انمول گیتوں کا خالق احمد راہی

احمد راہی کو بھی ان کے کچھ دوستوں نے فلمسازی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی


یونس ہمدم October 21, 2017
[email protected]

فلم ''چھومنتر'' نے ایسا منتر چلایا کہ احمد راہی پر پھر فلموں کی بارش ہونے لگی تھی۔ ہر فلم میں احمد راہی کے گیتوں کا انتخاب کیا جانے لگا۔ یکے والی کے بعد پنجابی فلم ماہی منڈا نے بھی ریکارڈ توڑ بزنس کیا تھا۔ جب کہ ''یکے والی'' میں مسرت نذیر کے کردار کو انڈیا کی فلم ''شعلے'' میں بھی کاپی کیا گیا تھا۔

اداکارہ ہیما مالنی نے شعلے میں دھنوں کے روپ میں ایک تانگے والی کا کردار ادا کیا تھا۔ جب کہ مسرت نذیر نے ''ماہی منڈا'' اور یکے والی میں زبردست پرفارمنس دی تھی۔ اب اردو فلمسازوں نے بھی احمد راہی کی شاعرانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا شروع کیا اور پنجابی فلموں کے دوران ہی احمد راہی اردو فلم پاکیزہ کے لیے بھی گیت لکھے اور میڈم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ایک گیت نہ صرف فلم کی ہائی لائٹ بنا بلکہ مقبولیت کے بہت سے ریکارڈ توڑ دیے۔ گیت کے بول تھے:

تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آؤںگا
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے

اور یہ گیت اس زمانے میں پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن میں رات میں کئی کئی بار بجتا تھا اور اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آتی تھی۔ اس گیت کی بے مثال کامیابی کے بعد احمد راہی کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر احمد راہی فلم ''پاکیزہ'' اور پنجابی فلم ''ہیر رانجھا'' کے بعد کسی اور فلم میں گانے بھی لکھتے رہتے ان کے لکھے ہوئے مذکورہ بالا دو فلموں کے گیتوں کی وجہ سے احمد راہی کا نام بحیثیت نغمہ نگار و فلمی دنیا میں ہمیشہ زندہ و تابند رہتا ۔ ایک طرف احمد راہی نے اپنے خوبصورت گیتوں سے فلمی دنیا میں اپنے نام کے جھنڈے گاڑے ہوئے تھے تو دوسری طرف ان کے کالج کے زمانے کے ساتھی اور ان کے دوست استاد شاعر سیف الدین سیفؔ شہرت کے سفر میں آگے آگے چل رہے تھے۔

پھر سیف الدین سیفؔ نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے فلمسازی کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا اور اپنی ذاتی پروڈکشن کا آغاز کیا اور جو پہلی فلم بنائی وہ ''سات لاکھ '' تھی جس کو باکس آفس پر بڑی زبردست کامیابی حاصل ہوئی، مگر جب فلم سات لاکھ کے بعد دوسری فلم ''دروازہ'' بنائی تو وہ بری طرح فلاپ ہوگئی اور بحیثیت فلمساز ان کا سارا کریڈٹ خاک میں مل گیا۔ سیف الدین سیف جب تک نغمہ نگار رہے بڑے کامیاب رہے تھے ان کے بارے میں ایک الگ سے کالم کی ضرورت ہے جو آیندہ لکھوںگا۔ اب میں پھر احمد راہی کی طرف آتا ہوں۔

احمد راہی کو بھی ان کے کچھ دوستوں نے فلمسازی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی مگر احمد راہی نے کبھی ایسے نادان دوستوں کی باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیا اور وہ بڑی دلجوئی کے ساتھ فلموں کے مکالمے اور گانے ہی لکھتے رہے فلمساز و ہدایت کار ایس ایم ڈار نے کئی پنجابی فلمیں پروڈیوس کی تھیں۔ ڈار صاحب سے احمد راہی کی بڑی گہری دوستی تھی۔ ایس ایم ڈار نے ان دنوں ''سردار'' کے نام سے ایک اور فلم کا آغاز کیا اور اس فلم کے لیے احمد راہی کا بحیثیت شاعر انتخاب کیا۔ فلم ''سردار'' ایک دلچسپ اور عام سی کہانی پر مبنی فلم تھی مگر اس فلم کے گیتوں نے بڑی دھوم مچائی تھی اور ایک مزاحیہ گیت تو اس فلم کی جان تھا۔ جو احمد راہی نے فلم کی عام سی سچویشن پر چٹکی بجا کر لکھا تھا جس کے بول تھے:

میرے دل کو لگادے تالا
علی گڑھ والا

یہ گیت پاکستان سے لے کر ہندوستان تک مقبولیت کی سند بن گیا تھا اور اس دور میں شہر شہر اور گلی گلی گایا جاتا تھا، خاص طور پر بچوں کا تو یہ پسندیدہ گیت بن گیا تھا۔ جس طرح ان کی اردو فلموں باجی، پاکیزہ، قسمت اور بازار حسن کے گیتوں نے دھوم مچائی تھی اسی طرح ان کے لکھے ہوئے گیت پنجابی فلموں ہیر رانجھا، مرزا جٹ، یکے والی، ماہی منڈا، پینگاں، پلکاں، گڈو، باڈی گارڈ اور وچھوڑا میں لکھے گئے بیشتر گیت سپر ہٹ اور زبان زد خاص و عام تھے۔ انھوں نے بعض فلموں میں مکالمے بھی لکھے تھے۔ ہدایت کار خلیل قیصر کی ایک منفرد انداز کی فلم ''کلرک'' کے گیت بھی احمد راہی نے لکھے تھے۔ کئی گیتوں کی شاعری بڑی خوبصورت تھی جیسے کہ مندرجہ ذیل گیتوں کے مکھڑے:

بھٹک رہے ہیں ہم جہاں
قدم قدم پر ہیں غم وہاں

ہم لٹ گئے بے خبری میں
تیری نگری میں

فلم ''کلرک'' ایک روایت سے ہٹ کر فلم تھی جس میں فلم کے ہدایت کار خلیل قیصر نے خود ہی مرکزی کردار بھی ادا کیا تھا۔ احمد راہی نے بے شمار فلموں کے گیت لکھے ہیں اور زیادہ تر سپر ہٹ گیت لکھے ہیں۔ ذیل میں ان کے کچھ ہٹ گیتوں کے مکھڑے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کررہاہوں۔

چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے

سن و نجھلی دی مٹھڑی تان وے
چن ماہیا تیری راہ پئی تکنی آں

او رانجھن وے میں اپنا حال سناواں
ونجلی والڑیا اے گل بھلی ناں

زلفاں دی ٹھنڈی چھاواں ڈھولنا
ڈھول بلوچا موڑ بہاراں

اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے

میں وہ دیوانہ ہوں جس پر کوئی ہنستا ہی نہیں

میں وہ دیوانہ والا یہ گیت اردو فلم آزاد کے لیے لکھا گیا تھا اور اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا اور اپنے زمانے میں یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا۔

احمد راہی نے ایک طویل عرصہ فلمی دنیا میں گزارا اور ان کے بیشتر پنجابی اور اردو فلموں کے ہٹ گیتوں پر نگار فلم ایوارڈز اور دیگر ملکی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے 1997 میں احمد راہی کو پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ میری ان سے ایک بھرپور ملاقات ایورنیو اسٹوڈیو میں اس وقت ہوئی تھی جب میں نے ابھی صرف ایک ہی فلم کے لیے گیت لکھے تھے اور لاہور میں فلم رائٹرز ایسوسی ایشن نے کسی نئی جنرل باڈی کے الیکشن ہوئے تھے۔

شاعر کلیم عثمانی اور رائٹر بشیر نیاز نے میرا احمد راہی صاحب سے تعارف کرایا تھا اور مجھے فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کا ممبر بنانے میں بھی معاونت کی تھی۔ احمد راہی نے بڑی شفقت کے ساتھ میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہاتھا اب آنے والا کل تمہارے جیسے نوجوانوں کے لیے ہے ہم نے تو جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا اب ہماری دعا ہے کہ نئے لکھنے والے جو بھی آئیں وہ بھی اچھا لکھیں اور فلمی دنیا میں اپنا مقام بنائیں۔

احمد راہی بہت ہی سادہ طبیعت کے انسان تھے نہ ان کے لباس میں کوئی چمک دمک نظر آتی تھی اور نہ ہی ان کی باتوں میں چٹک مٹک ہوتی تھی وہ اپنی ذات میں ایک درویشانہ صفت رکھتے تھے۔ آج احمد راہی اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے انمول گیتوں کی خوشبو آج بھی فضاؤں میں بکھری ہوئی ہے اور ان کے امر اور انمول گیت ہمیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔