ایک جشن سے دوسرے جشن تک
باہر نکلے تو ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ جب کوئی اپنا ہم زبان نظر نہ آیا تو شتابی سے گھر کی راہ لی۔
دہشت گردی کے موسم میں محبت کی راگنی اور شعر و ادب کی باتیں۔ پہلے کراچی لٹریچر فیسٹیول نے اپنی بہار دکھائی پھر لاہور نے جھرجھری لی۔ لاہور آرٹ کونسل میں لاہور لٹریچر فیسٹیول نے رنگ جمایا۔ یوں چراغ سے چراغ جلتا ہے اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ سو جشن کے بعد جشن۔ کراچی کے جشن کا اپنا رنگ تھا، لاہور کے جشن نے اپنا رنگ دکھایا۔ دونوں میں فرق تھا تو بس اتنا کہ ایک صد رنگ تھا تو دوسرا یک رنگ۔ مگر جشن کی رنگا رنگی میں اس فرق کا بھی کسی کو پتہ چلا کسی کو نہ چلا۔
اور ہماری غفلت کا یہ عالم کہ لاہور کا جشن گزرا جا رہا تھا اور ہم گھر میں بے خبر بیٹھے تھے ایک یار نے آ کر جھنجھوڑا کہ ارے کچھ بسنت کی بھی خبر ہے تم انعام یافتہ ہو گئے۔ ہم چونکے، ارے کب، کہاں اور کیسے۔ اس عزیز نے بتایا کہ جشن کی اختتامی تقریب کل ہوئی تھی، اس میں انعامات تقسیم ہوئے۔ ایک انعام تمہارے نام کا تھا، تم کہاں تھے۔ اسے ہم اپنی ہی غفلت کہیں گے، منتظمین نے تو ازراہ عنایت اپنے پروگرام میں ہمارا نام ڈال دیا تھا۔ پہلے پوچھنا یا بعد میں دعوت نامہ بھیجنا کیا ضرور تھا۔ جب اگلے دن اس پروگرام کا وقت آن لگا جس میں ہمارا نام پکارا جانا تھا تو ہماری ڈھونڈیا پڑی اور تب ہمیں ایک فون موصول ہوا۔ ادھر سے عذر معذرت، ادھر سے شکوہ و شکایت۔ مگر پروگرام سر پہ کھڑا تھا۔ ہم نے جلدی ہی زقند لگائی اور آرٹ کونسل کے اس وسیع ایوان میں جا دھمکے جو ہال نمبر ایک کہلاتا ہے اور جو سامعین سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ بس اسی سے ہمیں اندازہ ہوا کہ جشن اپنے عروج پر ہے۔
ہال سے باہر نکلے تو مرد و زن، چھوٹے بڑے، گورے سانولے، کوئی گندمی کوئی میدے کی لوئی، اور پری چہرہ لوگ، دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی۔ یہ تو سچ مچ رنگا رنگ میلہ تھا۔ ادب کے نام پر اس شان کا میلہ۔ مگر ہماری آنکھیں اس بیچ کچھ اور تلاش کر رہی تھیں۔ ارے اتنا بھرا ہوا میلہ ہے اور ہمیں اپنا کوئی ہمعصر نظر نہیں آ رہا۔ اردو والوں میں سے کوئی افسانہ نگار، کوئی ناول نگار، کوئی مزاح نگار، کوئی شاعر، کل پرسوں لاہور کے کتنے نگ عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد کراچی میں میلہ لوٹ رہے تھے اور اپنے مداحوں میں گھرے گھرے پھر رہے تھے۔ دونوں کی عید ہو گئی۔ مداحوں کی بھی، ممدوحوں کی بھی۔ شاعر، ناول نگار، مزاح نگار بیشک بیسٹ سیلر ہو۔ مگر ایک ہی وقت میں اپنے گرد مداحوں کا اتنا جھرمٹ کب کب نظر آتا ہے اور مداحوں کو بھی اپنے پسندیدہ ادیب اتنی تعداد میں کہاں اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔ مگر اپنے شہر میں واپس آ کر وہ نظروں سے کہاں اوجھل ہو گئے۔
بڑی مشکل سے ایک دانہ نظر آیا۔ اصغر ندیم سید، اگلے دن بھی جس ادبی پروگرام میں ہمیں طلب کیا گیا تھا اس میں بھی چار میں سے دو غائب تھے۔ نہ عطاء الحق قاسمی نظر آئے نہ تحسین فراقی بس اکیلے اصغر ندیم سید۔ ہم پہنچے تو ایک سے دو ہو گئے مگر اس اکیلے چنے نے اپنی گرما گرمی سے دو کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔
باہر نکلے تو ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ جب کوئی اپنا ہم زبان نظر نہ آیا تو شتابی سے گھر کی راہ لی۔
انصاف شرط ہے۔ ان ادبی میلوں کا آغاز تو جے پور سے ہوا ہے۔ اور جے پور کا میلہ اولاً ہندوستان کے انگریزی لکھنے والوں کے اعزاز ہی میں سجایا گیا تھا۔ مگر بقول ایک عالم لسانیات کے جنوبی ایشیا تو زبانوں کا جنگل ہے۔ اس جنگل میں اکیلی انگریزی کتنے دن اپنا راگ الاپ سکتی تھی۔ جلد ہی ہندی،بنگلہ، تامل تیلگو، کنٹر، مراٹھی نے یلغار کی۔ سو وہ پھر یک لسانی میلہ نہیں رہا۔ کراچی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے برٹش کونسل کے ساتھ مل کر ایسے میلہ کا ڈول ڈالا۔ انھوں نے بھی انگریزی ہی سے آغاز کیا تھا۔ مگر انھیں فوراً ہی عقل آگئی۔ اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں کے ادیب اس میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اب یہ رنگارنگ لسانی میلہ ہے اور اب کے تو رقص کے واسطے سے یہاں ہندی بولی نے بھی اپنی جھلک دکھائی۔
لاہور میں ابھی اس تقریب کی بسم اللہ ہوئی ہے۔ ابھی اس کے منتظمین گلوبل زباں کی چکا چوند میں ہیں مگر لاہور کی ادبی روایات کی بھی تو اپنی ایک چکا چوند ہے۔ اقبال، اختر شیرانی، فیض، راشد، میرا جی، منٹو اور وہ جو اس شہر سے چلے گئے مگر ان کے افسانے کا سکہ تو یہاں اب تک چلتا ہے۔ جیسے کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور ہاں پطرس بخاری اور ڈاکٹر تاثیر۔ مگر خالی نام گنانے میں کیا رکھا ہے۔ یہ مضمون لمبا ہے۔ کہنے کا مطلب بس اتنا ہے کہ وہ تو صحیح ہے کہ اب ہم نام خدا گلوبل ولیج کے باسی ہیں اور جنوبی ایشیا والوں کو اس سلسلہ میں ایک بڑی سہولت بھی ہے کہ اس ولیج کی غالب زبان سے ان کی آشنائی اپنے نو آبادیاتی دور سے چلی آتی ہے۔
اسی آشنائی کے عمل میں کسی نہ کسی مرحلے میں یہ وقت آنا ہی تھا کہ کاروباری معاملات سے گزر کر یہ زبان ہمارے لیے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بن جائے۔ یہ وقت ہندوستان میں پہلے ہی آ گیا تھا۔ اب پاکستان بھی اس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ چشم ما روشن دل ما شاد۔
ویسے تخلیقی ذہن کو وسعت کی تلاش تو رہتی ہے۔ اقبال نے وسعت کی تلاش میں اردو دائرے سے نکل کر فارسی میں گل پھول کھلانے شروع کر دیے۔ جو ہماری تہذیبی تاریخ میں فارسی کے آخری ایام تھے۔ اقبال نے بہت عزت کے ساتھ فارسی کو اس کے اختتام تک پہنچایا۔ اقبال کی فارسی شاعری ہماری تہذیبی ادبی تاریخ میں فارسی کا حرف آخر ہے۔ اور کتنا شاندار حرف آخر ہے۔
اب ہمارے نئے تخلیقی ذہنوں کو وسعت کی تلاش ہے اور بین الاقوامی ادبی اقلیم تک رسائی حاصل کرنے کی دھن ہے۔ یہ امکانات انھیں انگریزی اظہار میں نظر آ رہے ہیں۔ دیسی ادبی روایات سے وابستہ لکھنے والے اندیشوں میں مبتلا ہو جائیں ایسے اندیشے ادھر ہندوستان میں پیدا ہو چکے ہیں۔ ان کی تفصیل اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں ہے۔ ایسے کراچی فیسٹیول پروگرام مرتب کرنے والوں نے اس پہلو کو جلدی بھانپ لیا۔ سو وہاں ہم نے یہ فضا دیکھی کہ عیسیٰ بدین خود موسی بدین خود انگریزی لکھنے والوں کی قدر دانی تو ہونی ہی ہے۔ یہ باب ہمارے یہاں نیا نیا کھلا ہے۔ اس کی اپنی اپنی چکا چوند ہے۔ مگر دوسرے لکھنے والے بھی یہاں اپنے مداحوں اور قدر دانوں میں گھرے ہوئے خوش خوش نظر آ رہے تھے۔