وہ کس حادثے کی ذمے داری کس سے قبول کرواتے ہیں۔
اب اس معاملے میں داعش نے قبول کرنے یا اس سے قبول کروانے میں اتنی عجلت برتی گئی کہ مجرم کے کوائف بھی معلوم ہونے کا انتظار نہیں کیا گیا ۔ اب ایک عیسائی گورا امریکا میں اسلامی نظام کے قیام کا آلہ کار بن گیا نا؟ حالانکہ اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ اس کے تو داعش کے ارباب حل و عقد ذہنی مریض نہیں یا مجرم ذہنی مریض تھا۔
اب ''یہ ذہنی مریض'' ہونے کا عذر شرعی تو اس کے دہشت ناک عمل کی ذمے داری کو کسی قدر کم کرکے پیش کرنے کی کوشش ہے۔
ہم بھی خدانخواستہ عیسائیوں کو دہشت گرد نہیں سمجھتے اور اس عمل میں اس شخص کو دہشت گردی عیسائیت کا کچھ نہیں بگاڑتی مگر خدارا اے مغرب کے اہل دانش کسی مسلمان کے ذاتی عمل کو اسلام سے جوڑنے میں جو سرگرمی آپ دکھاتے ہیں وہ چہ معنی دارد!
اور یہ ذمے داری قبول کرنے والے ادارے جماعتیں اور تحریکیں کس طرح اور کس کی مدد سے اتنی دلیرہوجاتی ہیں کہ فون پر پیغام رسانی کا ذریعہ قبولیت کرتے وقت انھیں اپنے پکڑے جانے کا احساس اور خوف ہرگز لاحق نہیں ہوتا۔ اس سارے عمل میں ''ذمے داری'' قبول کرنے والوں کی گرفت جو سب سے اہم بات ہے کیوں نظر انداز کی جاتی ہے اور کس کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔