جاگ اٹھا ہے پاکستان

ہماری تاریخ میں ایک انوکھا کردار ’’مشال‘‘ اس کا قاتل کوئی ایک فرد یا گروہ نہیں تھا، ایک سوچ تھی، ایک بیانیہ تھا۔


جاوید قاضی October 14, 2017
[email protected]

چند روز پیشترکیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں تقریر فرمائی ۔ ایک ایسی تقریر جس نے Social Media کو اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ میں خوش بھی تھا اورکچھ رنجیدہ بھی۔ خوش اس لیے کہ اب اتنی آسانی سے کوئی ہمارے بیانیے میں موجود ان دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر فساد برپا نہیں کرسکتا، جیسے کہ کل تک یہ ممکن تھا۔ رنجیدہ اس لیے ہوں کیپٹن صفدر جن کی شریک حیات مریم ، بے نظیر بھٹو سے مقابلہ کرنے کا خیال کرتی ہیں۔

کیپٹن(ر) صفدر سابق وزیراعظم کے داماد بھی ہیں جو آج کل اپنے آپ میں جمہوریت کی جنگ کے دعویدار ہیں اور یہ دعوی بھی وہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو آزاد مسلم لیگ نے کروایا۔ یعنی کہ وہ جناح کا تسلسل بھی ہیں ، بلکہ یوں کہیئے کہ وہ ضیاء الحق کا تسلسل ہیں۔ آج کل ضیاء الحق کی ٹوپی اپنے داماد کے سر اور خود جناح کا لبادہ اوڑھتے ہیں ، جب کہ بھائی میاں شہبازشریف ، پناما ٹوپی پہنتے ہیں اور شرٹ فیڈل کاسترو جیسی۔ شاید ان ہی رنگوں کو دیکھ کرکسی نے نیا لفظ ایجاد کیا تھا ...

عجیب چیز ہوتی ہے یہ ''اقتدار'' اس کے سوداگر کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔کیسے ممکن ہے کہ کیپٹن صفدر نے یہ بات ایوان میں مسلم لیگی قیادت کی مرضی کے بغیر کی ہو اور اگر یہ بات کیپٹن صفدر نے ان کی رضامندی سے کہی ہے تو اس کے پیچھے اس کا کیا مقصد تھا؟ بھلا کیا وجہ تھی کہ میاں صاحب جناح بنتے بنتے کسی اور راہ پر چل نکلے ،کس نے انھیں مجبورکیا؟ کیپٹن صفدر ایک کٹھ پتلی ہیں جس کی ڈوری کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔

پاکستان کی سیاست میں کچھ خصوصیات ایسی پائی جاتی ہیں کہ جیسے جب دشمن کو ایک جھٹکے میں ہی مات دینی ہو کہ وہ فوراَ گھٹنے ٹیک دے۔ ہم بھی وہ ہی کام کر رہے ہیں جو باچا خان یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلبہ کے ایک گروہ نے مشال کے ساتھ کیا تھا اور اگر تاریخ میں جھانکیں تو سقراط کے ساتھ ان کی اشرافیہ نے کیا۔ صرف سقراط ہی کیوں یہ وہ ہی عمل ہے جو قدیم رومن ایمپائر نے یسوع کے ساتھ کیا تبھی توکسی شاعر نے یہ کہا تھا کہ

تم نے سولی پر لٹکتے ہوئے جسے دیکھا ہوگا

وقت آئے گا وہ ہی شخص مسیحا ہوگا

ہماری تاریخ میں ایک انوکھا کردار ''مشال'' اس کا قاتل کوئی ایک فرد یا گروہ نہیں تھا، ایک سوچ تھی، ایک بیانیہ تھا۔ مشال کا قتل ہونا وہ ہی تسلسل ہے جس کا ہم شکار ہوئے پاکستان کے بننے کے بعد ۔ لاہور میں پہلا مارشل لاء ، 50 کی دہائی میں اسی کے پس منظر میں لگا تھا جس پرکمیشن بھی بنا تھا اور جس کی رپورٹ جسٹس منیر نے ترتیب دی تھی۔ جناح کو یہ سب معلوم تھا ، انھوں نے پاکستان بننے کے بعد 11 اگست کو ایک واضع پالیسی ترتیب دی اور کہا

" You may belong to any Religion, Cast, or Creat That is nothing to do with business of State

آج جوکچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں یعنی کیپٹن صفدرکی لب کشائی کسی کے اشاروں پر ۔

ایک ٹی وی ٹاک شو پر سستی شہرت پانے کی ہوس میں، فتوی صادرکروانا اور پلک جھپکتے میرپورخاص میں چند معصوم لوگوں کا قتل ہونا ، پھر یہ سلسلہ اس طرح چلا کہ امام بارگاہوں پر حملے ، یہ کافر ، وہ کافر، ہم نے مذہب کو اپنے اپنے مفادات کے لیے یوں استعمال کیا کہ جیسے جہاد ریاست کا فعل نہ ہو جسے چاہے ، جب چاہے اور جو چاہے جہاد کا اعلان کرسکتا ہے۔

کچھ دن پہلے ہی احسن اقبال نے اسی فلور آف دی ہاؤس پر ایک تقریرکی تھی کہ جہاد کسی کا ذاتی فعل نہیں ، جہاد کی دعوت اور اعلان صرف ریاست کا حق ہے یعنی ایسا کہیئے کہ کیپٹن صفدر نے ، احسن اقبال صاحب کی تقریر کی نفی کردی۔ کیپٹن صفدر بیچارے کریں توکیا کریں۔ ختم نبوت کے حوالے سے جو غلطی سرزد ہوئی،ان کے مخالفین نے اس غلطی کے لیے ان کو دیوار سے لگا دیا تو وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتے تھے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ دین سے ان کی تابعداری قابل ستائش ہے، مگر سوشل میڈیا نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔

سوشل میڈیا کے ایکٹو ہونے سے پہلے کے زمانوں تک اس طرح کی غلطیاں ہوتی تھیں اورخاموشی بھی رہتی تھی، ایک ڈر سا طاری ہو جاتا تھا، جسے چاہے کوئی کافرکہہ دے سب کو اجازت تھی کہ مسیحوں کی بستی میں آگ لگا دو ۔ مندر اور گردواروں کو بھسم کروا دو۔ آج یہ ہنگامہ ڈھانے کی دعوت دی جا رہی ہے مگر سوشل میڈیا کے ایکٹو ہونے کی وجہ سے اور جس طرح لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا مجھے یوں لگا کہ جیسے جاگ اٹھا ہے پاکستان، جاگ اٹھا ہے انسان، جاگ اٹھا ہے جناح کا پاکستان، مجھے یوں لگا مشال کی قربانی ضایع نہیں گئی اب تہمتوں کے ڈر سے ہم رکنے والے نہیں۔

اچھا ہوا کیپٹن صفدر نے ہمیں بتا دیا ہم جو سمجھتے تھے کہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے بیچ میں کوئی جنگ ہے اور شاید کہیں یہ گماں کرتے تھے کہ میاں صاحب کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جناح اور ضیاء میں ابھی ایک دنگل باقی ہے ۔ یہ جنگ حق و باطل کی جنگ نہیں جو میاں صاحب لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ اقتدارکی جنگ ہے جس کا اشارہ ہمیں کیپٹن صفدرکی قومی اسمبلی کی تقریر سے ملتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں