دو کارنامے
پاکستان اگر ایران سے گیس لیتا ہے تو اس طرح اسے صنعتی شعبے میں بہتری نصیب ہوگی
ISLAMABAD:
موجودہ حکومت نے اپنے دور حکومت میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی، پچھلے پانچ برسوں سے اپوزیشن سمیت بہت سے لوگ اس کے جانے کے دن ہی گنتے رہے، لیکن جاتے جاتے اس نے کچھ اچھے کام بھی کر ڈالے جس کے لیے اسے شاباش دینی ضروری ہے ورنہ ایشوز کو التوا میں ڈالنے کی سرکاری ذمے داری کا حق یہ گزشتہ حکومتوں کی طرح سر انجام دیتی آئی ہے۔
پاکستان میں قدرتی گیس کی کمی نہ تھی لیکن حالات و واقعات سے جہاں اس کا ضیاع ہوا وہیں اس کی ضرورت بھی بڑھتی گئی اور اب یہ ضرورت خطرے کا سانپ بن کر منڈلانے لگا تھا۔ پڑوسی ملک ایران جو پٹرولیم وگیس کے وسائل سے مالا مال ہے اپنی پابندیوں کے باعث اس کے صحیح دام وصول نہیں کرپا رہا، لیکن اس نے پاکستان کی ضروریات اور مسائل کے تحت اس سہولت کو باہم پہنچانے کی بات کی، ایران سے لے کر پاکستان تک گیس لائن کا منصوبہ گزشتہ برس بڑے جوش و خروش سے شروع ہوا تھا، صدر زرداری نے حیرت انگیز طور پر اس منصوبے پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا تھا اور مجھ جیسے بہت سے پاکستانیوں نے کچھ سکون کا سانس لیا تھا کیونکہ پاکستان میں صنعتی شعبے میں گیس کی بڑی کھپت ہے جس سے پاکستان کی ترقی متاثر ہورہی تھی، لیکن پھر پاکستان میں ایران کے ذریعے گیس کی آمد کا یہ معاملہ سرد ہوتا گیا، امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی سمندروں کے پانی میں پابندی تک پھیل چکی تھی، جنگ کا ایک بگل تھا جو بجنا ہی چاہتا تھا ایسے میں امریکا نے پاکستان پر اپنا روایتی حربہ استعمال کیا اور ہم بے چارے کمزور۔۔۔۔! فوراً دباؤ میں آگئے اور یوں یہ معاملہ بنتے بنتے سردخانے میں سوگیا تھا، لیکن پھر ایران اور امریکا کے تعلقات جو سختی کی حد میں تڑخ کر ٹوٹنے والے تھے کہ ذرا لچک آئی اور ایک بار پھر پاکستان اور ایران کے مابین یہ منصوبہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں نظر آیا۔
پاکستان اگر ایران سے گیس لیتا ہے تو اس طرح اسے صنعتی شعبے میں بہتری نصیب ہوگی کیونکہ پچھلے چالیس برسوں سے صنعتی شعبوں سے قدرتی گیس جو لاگت کے حوالے سے پٹرول اور کوئلے کے مقابلے میں سستی پڑتی ہے استعمال کرنا شروع کیا جس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ اور لاگت میں کمی کے باعث اس شعبے نے تیزی سے ترقی کی۔ ایکسپورٹ کی بہترین کوالٹی کے باعث بیرون ممالک سے زرمبادلہ کی آمد ہوئی، لیکن ان پانچ چھ برسوں میں خاص کر اکبر بگٹی شہید کے حادثے کے بعد سے یہ صورت حال بتدریج زوال کی جانب بڑھی اور اب حد یہ ہے کہ فیصل آباد جیسے بڑے صنعتی شہر میں بہت سی صنعتیں بند پڑی ہیں، سردی کی شدت اور اس کے استعمال کے باعث یہ کھپت اور بڑھ گئی اور یوں موسم سرما میں تو معاشی طور پر بدحالی نمایاں طور پر سامنے آئی، کاروبار سرد ہونے کے باعث یومیہ اجرت پانے والے مزدور وہنر مند بے روزگار ہوتے گئے، بہت سے شہروں کی جانب بڑھ گئے، یوں ایک نئے مسئلے نے جنم لیا، ان پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان کے دیہی اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی جانب رخ کرنے والے افراد کی تعداد کی شرح ماضی کے مقابلے میں گزشتہ چند برسوں خاصی بلند رہی جس کی بنیادی وجہ بارش کی تباہ کاریاں اور بے روزگاری بتائی جاتی ہے۔
آج ترکی برادر ملک میں ترقی کی شرح خاصی بلند جارہی ہے، ایران سے گیس حاصل کرنے والوں میں ترکی کا بھی شمار ہوتا ہے، لیکن ترکی پاکستان کے مقابلے میں ہر لحاظ سے پاکستان سے مستحکم ہے اس لیے کسی بیرونی دباؤ کا اس پر اثر اتنا موثر نہیں رہتا جب کہ پاکستان بیرونی ممالک سے امداد وصول کرتے کرتے اس دباؤ میں اپنی کمر دہری کرچکا ہے اور ہر دباؤ کا ری ایکشن صاف نظر آجاتا ہے، جیسے امریکا کے دباؤ میں پاکستان نے ایران پاکستان گیس منصوبے کو جو اپنی مدت کو پار کرچکا ہے جس کا بیشتر کام ایران کی حد تک مکمل ہے صرف پاکستان میں اس کا کام ادھورا ہے، جسے ایران امداد دینے کو تیار ہے گویا یہ دینے کا مرحلہ بھی ایران کی امداد سے ہی مکمل ہوگا، لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟ سرکاری خزانے تو خالی ہیں ، اس طرح ہماری کچھوے کی طرح سخت کھال ہوچکی ہے کہ اب کوئی بات شرمندہ نہیں کرتی، لیکن اس بے حسی میں جاتے جاتے کمال ہی کردیا۔
امید ہے کہ یہ کمال اپنے عروج پر باکمال بھی ہوجائے، آمین! ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی ہونے کی صورت میں پاکستان آگے کی جانب پیش قدمی کرسکتا ہے، جس کے لیے گیس کی فراہمی میں تعطل ناقابل قبول ہوگا، لہٰذا عوام کی خواہش کے مطابق جتنی جلدی ہو اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ گزشتہ ہفتے ایران کے اسپیکر علی لاریجانی نے اپنے دورہ پاکستان میں اس بات کا اظہار کھل کر کیا کہ امریکا دھونس کے ذریعے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے اور بعض اوقات ہاتھی کے دانت دکھانے کے ہی ہوتے ہیں، ہمیں یہ سمجھ کر ہی اس منصوبے پر کام کو ضرور مکمل کروالینا چاہیے۔صدر زرداری ایران کا دورہ کرچکے ہیں۔اور پاک ایران معاہدہ پر قائم ہیں۔
گوادر پورٹ کا مسئلہ بھی سردخانے کی نذر تھا، لیکن شکر ہے کہ اس کا کام اس چینی ذمے دار کمپنی کو سونپ دیا گیا ورنہ کس طرح سے وہ قیمتی منصوبہ ادھورا پڑا تھا، اس سے پاکستان کو ذرا بھی فائدہ نہیں ہورہا تھا، لیکن بڑی طاقتوں کے دل پر ٹھنڈک ضرور پڑ رہی تھی، اس لیے کہ اس طرح چین کی رسائی گرم پانیوں پر بھی ہوگئی جب کہ یہ خواب کسی اور ہی بڑی قوت کا تھا جو خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ تھا، چین ایک بڑی عالمی طاقت بن چکا ہے ، اس سے انکار کرنا حماقت ہے، لیکن شروع سے ہی پاکستان اور چین کی دوستی جس انداز سے چلی آرہی ہے اس کا موازنہ امریکا اور پاکستان کی دوستی سے کسی طرح بھی نہیں کیا جاسکتا، چین ہمارے قد سے بڑا ضرور ہے، لیکن اس نے کبھی اپنے اس بڑے قد کا رعب ہم پر نہیں ڈالا اور اس کا یہی ظرف اسے ترقی کی جانب بڑھا رہا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہم بہت سے معاملوں میں دوستی کو سر پر اس طرح سوار کرتے ہیں کہ اپنے اہم مسائل ایک جانب رکھ دیتے ہیں لیکن چین کی جانب سے مثبت رویے بہت سے معاملات میں اس ایک جانب والی بات کے مقابلے میں کچھ خاصے بڑے نہیں دکھائی دیتے، ویسے بھی یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ جب تک کوئی ادارہ گورنمنٹ کے پاس ہوتا ہے بربادی کی جانب بڑھتا ہے اور جب پرائیویٹ سیکٹر کو بخش دیا جاتا ہے تو نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ ہوسکتا ہے گوادر اور اس کے قرب و جوار کے معاملات اس منصوبے کی وجہ سے مثبت جانب پیش قدمی کریں اور ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، اس کے عوام خوش حال رہیں، جو حکومت پاکستانی قوم کے لیے کام کرے گی لوگ اس کی پذیرائی کریں گے، لیکن جاتے جاتے یہ کام کرنا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ حکومت جانتی ہے کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں، لیکن بیرونی دباؤ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی رہی جو کسی بھی ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔