انمول گیتوں کا خالق احمد راہی حصہ اول

احمد راہی ابھی ادب سے جڑے ہوئے تھے ان کا پہلا پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’ترنجن‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا


یونس ہمدم October 14, 2017
[email protected]

میں بھی اپنے نوجوانی کے دنوں میں اسی طرح کراچی سے لاہور گیا تھا، جس طرح کسی زمانے میں بمبئی کی فلمی دنیا کی چمک دمک دیکھ کر لاہور سے لوگ بمبئی جایا کرتے تھے اور اپنی قسمت کو آزماتے تھے۔ میں نے کسی سے کوئی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے چند دن لاہور ہوٹل میں گزارے تھے اور میری کیفیت اس شعر کے مصداق تھی:

وہ کیسا مسافر ہے کہ سامان نہیں ہے
پھر شہر میں اس کی کوئی پہچان نہیں ہے

میں بستر پر لیٹا کروٹیں لے رہا تھا، نیند نہیں آرہی تھی مگر کہیں دورکسی عام ہوٹل سے فلمی گیتوں کی آوازیں آرہی تھیں، میں نے کمرے کی کھڑکی کھول کر باہر دیکھا تو چاند اپنے پورے جوبن پر تھا، اسی دوران فلم ''باجی'' میں گائے ہوئے گلوکارہ نسیم بیگم کے گیت کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔گیت کے بول تھے۔

چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے
برہا کی بیری رتیاں بیتے نہ ہی ہائے رے

میں کھڑکی میں کھڑا یہ گیت سنتا رہا، اس گیت کے ختم ہوتے ہی دوسرا گیت سماعت سے ٹکرایا جسے فلم ''ہیر رانجھا'' میں میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور جس کے بول تھے۔

سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے
میں تاں ہو ہو گئی قربان وے

اور مجھے ان دونوں گیتوں کے شاعر احمد راہی کے ساتھ وہ مختصر سی ملاقات یاد آگئی جو ان دنوں نگار ویکلی کراچی کے دفتر میں ہوئی تھی جب میں کالج کا طالب علم تھا اور نگار ویکلی میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا اور شاعر احمد راہی نگار کے دفتر میں مدیر نگار الیاس رشیدی سے گپ شپ میں مصروف تھے اور میری بھی ان سے سلام دعا ہوئی تھی ، پھر میں نے ''نگار'' ہی میں ان کے بارے میں ایک مضمون بھی لکھا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں لاہور میں احمد راہی سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کروں یا ان کے لکھے ہوئے سپر ہٹ فلمی گیتوں کی طرف آؤں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ نامور فلمی نغمہ نگاروں تنویر نقوی، سیف الدین سیف کے بعد احمد راہی کا نام بھی ان شاعروں میں آتا ہے جنھوں نے نہ صرف پنجابی فلموں کے لیے بلکہ اردو فلموں کے لیے بھی بے شمار گیت لکھے اور کچھ لازوال گیت بھی تخلیق کیے۔ اب آتا ہوں میں احمد راہی کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ احمد راہی 12 نومبر 1923 میں خواجہ عبدالعزیز کے گھر امرتسر میں پیدا ہوئے ان کے خاندان میں دور دور تک کوئی شاعر نہیں تھا ان کا گھریلو نام غلام احمد رکھا گیا تھا اور شروع میں مذہبی تعلیم ہی دی گئی تھی۔

مقامی اسکول سے پڑھائی کے بعد جب انھوں نے ایم۔اے۔او کالج میں داخلہ لیا تو سب سے پہلے جس سے ان کی دوستی ہوئی وہ ان کا ہم جماعت سیف الدین تھا جسے شاعری سے دلچسپی تھی۔ پھر سیف الدین نے اپنے نام کے ساتھ سیف کا تخلص بھی لگایا اور وہ سیف الدین سیف ہوگیا (بعد کا مشہور ادبی اور فلمی شاعر سیف الدین سیف) سیف الدین سیف کالج ہی سے شاعر مشہور ہوگیا تھا اور سیف الدین سیف کی صحبت نے غلام احمد کو بھی آہستہ آہستہ شاعر بنادیا دونوں نے اپنی شاعری کا آغاز پنجابی زبان میں شاعری سے کیا اور پھر سیف الدین سیف کی دیکھا دیکھی غلام احمد نے بھی اپنے نام کے ساتھ غلام ہٹا کر احمد کے ساتھ راہی کا اضافہ کرلیا اور پھر بحیثیت شاعر احمد راہی بھی کالج میں مشہور ہوتا چلا گیا۔

سیف الدین سیف اور احمد راہی دونوں آپس میں گہرے دوست تھے مگر سیف شاعری میں راہی کا استاد تھا۔ سیف الدین سیف نے آہستہ آہستہ اردو شاعری کے میدان میں بھی آنا شروع کردیا اور اردو غزلوں کی وجہ سے نوجوانوں میں پسند کیا جانے لگا پھر احمد راہی نے بھی پنجابی کے بعد اردو میں بھی نظمیں اور غزلیں کہنی شروع کیں اور یہ دونوں دوست ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بلائے جانے لگے ان دنوں ہندوستان کے بیشتر اردو رسالے لاہور کے شاعروں کا کلام شایع کیا کرتے تھے اور ہندوستان کی ادبی کتابیں، رسالے اور بہت سے اخبارات سے لاہور و دیگر شہروں میں آتے رہتے تھے۔

احمد راہی نے ان دنوں ''آخری ملاقات'' کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھی جو ہندوستان سے شایع ہونے والے رسالے ''افکار'' بھوپال میں شایع ہوئی۔ احمد راہی اپنی نظم ہندوستان کے مشہور رسالے میں شایع ہونے پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ احمد راہی نے وہ رسالہ سب سے پہلے اپنے دوست استاد سیف الدین سیف کو دکھایا اور اپنی نظم کے بارے میں اپنی رائے پوچھی تو سیف الدین سیف نے بے ساختہ کہا۔ یار احمد راہی! اب تو شہرت کی رہگزر کا راہی ہوگیا ہے اب تجھے آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور اب تیری شاعری کو بھی میری اصلاح کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ کالج کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی احمد راہی کو دہلی میں ایک ملازمت کا پروانہ آگیا اور احمد راہی اور سیف الدین سیف کی راہیں یہاں سے جدا جدا ہوگئیں ۔

احمد راہی ملازمت کی غرض سے دہلی چلا گیا۔ ابھی پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا مگر آزاد وطن پاکستان کی تحریک ان دنوں زوروں پر تھی اور یہ 1943 کا زمانہ تھا۔ ہندوستان میں ادیبوں کی بھی ترقی پسند تحریک چل رہی تھی۔ احمد راہی ہندوستان کی ادبی فضا میں بھی اپنی آواز اجاگر کرتے رہے اور ملازمت بھی کرتے رہے یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنے ہوئے تھے، لاہور میں ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض اردو کی ترقی پسند تحریک اور کمیونسٹ تحریک کے سرخیل تھے۔ جب 1947 میں ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اس طرح احمد راہی کی ملازمت بلکہ ان کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔

یہ دہلی سے پھر واپس لاہور آگئے اور یہ بھی ایک حسن اتفاق تھا کہ لاہور سے شایع ہونے والا ماہنامہ ''سویرا'' جس کے مدیر ساحر لدھیانوی تھے وہ ''سویرا'' کی ادارت چھوڑ کر بمبئی چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد ماہنامہ ''سویرا'' کی ادارت کے فرائض احمد راہی کے سپرد ہوگئے اس دوران شعر و ادب کی آبیاری کے لیے احمد راہی کے پاس وقت ہی وقت تھا۔ ان کی اردو شاعری بھی خوب تقویت پاتی رہی۔ ان کے کالج کے زمانے کے دوست سیف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحیثیت نغمہ نگار فلمی دنیا سے منسلک ہوگئے تھے اور پھر فلمسازوں کی صف میں بھی شامل ہوگئے تھے۔

ان کا فلمی دنیا میں ایک مقام بن چکا تھا۔ احمد راہی ابھی ادب سے جڑے ہوئے تھے ان کا پہلا پنجابی شاعری کا مجموعہ ''ترنجن'' کے نام سے منظرعام پر آیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اسی دوران مشہور ادیب و افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بمبئی کی زندگی سے اکتا کر لاہور آگئے تھے یہاں آکر انھوں نے ادبی سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا۔ ان کی بہت سی تحریروں اور افسانوں کو فحش قرار دے کر بین بھی کردیا گیا تھا۔ اسی زمانے میں ایک فلم ''بیلی'' کی کہانی اور مکالمے سعادت حسن منٹو نے لکھے تھے اور پہلی بار اس فلم کے لیے گیت احمد راہی نے لکھے تھے اور بحیثیت موسیقار فلم ''بیلی'' میں رشید عطرے نے موسیقی دی تھی۔

فلم ''بیلی'' ناکام ثابت ہوئی تھی اس طرح سعادت حسن منٹو نے بھی پھر فلموں سے منہ موڑ لیا تھا مگر بحیثیت نغمہ نگار احمد راہی کا سفر آگے بڑھتا رہا اور ''بیلی'' کے بعد احمد راہی نے دو اور فلموں ''مجرم'' اور ''پرواز'' کے لیے گیت لکھے لیکن یہ دونوں فلمیں بھی فلاپ فلمیں ہی رہیں لیکن احمد راہی کی شاعری کو کامیابی ملتی رہی اور پنجابی فلموں کے لیے احمد راہی ایک مستند گیت نگار تسلیم کرلیے گئے تھے۔ اب میں ان دو فلموں کی طرف آتا ہوں جن کے لکھے ہوئے گیتوں نے نغمہ نگار احمد راہی کی کایا پلٹ دی تھی۔ ان دو فلموں میں ایک فلم ''یکے والی'' اور دوسری فلم ''چھو منتر'' تھی۔ دونوں ہی سپرہٹ فلمیں تھیں اور ان کے گیتوں نے دھوم مچادی تھی جب کہ فلم ''چھو منتر'' کا ایک گیت جس کے بول تھے:

برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا
نظر ملا کے کوئی لے گیا قرار میرا

اس زمانے میں یہ گیت گلی گلی کوچے کوچے میں مشہور تھا اور خوب گایا جاتا تھا اور جتنے ٹوٹے دل تھے ان دلوں کی یہ پکار بنا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں