زمین اور کمین

بس ایک بار ہی لکھنے کی سکت رہ گئی ہے اب تبدیلی کا حوصلہ نہیں ہے۔



زمین اور کمین دونوں کا پتا چل جاتا ہے مگر دیر میں ! زمین کا پتا بیج ضایع ہونے کے بعد چلتا ہے اور کمین کا مہربانی ضایع ہونے کے بعد۔ میری اس بات کو آپ جب اور جہاں چاہیں آزما کر دیکھ لیں۔ یوں تو کہا جاتا ہے کہ اب زمین کا ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے اور معلوم ہوسکتا ہے کہ وہاں کچھ پیدا ہونے کا امکان ہے یا نہیں اور شاید یہ کے کمینگی سے بچا جا سکتا ہے۔

مگر یہ دونوں کام دوسری بار میں ہوسکتے ہیں اور یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ گزارش قوموں تک پر درست ثابت ہوچکی ہے۔ سعید غنی کی کامیابی نے کیا ثابت کیا کہ قوم نے دھوکہ کھالیا اور کہہ سکتے ہیں حقائق کا پتا نہیں کہ شاید لوگوں کا رحجان تبدیل ہوا ہے، مگر پیپلز پارٹی حسب سابق رویے کا مظاہرہ کرے گی جو وزیر اعلیٰ کے رویے سے ظاہر ہے تو پھر یہ Change برقرار نہیں رہ سکے گی۔

یہ اس صوبے کی بدقسمتی ہے کہ یہ ابھی تک کسی نہ کسی قسم کے تعصب سے نکل نہیں سکا۔ ایک طرف اگر محرومی کا رونا تھا، ہے تو دوسری طرف بھی کچھ اچھا رویہ نہیں ہے اور ہر چیز پر قابض ہونے اور کچھ نہ دینے کا مظاہرہ کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے۔لگتا ہے کہ چار دھڑوں میں بٹ جانے سے دلوں کو دکھ ہوا ہے اور اس کا اظہار حلقہ 114 میں کر کے لوگوں نے اپنے رویے کا مظاہرہ کردیا ہے جو خاصا الارمنگ ہے، ہوسکتا ہے کہ دھاندلی بھی ہوئی ہو جس کا پاکستان میں ہمیشہ امکان رہتا ہے مگر اتنی بھی نہیں ہوگی اور اعتراض کرنے والوں کا سابقہ کردار بھی واضح ہے۔

بات ہونی چاہیے حقیقت پسندانہ اب One Man Show ختم ہوچکا۔ شروع میں جو لکھا ہے اس آئینے میں اسے پرکھ لیں بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی اور لندن فیکٹر کو زندہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے وزیر داخلہ نے اس میں Vital رول ادا کیا ورنہ ہونے کو کیا نہیں ہوتا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ تمام تر چیزوں سے حکومت ناواقف تھی۔

دو چیزوں سے حکومت ناواقف لگتی ہے کیونکہ یہاں بھی One Man Show ہے اور وہ دوسری چیز ''پانامہ'' ہے ''ہمیں بتاؤ تو سہی ہمارا قصور کیا ہے'' یہ سارے خاندان کا تکیہ کلام ہے:

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

بس ایک بار ہی لکھنے کی سکت رہ گئی ہے اب تبدیلی کا حوصلہ نہیں ہے۔ اب وزیر داخلہ کو اگر اب تک وہی ہیں تو دونوں One Manشو کرنیوالوں کا موازنہ کرلینا چاہیے۔ جندال، سوری، کلبھوشن، سرحدی خلاف ورزیوں اور پاکستانی شہریوں اور جوانوں کی شہادت پر خاموشی۔ پانامہ منی لانڈرنگ اور ہٹ دھرمی، روز ٹی وی پر حاضری وزیر اعظم کی فیتے کاٹتے ہوئے اور برا کہتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں کو۔یاد آیا کچھ یہی سب کچھ تو وہ بھی کرتے تھے حالانکہ وہ وزیر اعظم تو کیا وزیر اعلیٰ بھی نہیں تھے مگر سب کچھ تھے۔

آپ نے تو عوام کے نام نہاد ووٹ بذریعہ RO's بقول حزب اختلاف جو کراچی کے حالیہ الیکشن میں بھی نظر آیا بیلٹ بکس ادھر ادھر گھومتے رہے۔ کہاں بھرے گئے پتا نہیں چل سکا تاحال۔تو اب اس شخصیت کے بارے میں بھی وہی کچھ کہیں جو آپ پہلے کے بارے میں کہتے تھے۔ نہیں کہیں گے چاہے آپ کتنے ہی صاحب کردار ہوں کرپشن فری ہیں مگر کرپشن کے ساتھ ہیں تو مجرم کے ساتھ والا یا اس کی مخالفت کرنیوالا بھی مجرم کا مددگار کہلاتا ہے اور یوں جرم کا شریک بن جاتا ہے یہ سب کچھ آپ کہہ چکے ہیں ٹی وی پر ''سہولت کار'' کہا تھا نا آپ نے؟

ہم نے اس One Man کے مخالف نہ حمایتی اور یہی اصول پہلے والے کے ساتھ بھی رکھا ہمیشہ کیونکہ ہم نے پاکستان میں لوگوں کو لوٹ مار کرتے 70 سال سے دیکھا ہے اور کوئی بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ بے ایمانی کسی پیمانے کی ہو بے ایمانی ہی ہوتی ہے اور دوسرے کا عمل بے ایمانی اور اپنا مصلحت نہیں کہا جاسکتا۔

ان کے علاوہ بھی پردہ نشین ہیں جو دہشتگردی کے اسپانسر ہیں شروع سے اور جن کے ساتھ سیاستدان بھی ہیں۔ ''رند و شیخ'' ایک پلیٹ میں کھا رہے ہیں ایک زمانے سے اور کیا پتا اس قوم کا کہ یہ کھاتے رہیں۔ قوم علاقائی تعصب اور زبان کے حوالے سے پھر ان کو ہی ووٹ دے دے ''جاگ پنجابی جاگ'' یہ نعرہ پھر لگائینگے اور بڑا صوبہ ہے۔ سیٹیں زیادہ ہیں لہٰذا کامیابی ان شرائط اور اس نفرت کے ساتھ مشکل نہیں ہے بیشک علامہ اقبال اور فیض کا تعلق اس صوبے سے ہے، مگر وہاں کی تنگ نظری کا صرف صوبہ سرحد مقابلہ کرسکتا ہے اور یوں وہ ساتھ ہیں اور رہیں گے۔

بلوچستان میں تو لہر پرانی اور اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں کبھی استحصال کے نام پر کبھی حقوق کے نام پر حالانکہ ستر سال سے حکومت ان کی ہی ہے وہاں اکبر بگٹی جیسا وزیر اعلیٰ بھی ان کا ہی تھا مگر عوام کا حال وہاں بھی ویسا ہے۔ زمینوں کو گندا کردیا گیا ہے۔ بچہ نفرت ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور نفرت کرتے کرتے مر جاتا ہے وہاں کی پیداوار سب سے زیادہ نفرت ہے اور اس میں وہ خود جل کر بھسم ہوجاتا ہے اس پرندے کی طرح جس کی خاک سے دوسرا پرندہ پیدا ہوجاتا ہے۔ آخر کار یہ بلوچستان سے ہزارہ برادری کو نکال کر رہیں گے۔ اس میں کس کا ہاتھ ہے سب جانتے ہیں جو پاراچنار میں ہو رہا ہے وہ کوئٹہ میں ہو رہا ہے، مگر یہ یاد رکھیے کہ ظالم کا بھی یوم حساب ہے اور حساب ضرور ہوتا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں مگر آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان ایک عجیب بحران سے گزر رہا ہے۔ باہر کے ملک پاکستان کے دشمن، پاکستان کے حکمران پاکستان کے دشمن، عوام صوبائی، لسانی، فرقہ وارانہ سلسلوں میں ایک دوسرے کے دشمن بغیر سوچے سمجھے چند مفاد پرستوں کے اشاروں پر خون ناحق۔

پاکستان ہمارا وطن ہے ''ہمارا '' کا مطلب ہر پاکستانی۔ اب میزبانی سے ہاتھ اٹھاؤ اور فساد کی جڑکو اس ملک میں واپس کردو، ہم اس دور کے مسلمان ہیں اور اس دور کے مطابق ہی زندگی بسر کرنی ہے۔ ''ووٹ بینک'' کے چکر میں جو دو پارٹیاں یا تین پارٹیاں وہاں کھیل کھیل رہی ہیں ختم کرو۔فوج سمجھ گئی ہے۔ باؤنڈری وال قائم کردی ہے اور مضبوط کررہے ہیں۔ آپ بھی سمجھو ورنہ آپ بھی ایک دن ان دو کی طرح One Man کہلاؤ گے۔ یہ بات بھی بہت رعایت کے ساتھ ہم عرض کر رہے ہیں۔ ورنہ پاکستان بننے کے بعد بھی سرحدی گاندھی اور پھر انجام بھی خود طے کردہ کہ:

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

شاید یہی محبت ہے ادھر کی جو ادھر فساد برپا ہے اور اس میں یہ سب ایک لگتے ہیں تو زمین اورکمین کا پتا چل جاتا ہے مگر جب بیج ضایع ہوجائے اور مہربانی کا نتیجہ ظلم اور دھوکا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں