معاشی نظام اور اشرافیہ
پاکستان کی بارہ کروڑ آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہے
بہت سلیس اور سادہ حقیقت ہے یا تو خرچے کم کرو اور اگر ممکن نہیں توآمدنی بڑھاؤ اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو، قرضے لے کر خرچے پورے کرو۔ یہ ماجرہ کسی گھرکا نہیں بلکہ اس ملک خداداد کا ہے۔ ہم نے نہ خرچے کم کیے نہ ہی آمدنی میں اضافہ کیا، باقی رہا قرضے لینے کا نسخہ پے در پے قرضے لیتے گئے اور مقروض ہوتے گئے اور قصہ پہنچا وہاں، جہاں سے نیشنل سیکیورٹی کے سوال اٹھتے ہیں۔ دنیا کے چند منفی قسم کے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ مجموعی پیداوارکے تناسب سے محصولات کی وصولی جس کو انگریزی میں Tax to GDP Rate کہتے ہیں جو کہ ہمارا 10.5%ہے، جب کہ ہندوستان کا 17.7% ہے۔ لگ بھگ تین ہزار ارب روپے کی محصولات، پاکستان FBR کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ پاکستان کی کل مجموعی پیداوار لگ بھگ بتیس ہزار ارب روپے ہوگی۔
ہمارے قرضہ جات کی ادائیگی ملکی و بیرونی 2015ء میں جو بارہ سو ارب تھی، اب بڑھ کر ساڑھے سولہ سو ارب ہوگئی ہے۔ ہمارے مجموعی قرضے 2015ء میں چار ہزار دو سو ارب تھے، وہ اب بڑھ کر ساڑھے چھ ہزار ارب روپے ہوگئے ہیں۔ ہمارے مجموعی قرضے، مجموعی پیداوارکے تناسب سے بقول IMF 69% ہوگئے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب یہ لوگ اقتدار میں آئے تھے اس وقت مجموعی قرضے، مجموعی پیداوار کے تناسب سے 60% تھے۔ پاکستانی نوٹ تو یہ لوگ چھاپ سکتے ہیں، مگر ڈالر نہیں۔ میاں نواز شریف کے لیے یہ نوید ایک معجزے سے کم نہ تھی کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں لگ بھگ سو فیصد گرگئیں جس سے تقریبا ہم نے تین سے چار ارب ڈالر کی سالانہ بچت کی۔ ڈالرکمانے کے لیے ہمارے دو بڑے اہم ذریعے ہیں،ایک بر آمدات جو 2015-16ء میں چوبیس ارب ڈالر تھیں اب بیس ارب ڈالر تک گر چکی ہیںاور غیر ملکی تحصیلات کی (Foreign Remittances) کی مد میں انیس سے بیس ارب ڈالر موصول ہوتے ہیں، جب کہ درآمدات پر ہمارے اخراجات پچپن ارب ڈالرکو پہنچ چکے ہیں۔
خدا کا شکر کیجیے کہ ورلڈ بینک نے اپنے اعداد وشمار درست کیے اور وہ ہی اندازہ لگایا کہ ڈالر Balance of Payment میں پاکستان کو رواں مالی سال میں لگ بھگ سترہ ارب ڈالر کا خسارہ ہوگا، جوکسی بھی لحاظ سے پاکستان کے لیے صحتمند نہیں۔ پچھلے سے پچھلے سال یہ خسارہ پانچ ارب ڈالر تھااور پچھلے سال یہ بڑھ کر بارہ ارب ڈالر تک پہنچا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سترہ ، اٹھارہ ارب ڈالرکہاں سے آئیں گے؟ زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر سے کم ہوکر چودہ ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ CPEC سے جتنی سرمایہ کاری (Dollar Investment ہونی تھی اتنی نہیں ہوسکی۔ بجلی کا پیدا ہونا، صارفین تک پہنچانا اس پورے عمل کے اندر بجائے بہتری کہ Bad governance شدید ہو چکی ہے۔ PIA، اسٹیل مل وغیرہ جیسے ادارے بھی ہماری آمدنی پر بوجھ ہیں۔ ہمارے ملک کی آدھی آمدنی ہر سال قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔
یہ تو تھی پاکستان کی وہ معیشیت جو Documented ہے اور اتنی ہی بڑی شاید پاکستان کی Parallel Economy ہے، جوکہ ٹیکسز سے مستثنیٰ ہے۔ پاکستان میں ٹیکسز کی ادائیگی کون کرتا ہے؟ پاکستان کے غریب عوام اور پاکستان میں ٹیکس چوری کون کرتا ہے پاکستان کے امیر عوام۔
یہ جو پاکستان کی معاشی شکل بنی ہے یہ پاکستان کے شرفاؤں کی دی ہوئی ترتیب ہے۔ کل ٹیکس کا نوے فیصد Indirect ہے، دنیا کا واحد ملک اس حوالے سے شاید صرف پاکستان ہی ہوگا۔ صحیح فرمایا تھا DG ISPR نے کہ Direct tax کی ساٹھ فیصد ادائیگی بھی صرف ملازمت پیشہ افراد کرتے ہیں۔ ٹیکسز کے مد میں محصولات نہیں بڑھ رہے، جنرل مشرف کا دور ہو، زرداری کا یا نواز شریف کا۔ اور اگر ٹیکسز کی محصولات میں اضافہ ہوا بھی ہے تو Indirect Taxes میں ہوا ہے اور جس کا خمیازہ ہمیں افراط زر (Inflation) کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ستر سال کے بعد ایک نیا معاشی بحران پاکستان کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ یہ بحران پاکستان کو اچھی کروٹ دے گا یا پھر بری۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کی شرح نمو بڑے سالوں بعد پانچ فیصد سے بڑھی اور اس سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ نے مثبت نتائج دیے اور خصو صا کراچی میں امن قائم ہوا۔
اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نوجوان نسل کو روزگارکے مواقعے فراہم کیے جائیں ۔ پاکستان کی بارہ کروڑ آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انتہائی بد نصیبی ہے کہ میاں صاحب کے لیے معیشت کو مستحکم کرنا صرف بلیو ٹرین، اورنج ٹرین، اور سڑکوں کے جال بچھانا ہے۔ ہمارے جیسے ملک کے لیے شرح نمو ، مجموعی پیداوار دیگر Macro Economy Indicators ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ملک کی ترقی کو Development Indicators کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جس کو Human Development Index (HDI)کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ انڈیکیئرز جن کے ذریعے ملک کے نچلے طبقے کی محرومیوں کو دورکیا جاسکے۔
سندھ میں Malnourishment ، ہیپاٹائٹس بی، سی، آلودہ پانی سے پیدا کردہ بیماریاں عوام کا مقدر بن چکی ہیں۔ امیر اور غریب کے بیچ میں جو تفریق اس وقت موجود ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔ سندھ کے اندر جاگیرداری نظام نے اپنی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط کر لی ہیں جو کہیں سے بھی ٹوٹتی ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں ۔ تصویرکا ایک رخ یہ ہے کہ یہ لوگ چالیس سال سے پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں ، جب کہ دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ لوگ پیپلز پارٹی کو نہیں وڈیروں کو ووٹ دے رہے ہیں ۔ اس حقیقت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک سندھ کے اندر وہی پسماندہ سماج اور اس کے طریقہ کار رائج ہیں ۔ وہ ہی طریقہ پیداوار اور وہ ہی ذرایع پیداوار ۔ ہوسکتا ہے کہ CPEC کے آنے سے یہ جمود ٹوٹے ۔ ایک نیا طریقہ کار ، نئے ذرایع پیداوار اور نئے طریقہ پیداوار وجود میں آئیں۔
یعنی یہ کہ اس وقت پاکستان کو اپنے مجموعی محصولات کو حاصل کرنے میں دشواری ہے اور اس کے اندر Indirect Taxes آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں جب کہ direct Taxes نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صحیح کہا تھا COAS نے کے پاکستان کے Tax Base کو وسیع کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشیت صرف اسحٰق ڈار کی صوابدید نہیں بلکہ ہم سب کواس بحث میں الجھنا ہوگا ۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ پاکستان کی اشرافیہ ہے ۔ یہ سب گماشتہ سرمایہ دار اور وڈیرے ، یہ تمام لوگ ملک کے اوپر Liability ہیں ۔ اقتدار میں سب سے زیادہ ان ہی کے مفادات کی حفاظت کی جاتی ہے اور یہی طبقہ ہر دورکی ضرورت ہے وہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت اور پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس وقت ٹیکس چوروں کو Tax Net میں لانا ہے۔ معیشیت کو اور Document کرنا ہے اور HDI کو اپنی معیشیت کو پرکھنے کا اہم پیمانہ بنانا ہے۔