وہی ہوا جس کا ڈر تھا، فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن میں تیسرے فریق کی مداخلت پر اس کی رکنیت معطل کر ہی دی۔
فٹ بال کی عالمی تنظیم کے مطابق پی ایف ایف کے دفاتر اور اکاؤنٹس عدالت کی جانب سے تعینات کردہ ایڈمنسٹریٹر کے کنٹرول میں ہیں جو کہ فیفا قوانین کی خلاف ورزی ہے، فیفا کے مطابق جب تک پی ایف ایف کا کنٹرول تیسرے فریق کی جانب سے تعینات ایڈمنسٹریٹر کے پاس رہیں گے اس وقت تک پی ایف ایف پر معطلی برقرار رہے گی، حکمنامہ جاری ہونے کے بعد نہ صرف ٹیمیں کسی بھی عالمی مقابلے میں حصہ لینے کی اہل نہیں ہوں گی بلکہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو بھی حاصل فوائدمعطل رہیں گے۔
ملکی کھیلوں کے حالات تو پہلے ہی تنزلی کا شکار تھے کہ اوپر سے یہ بری خبر آ گئی، تاریخ شاہد ہے کہ زمانہ قدیم سے اقوام عالم کھیلوں سمیت مختلف ذرائع سے دنیا کی دیگر اقوام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنے کے لئے کاوشیں کرتی رہی ہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ کھیل باقاعدہ سرگرمیوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے، کھیلوں کی عالمی تنظیمیں بننے لگیں جنہوں نے رفتہ رفتہ اپنے قواعدو ضوابط ترتیب دینے شروع کئے اور بالآخر موجودہ انتہائی منظم شکل اختیار کر لی اورکھیل رفتہ رفتہ اس قدر اہمیت اختیار کر گئے کہ عالمی سطح پر انہیں اقوام کی عمومی جسمانی صحت اور کارکردگی کا معیار سمجھا جانے لگا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کھیلوں کے ذریعے اپنی ثقافت کو بھی دنیا بھر کے لوگوں تک مثبت انداز میں پہنچا یا جاتا ہے۔ اس ضمن میں فٹ بال ایک خصوصی حیثیت کا حامل کھیل بن چکا ہے اور دنیا بھر کے مقبول ترین کھیل میں ممتاز مقام رکھنے والی اقوام اپنی نمایاں عالمی رینکنگ کو اپنے نوجوانوں میں صحتمند تحریک کے مثبت جذبات پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس سب کیلئے ان ممالک کی حکومتیں کھیلوں کو چلانے والی قومی ایسوسی ایشنز کو مکمل مدد فراہم کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے.
افسوس صد افسوس ہم درخت کی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے ہی مسلسل کاٹے جا رہے ہیں، فٹ بال کے نگراں عالمی ادارے فیفا نے جولائی کے مہینے میں پاکستانی فٹ بال حکام کو آخری بار متنبہ کیا تھا کہ وہ فٹ بال کے معاملات 31جولائی تک احسن انداز میں حل کر لیں، بصورت دیگر پاکستان کو انٹرنیشنل پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں فٹ بال فیڈریشن کے 2متحارب گروپوں نے فیفا کے احکامات پر کان نہ دھرے اور نتیجہ فٹ بال پر معطلی کی صورت میں سامنے آیا۔
فٹ بال پاکستان کا وہ کھیل ہے جو پہلے ہی سسک سسک کر دم توڑ رہا تھا، فیفا کی جاری کردہ ورلڈ فٹ بال رینکنگ کے مطابق دنیا میں فٹ بال کھیلنے والے 211ممالک میں پاکستان کی رینکنگ مزید تنزلی کا شکار ہوتے ہوئے 201پر جا پہنچی ہے جو 20کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل پاکستانی قوم کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہے۔ خصوصاً کھلاڑیوں کے لئے یہ خبرایک اور دھچکے سے کم نہیں ہے جو پہلے ہی گزشتہ دو سال سے حکومتی مداخلت سے پیدا شدہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی گومگو کیفیت کے نتیجے میں پاکستان میں فٹ بال سرگرمیوں کی بندش کی بناء پر انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار تھے جبکہ ہمارا روایتی حریف اور ہمسایہ ملک بھارت اس دوران اپنی بہتر پالیسیوں اور حکومتی سپورٹ کی بناء پر ترقی کرتا ہوا فیفا رینکنگ میں 101ویں پوزیشن پر جا پہنچا ہے۔
پاکستان میں فٹ بال کے لاکھوں چاہنے والے جاننا چاہتے ہیں کہ اس افسوسناک صورتحال کی وجوہات کیا ہیں ۔ آخر گزشتہ 2سال میں ایسا کیا ہوا جس نے پاکستان کی عالمی فٹ بال رینکنگ کو اس انتہائی درجہ تک گرا دیا ہے۔ 2015 میں پاکستان کی فیفا عالمی رینکنگ اب سے 31درجے بلند یعنی 170درجہ پر تھی ۔گو کہ یہ بھی قابل فخر نہ تھی مگر فٹ بال کے تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ اس بات کا غالب امکان تھا کہ پاکستان جلد ہی اچھی رینکنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
فیفا کی جانب سے جولائی میں کیے گئے ایک اور سروے کے مطابق دنیا بھر میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 26 کروڑ 50 لاکھ ہے۔پاکستان میں بھی فٹ بال کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں اس کھیل کے ساتھ کیا ناانصافیاں ہورہی ہیں شاید یورپ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔2006 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق اْس وقت پاکستان میں 29 لاکھ سے زیادہ لوگ فٹ بال کھیلتے تھے۔
اس بات کو گیارہ سال گزر گئے ہیں، یقینی طور پر اب یہ تعداد دگنی نہیں ہوئی تو اس میں کم از کم اس دس پندرہ لاکھ کا اضافہ تو ضرور ہوا ہوگا۔ یعنی اس وقت پاکستان میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 40 سے لاکھ سے زیادہ ہونی چاہیے۔جہاں فیفا کے اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فٹ بال دنیا میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے تو وہیں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے اعداد و شماربھی بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ہر کونے میں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔
اس میں ایک خاص بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی پسماندہ اور غریب علاقے ہیں وہاں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد کرکٹ کھیلنے والوں سے زیادہ ہے، خاص طور پر بلوچستان ، فاٹا، پنجاب ، سندھ اور کے پی کے کے وہ دیہات، جہاں غریب بچے تھوڑے سے پیسوں میں ایک فٹ بال خرید کر اس سے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔ہمارے ملک میں اس وقت فٹ بال کے رجسٹرڈ کلبز کی تعداد 2600 ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عالمی چیمپئن جرمنی میں بھی فٹ بال کے اتنے ہی رجسٹرڈ کلبز ہیں۔
دلچسپ حقائق یہ ہیں کہ اگست 2014میں پاکستان کی قومی ٹیم نے اپنے سے کئی درجہ بلند رینکنگ کے حامل ہمسایہ ملک بھارت کو اس ہی کی سرزمین پر 2میچز کی سیریز میں شکست دے کر بھارت میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سربلند کیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان کی قومی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر اپنے سے کئی درجہ بلند افغانستان کی قومی ٹیم کو 2015میں لاہور میں شکست سے دو چار کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر دنیا کو بتا دیا تھا کہ ہم فٹ بال کی دنیا میں جلد ایک باعزت مقام حاصل کر لیں گے۔
مگر بدقسمتی سے 2015جون میں حکومتی سرپرستی میں قائم گروہ نے پاکستان میں فٹ بال کنٹرول کرنے والی اتھارٹی پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے ہیڈ آفس واقع لاہور پر بندوق کے زور پر قبضہ کر لیا، بعد ازاں معزز لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے حکم پر فٹ بال کے معاملات چلانے کے لئے لاہور ہائیکورٹ کے ہی ایک ریٹائرڈ جج جسٹس اسد منیر کو بحیثیت ایڈمنسٹریٹر پی ایف ایف مقرر کر دیا۔
فٹ بال کے ساتھ آخر ہوا کیا؟افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری ٹیم نے کبھی بھی عالمی سطح پر کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس پر فخر کیا جاسکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فٹ بال کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا ہے، اس کھیل کو کبھی بھی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی لیکن اب تو حد ہو چکی ہے۔سوا دو سال کا عرصہ ہونے کو ہے ہمارے ملک میں فٹ بال قریباً منجمند ہوکر رہ گیا ہے، اس عرصے میں ہماری کسی بھی سطح کی ٹیم نے عالمی سطح پر کوئی میچ نہیں کھیلا ہے۔ ان میں مردو خواتین دونوں ٹیمیں شامل ہیں۔
کبھی ہماری ٹیم عالمی رینکنگ میں آگے بڑھ رہی تھی مگر اب یہ ان ملکوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے جہاں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہو گی۔فٹ بال اس نہج پر اس لیے پہنچا ہے کہ بعض سیاسی لوگوں کو پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا کنٹرول چاہیے۔ پی ایف ایف کا کنٹرول کیوں چاہیے؟ کیوں کہ اس تنظیم کے پاس کافی پیسہ ہے جو اسے فیفا اور ایشین فٹ بال کنفیڈریشن دیتی ہے۔
ایک طرف سیاسی رہنما فیصل صالح حیات کا گروپ ہے تو دوسری طرف موجودہ حکومت کے حمایتی لوگ، ہر کوئی اپنی ضد پر ڈٹا ہوا ہے، کوئی بھی کھلاڑیوں کے مفاد میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، چونکہ یہ مسئلہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر بحث ہے اس لیے حکومت کی پشت پناہی والے لوگ عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر ڈٹے ہوئے ہیں۔اقتدار کے حصول کے لئے دھینگا مشتی میں شریک شاید درجن بھر سیاسی لوگوں کو تو اس پابندی سے کوئی فرق نہ پڑے لیکن بستر مرگ پر پڑے فٹ بال کے پسماندگان میں 40 لاکھ کھلاڑیوں کا نام ضرور آ ئے گا۔
فیفا کی طرف سے معطلی کے بعد بھی فٹ بال کے ارباب اختیار نے کچھ نہیں سیکھا، دونوں گروپس ایک دوسرے کو فٹ بال کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، فیصل صالح حیات کا کہنا ہے کہ 2015 میں پی ایف ایف کے انتخاب میں میں صدر منتخب ہوا جو فیفا کے قوانین کے مطابق ہوا۔ لیکن مخالفین اس معاملے کو لاہور ہائی کورٹ میں لے گئے جس نے پی ایف ایف میں ایک سابق جج کو ایڈمنسٹریٹر لگا دیا، یہ فیفا قوانین کی صریحاً خلاف ورزی تھی، فیصل صالح حیات کے مطابق اس کے بعد فیفا نے انھیں خط لکھ کر بتایا کہ اگر یہ ایڈمنسٹریٹر ہٹایا نہیں گیا تو پاکستان کی رکنیت معطل کر دی جائے گی۔
فیصل صالح حیات کا کہنا تھا اگلے سال فیفا کے عالمی کپ کی ٹرافی کے ٹور میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا لیکن اب اس فیصلے سے وہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا ہے،پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے سابق جنرل سیکرٹری حافظ سلمان بٹ کے مطابق فیفا نے پاکستان پرنہیں بلکہ پی ایف ایف کے سابق صدر فیصل صالح حیات پرپابندی عائدکی ہے۔
فیصل صالح حیات کوفیفاکی طرف سے لاکھوں روپے کی گرانٹ موصول ہوتی تھی،ان کے مطابق 2015 میں ہمارے پاس 17جبکہ فیصل صالح حیات کے پاس 7ووٹ تھے جس پرانہوں نے لاہورکی بجائے شانگلہ گلی جا کر الیکشن کروا دیئے حالانکہ لاہورہائیکورٹ نے اس کے خلاف حکم امتناعی جاری کیاتھا، سلمان بٹ نے الزام عائد کیا کہ ان کے7گول پراجیکٹس میں سے صرف ایک منصوبہ مکمل ہوا اور باقی کے منصوبوں سے یہ ٹھیکیداروں سے کمیشن کھاتے رہے، فیفاورلڈ کپ کی ٹکٹیں انہوں نے امریکہ میں فروخت کیں۔
فیصل صالح سالانہ 50ہزار ڈالر تنخواہ لے رہے ہیں اسی لیئے وہ یہ سیٹ نہیں چھوڑ رہے، فیفا دونوں پارٹیوں کوبلاکرفیصلہ کرے تاکہ پاکستان میں فٹ بال کے کھیل کا آغاز ہو سکے۔ان بیانات سے بظاہر لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی مسائل کی گھتیاں سلجھتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہیں، اگر جا کر بھی حالات جوں کے توں رہے تو وہ دن دور نہیں جب فٹ بال کا کھیل ماضی کا حصہ بن جائے گا اور بہتر مستقبل نہ ہونے کے باوجود اس کھیل سے جڑے رہنے والے کھلاڑی بھی ایک ایک کر کے اس کھیل کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیں گے۔