استعماریت اور پاکستان نواں حصہ
عیسیٰ نبی ؑکی خوشنودی حاصل کرنا انسانی خون کی ندیاں بہانے سے بھلا کیوں کر ممکن بن سکتی ہیں۔
تفاخر کے پیراہن: اولاد ابراہیم ؑکی تاریخ کو بنی اسرائیل کے تسلسل سے عربی زبان کی لاریب کتاب میں محفوظ کیا گیا جس کے بعد کی لگ بھگ ساڑھے تیرہ صدیوں کے عرصے پر مشتمل تاریخ ، عالم انسانیت کے مختلف گروہوں کے ارتقائی مراحل میں حضرت انسان کے یکساں مادہ پرستانہ اعمال اور ان کے حتمی نتائج فہم وفراست کے تمام تر پیمانوں پر ان کے ہر ایک حرف کی سچائی کا بیان معلوم ہونے لگے ہیں ، تو گوہر دانش رکھنے والے تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ ضروری بن جاتا ہے کہ وہ ابراہیم ؑ سے قبل کی انسانی تاریخ کو بھی تحقیقات وتعلیمات ابراہیم ؑ(یعنی جدید اصطلاح میں تحقیقات نظریہ پاکستان )کی روشنی میں ملاحظہ کرے اور ابراہیمؑ کے پروردگارکی قدرت وجبروت کا عقلی پیمانوں پر مشاہدہ کرے۔کیونکہ تاریخ کی جن صدیوں میں اولاد ابراہیم ؑ بنی اسرائیل کا مقدس تشخص چھوڑ کر اپنے شکی القلب اور مطعون بھائی یہودہ سے اپنی شناخت اپنانے پر بہ ضد رہی تو جناب ابراہیم ؑکے پروردگار نے ان سے اپنے برگزیدہ بندوں ؑکو عطا ہونے والی تمام تر نشانیاں چھین کر مغربی جارحیت پسندوں کے خاندان میں سے چند افراد کو '' غار والے صاحب '' بناکر انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ نسبی تفاخر کی بجائے تعلیمات ابراہیم ؑکے عملی پیراہن متبرک و معتبر ہیں ۔
تعلیمات پر عمل: تاریخ کے طالب علم کے لیے کتنی حیران کن بات ہے کہ اولاد ابراہیمؑ کی ایک شاخ نے تو ارض فلسطین پر تاریخ کی 15صدیاں آپسی ٹکراؤکے نتیجے میں ذلت ورسوائی حاصل کرتے رہنے میں ضایع کردیں ، لیکن ان کی دوسری نسبی شاخ نے قصی بن قلاب جیسی شخصیتوں کے زیر سایہ ارض حجاز پر اپنے سے متعلق افراد کو آس پاس کی تہاذیب میں معاشی وتجارتی سرگرمیوں کا مرکز بناکر انھیں خوشحال اوربے فکرا بنا یا ہوا تھا، لیکن جب ارض فلسطین سے بے دخل یہودی قومی تشخص رکھنے والوں نے ارض حجازکو اپنا مسکن بناناشروع کیا تو وہاں قبائلی خونریزی نے جنم لے لیا اور وہ انسانی جبلی وسفلی اعمال اپنائے جو ارض فلسطین کی تاریخ کا عکس معلوم دکھائی دیا جاتا ہے۔
مزیدار بات کہ جو قریش تلوار کواپنے جسم کا حصہ سمجھتے تھے اورایک دوسرے کے خون سے اپنی قبائلی عصبیت کی پیاس بجھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے وہ خانہ کعبہ میں نہتے آتے اور اپنی دشمنی کو بھول جاتے۔ جو قریش اپنے غلاموں کو اپنے قریب بیٹھنے نہیں دیا کرتے تھے ۔انھی الفت سے ناواقف قریشوں نے تعلیمات وتحقیقات ابراہیم ؑکے عملی مظاہرے میں ایک غلام کو قریش سردار کے بھائی کے طور نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے اپنی مقدس ترین نشانی یعنی خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا کراکے ''آؤ قابل عمل کی مساوات کی جانب ''کی صدا پر لبیک بھی کہا ۔لیکن جب ''لاینال عہدالظالمین ''کا عملی اظہار ہوا تو اسی قدیم تہذیبوں کی سرزمین بابل یعنی موجودہ عراق کربلاپر یعنی جہاں سے جناب ابراہیم ؑکو ہجرت فرمانے کی سعادت سے بہرہ مند کیا گیا تھا،اسی زمین پر جناب حسینؓ ابن علی ؓ نے اسی مقصد کی خاطر واپس ہجرت فرما کراپنے 72ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش فرماکرجناب ابراہیم ؑکی تعلیمات وتحقیقات پر عمل کرکے دکھایا۔
ابتداء کی انتہاء : تاریخ کے طالب علم کو اس مقام پر یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جناب ابراہیمؑ کے پروردگار نے ایسے اسباب مہیا کیے ہوئے تھے کہ جن کی بناء جناب ابراہیم ؑارض بابل سے کنعان ، جناب یوسف ؑاور بنی اسرائیل کنعان سے مصر،جناب موسیٰ ؑبنی اسرائیل سمیت مصر سے وادیء مدائن ، جناب یوشع ؑ اور بنی اسرائیل کی مدائن سے ارض فلسطین، سید خیرالبشر حضور پر نور ﷺ اور صحابہ کرامؓکا مکہ سے بخیر وعافیت مدینہ تک پہنچنا ،تاریخ کے اوراق کی زینت بنا تھا ۔کیونکہ یہاں تک جوتعلیمات وتحقیقات ابراہیم ؑان کی نسبی اولاد کے چاروں اطراف پھیلے ارتقائی مرحلے پر مشتمل تھی۔
اب اسے عالم انسانیت یعنی فکری ونظریاتی طور اولاد ابراہیم ؑکو دعوت فکر دینے کے مرحلے میں داخل کیے جانے کی ابتداء کے طور شروع کیا جانا مقصود تھا۔اس لیے کربلا میں دکھایا گیا کہ تعلیمات وتحقیقات ابراہیمؑ کا مقصد ناحق انسانی خون بہانا نہیں بلکہ ان پر عمل کرنے اور جام شہادت نوش فرمانے پر اختتام پذیر ہوتی ہیں ۔ جن کی ابتداء تو ارض فلسطین پر جناب ذکریا نبی ؑ، یحییٰ نبی ؑاور عیسیٰ نبی ؑکے اظہار میں کی جاچکی تھی، لیکن ان کی انتہاء یہاں کربلا میں وضح کی گئی ۔جس کے تسلسل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ اسی آئین ابراہیمؑ کے عملی اطلاق کے لیے برصغیر میں موجود جناب ابراہیم ؑکی فکری اولادوں نے ہجرت فرمانے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے دعوت کربلا کے عملی مظاہروں میں وارثی ابراہیم ؑکو ثابت کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں جام شہادت نوش فرمایا ۔جس کی مثال اور تسلسل کسی دوسرے خطے میں میسر نہیں ملتا۔
رزق کے ذمے دار : انھی صدیوں میں یہ بھی ملاحظہ کیا جاسکتاہے کہ جن رومیوں اور یہودیوں نے مل کر جناب ذکریا نبیؑ ،یحییٰ نبی ؑ اور عیسیٰ نبی ؑ کو دوٹکڑے،ذبح اور مصلوب کیا تھا ۔انھوں نے لاینال عہدالظالمین کے انکاری عملی مظاہروں میں اپنے سینوں پر صلیب سجائے فکری طور اولاد ابراہیم ؑکے تشخص اپنانے والوں پر صدیوں تک وہی دیوتائی جارحیت اپنائے رکھی۔ جو موجودہ حالات میں برما کے چلا کش بدھ بھکشوؤں نے اولاد ابرہیم ؑ کے روہنگیائی تشخص رکھنے والے انسانوں سے اپنائی ہوئی ہے۔
صلیبیوں سے تو آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ جس عیسیٰ نبی ؑنے مردے ،زندہ کرنے اورمصلوب ہونے کے باوجود انسانی خون بہانے کی ممانعت فرمائی تھی اس عیسیٰ نبی ؑکی خوشنودی حاصل کرنا انسانی خون کی ندیاں بہانے سے بھلا کیوں کر ممکن بن سکتی ہیں۔
بالکل اسی طرح آج برمی بھکشوؤں سے کوئی نہیں پوچھتا آپ کے مہاتما گوتم بدھ نے کہاں خون کی ندیاں بہا کر اپنی آسودگی کا اظہارکیا تھا؟ یا ان سمیت روئے زمین پر وہ انسان جو خون کی ندیاں بہا کر انھیں خوشحالی اور دیگر انسانوں کو غلام بنانے کی آرزو پوری کرنیوالے دیوتاؤں کے ظاہر ہونے کی مناجات وچلہ کشی میں کیونکر مصروف ہیں؟ جو دیوتا ان کی مناجات ،عبادات وچلہ کشی کے محتاج ہیں وہ ان کو کیا دے سکتے ہیں بھلا ؟ان کو سمجھنا ہوگا کہ عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر دیوتاؤں کی حیثیت ریاستوں کو حاصل ہوچکی ہے جو اپنی جغرافیائی سرحدوں کے اندر بسنے والوں اور ان کی آنیوالی نسلوں کے رزق کے ذمے دار ہیں ؟
(جاری ہے)