سندھی صحافت اور سوشل میڈیا
نوے کی دہائی سے سندھی صحافت نے جو نیا رخ اختیار کیا تھا 2010 تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے افادیت کھونے لگا۔
NEW DELHI:
سندھ میں صحافت کے ستون یوں تو بہت پرانے ہیں مگر یہ نوے کی دہائی تھی جب سندھی صحافت میں نئی راہیں دریافت ہوئیں۔ صحافت، درباری ثقافت سے آزاد ہوئی۔ کہانی قصوں اور قصیدوں کو تاریخ کیا گیا۔ صحافت اس قدر وسیع ہوئی کہ کالم نگاری ایک بھرپور صنعت بن کر ابھری ۔ مائی جندو کا کیس ۔ جس کی بیٹیوں نے پریس کلب حیدرآباد کے سامنے انصاف کی خاطر خودسوزی کی۔
یہ وہ کیس تھا جو فوج کے حاضر سروس میجر کے خلاف تھا۔ جس نے کچھ سپاہیوں کے ساتھ مل کر مائی جندو کے گاؤں میں ریڈ کیا تھا ۔ قصہ زمین کے جھگڑے کا تھا، مگر اس قصے کو ''را'' کے ایجنٹس کا رنگ دیا گیا اور کہا گیا کہ مائی جندو کے بیٹے '' را'' کے ایجنٹ تھے ۔ 1992 میں ٹنڈو بہاول کے اس سانحے میں ، مائی جندو کے دو بیٹوں سمیت کل نو لوگ مارے گئے۔
یہ سندھی صحافت کا پہلا معرکہ تھا کہ سندھی صحافت نے جرأت کے ساتھ اس کیس کے حقائق سے پردہ اٹھایا۔ انصاف بہت سست روی سے کام کر رہا تھا۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ جیسے دلیر جنرل فوج کے سربراہ تھے۔ میجر پر کیس چلا اور میجر کا کورٹ مارشل ہوا، میجر کو پھانسی کی سزا دی گئی ۔ پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے ، فوج کے سربراہ کے پاس درخواست آئی ، جو رد ہوئی لیکن پھانسی کی سزا پر عمل درآمد بھی نہیں ہورہا تھا۔
اسی دوران مائی جندو کی بیٹیوں نے خودسوزی کی ، اور اپنی جان لے لی۔ پریس فوٹوگرافرز ، فوٹو لینے میں مصروف رہے اور کسی نے بھی آگے بڑھ کر ان لڑکیوں کی جان بچانے کی کوشش نہ کی۔ اس واقعہ کے دو ہفتوں بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی چلی گئی۔ سندھی صحافت میں وہ اخبارات ، جو اس وقت بہت معروف و مقبول تو تھے مگر اتنی جرات مند نہ تھیں۔ وہ اس سانحہ ٹنڈو بہاول کے کیس کو رپورٹ نہ کر پائیں اور یوں اپنی ساخت کھو بیٹھیں ۔
اس طرح سندھی ثقافت کے طلب ور سد نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ صحافت کے اس پیشے کو نئی راہیں ملیں ، ایک نیا نظریہ ملا سچ لکھا جانے لگا۔ ایک ایسا بیانیہ Narrative بنا جس نے اپنی کڑیاں صوفی تحریک سے جوڑیں۔ شیخ ایاز، سچل سائیں ، شاہ بھٹائی اس نئی صحافت کے پیر و مرشد بنے ۔ اس سے پہلے دو روایتیں اور ہیں جن کا ذکر بھی کرتا چلوں ۔ ایک ساٹھ کی دہائی میں جنرل ایوب کی آمریت کے خلاف شاگردوں کی جدوجہد اور اسی (80) کی دہائی میں MRD تحریک ، ان دونوں تحریکوں کے رد عمل سے ، سندھی زبان میں مزاحمتی ادب کی تخلیق ہوئی۔
ایک اور اہم حقیقت کا ذکر بھی کرتا چلوں پچاس کی دہائی میں ــ''ہاری الاٹی تحریک ''کے حوالے سے ۔ ابھی سندھ کے اندر وڈیرہ اتنا مضبوط نہیں تھا بلکہ افسر شاہی زیادہ مضبوط تھی۔ وڈیرہ پولیس اور ڈپٹی کلیکٹر کے ماتحت تھا چاہے کتنا ہے طاقتور ہی کیوں نہ ہو ۔ افسر شاہی معاشرے کے لیے جتنی بھی نقصان دہ تھی لیکن پولیس افسر اور کمشنرز اعلیٰ معیار کے اور اصول والے تھے ۔ وڈیرہ ، ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی زمین ہتھیانے کے چکر میں تھا۔ ہاری الاٹی تحریک کا شمار سندھ کی بڑی تحریکوں میں ہوتا ہے ، مجھے اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ پچاس کی دہائی میں دہقانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے چلائی ہوئی اس تحریک کے رہنما اور رہبر میرے والد صاحب تھے۔
نوے کی دہائی سے سندھی صحافت نے جو نیا رخ اختیار کیا تھا 2010 تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے افادیت کھونے لگا۔ سچ کو یرغمال کیا جانے لگا اور میڈیا کے مالکوں تک وڈیروں کی پہنچ مضبوط ہوگئی بلکہ وہ خود ہی مالک بن بیٹھے ۔اخبار کے ایڈیٹر کی ادارہ جاتی ساکھ متاثر ہوئی، دوسری طرف مشرف کے پولیس ریفارمز نے افسر شاہی کے خدوخال اور بگاڑ دیے۔ افسر شاہی ناظم کے تابع ہوگئی اور ناظم بظاہر تو لوگوں کا چنا ہوا لیڈر تھا مگر لوگ ہی آزاد نہ تھے وہ ہی پرانے غلامی کے طوق ۔
وڈیروں کی غلامی کے!!!
انھی زمانوں میں سوشل میڈیا نے آہستہ آہستہ اپنی راہیں ہموار کیں ۔ سندھی میڈیا اپنی افادیت ، سوشل میڈیا کے سامنے کبھی نہ کھوتا اگر ان کے مالکان پروفیشنلزم کے trends پر چلتے ۔ ان کی غفلتوں نے سوشل میڈیا کی راہیں ہموار کیں اور اس طرح سندھی ،اردو صحافت کی طرف راغب ہونے لگے۔ حال ہی میں سندھی سوشل میڈیا کا ایک کیس جو اہم رخ اختیار کر کے سامنے آیا وہ ہے سندھ اسمبلی کے آغا اسپیکر سراج درانی کی ایک ذاتی محفل کی وڈیو جو بہت وائرل ہوئی ۔ مشکل یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں کوئی ایڈیٹر نہیں ہے ۔
لوگوں کی مرضی ہے جو کچھ اور جس طرح چاہیں اپ لوڈ کر دیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وڈیو میں ایسا کیا تھا جو جنگل میں آگ کی طرح یہ وڈیو پھیلی اور لوگوں کے رد عمل نے شدید غم و غصے کی شکل اختیار کرلی۔ ایک ایسا Reaction جس کی شاید ماضی قریب میں مثال نہیں ۔ لیکن شاید پہلا کیس بھی ہوگا جس نے خود سوشل میڈیا کی ساخت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔
سراج درانی نے اس وائرل وڈیو میں ایک شخص جو کہ اس کا ووٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی برادری سے بھی تعلق رکھتا ہے کہا کہ تمہارا مجھ سے تعلق برادری کا ہے ۔ ووٹ کا رشتہ ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ مگر اس مفہوم کو بیان کرنے میں جو زبان سراج درانی نے استعمال کی ہے وہ Slangبازاری زبان ہے۔ ایک ایسی زبان جو کہ پاکستانی مردوں کی سوسائٹی میں عام طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ آغا سراج درانی کو ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ووٹ کا رشتہ اور تعلق ، برادری کے تعلق سے برتر ہے۔ یعنی ووٹ کا وہ رشتہ جو Narrative کی نسبت سے بنتا ہے۔
اب یہ سندھ کی بدنصیبی ہے کہ یہ یہاں ووٹ برادری اور تعلقات پر دیا جاتا ہے۔ اتنا پست تو سندھ بھٹو اور بے نظیر کے زمانے میں کبھی نہ تھا۔ مگر یہ زرداری صاحب کا زمانہ ہے جس میں سندھ کا ووٹ تعلقات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور اس حوالے سے اگر کوئی سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی سے شکوہ کرتا ہے تو بجا ہے۔
آپ کا تعلق شکارپور سے ہے ، جہاں پر برادری اور پنچایتوں کا سلسلہ باقی ماندہ سندھ کے مقابلے میں اور زیادہ گمبھیر ہے۔اس بات کا اندازہ ہم یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ JUI جو کہ ایک مذہبی جماعت ہے مگر وہ بھی اپنے اثر و رسوخ ، شکارپور میں برادری اور پنچایتی تعلقات پر مضبوط کر رہی ہے ۔ یہ وہ شکارپور ہے جو پاکستان بننے سے پہلے صنعت و تجارت کا مرکز تھا، سو فیصد خواندگی کی شرح رکھتا تھا اور اس کی تجارتی رسائی کا بل ، ثمر قند ، قندھار اور بخارا تک پھیلی ہوئی تھی۔
واپس لوٹتے ہیں سوشل میڈیا کی طرف ، ایک اور وڈیو وائرل ہوئی جو کہ اسی تناظر میں ہے۔ یہ وڈیو Electronic Media سے لی گئی ہے جس میں فریال ٹالپر صاحبہ لاڑکانہ کے نواح میں کسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ''قمبر و شہدادکوٹ اور لاڑکانہ کے لوگو کان کھول کر سن لو کہ نعرہ صرف ایک ہے بھٹو کا نعرہ ، ووٹ کے لیے صرف ایک نشان ہے وہ ہے تیر کا نشان ، اگر کسی کے دماغ میں کوئی فتور ہے تو براہ مہربانی اس کو اپنے دماغ سے نکال دے''۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کہاں کھڑا ہے سندھ ۔ سندھ آہستہ آہستہ کروٹ لے رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی کا Deliver نہ کرنا ہے اور ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام جو غیر فطری انداز میں سندھیوں پر تھوپا ہوا ہے، اب اپنے گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آرہا ہے ۔