سندھ حکومت کا انسداد بد عنوانی کا صوبائی ادارہ بھی کرپشن کا شکار

تحقیقات کا تجربہ نہ رکھنے والے اور سیاسی سفارش پرتعینات افسران کے باعث اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی شدید متاثر


عبدالرزاق ابڑو October 25, 2017
سزاؤں کا تناسب سالانہ 5 فیصد سے بھی کم، تقریباً 1500 کیسز پر  5سال سے پیش رفت نہیں ہوئی، ایکسپریس کو دستیاب اعداد و شمار۔ فوٹو: فائل

صوبہ سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائیوں کیلیے قائم صوبائی ادارہ اینٹی کرپشن اسٹیبشلمنٹ بذات خود کرپشن کا شکار ہو چکا ہے۔

ادارے کے موجودہ چیئرمین علم الدین بلو اور سابق چیئرمین سید ممتاز علی شاہ نے اس کی کارکردگی بہتر بنانے کیلیے کافی کوششیں کیں لیکن وہ بھی تاحال رنگ نہ لا سکیں۔ تحقیقات کا تجربہ نہ رکھنے والے اور سیاسی سفارش پر افسران کی تعیناتی کے باعث اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے جبکہ انسداد رشوت ستانی کی عدالتوں میں کرپشن کے کیسز پر سزاؤں کا تناسب سالانہ 5 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے، تقریباً 1500 کیسز پر گزشتہ 5 برسوں سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

''ایکسپریس'' کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اینٹی کرپشن عدالتوں میں تقریباً 15 سو کیسز گزشتہ 5 برسوں سے التوا کا شکار ہیں۔ ان میں 735 کیسز حیدرآباد کی اینٹی کرپشن کورٹ میں زیر التوا ہیں جبکہ کراچی کی اینٹی کرپشن عدالتوں میں 170 کیس، سکھر کی اینٹی کرپشن عدالتوں میں 485 کیسز اور لاڑکانہ ڈویژن کی اینٹی کرپشن عدالتوں میں 103 کیسز التوا کا شکار ہیں۔

اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ کے موجودہ چیئرمین علم الدین بلو اور سابق چیئرمین سید ممتاز علی شاہ نے انسداد رشوت ستانی کے صوبائی ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلیے متعدد اقدامات کیے لیکن پورا نظام کرپشن اور بدانتظامی کا شکار ہونے کے باعث ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔

صوبائی ادارے میں تعینات غیر متعلقہ اور سفارشی افسران کے باعث انسداد رشوت ستانی کیلیے قائم کردہ ادارہ خود کرپشن کا شکار ہوگیا ہے اور بعض اہم افسران مختلف اداروں کے ملازمین کے خلاف شکایتوں کی آڑ میں رشوت وصول کرتے ہیں۔

بعض محکموں کے ملازمین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جعلی درخواستیں بھی کرائی جاتی ہیں جبکہ ان درخواستوں کی وصولی کی اطلاع دے کر ان ملازمین اور افسران سے معاملات طے کیے جاتے ہیں اور لین دین کے بعد ان درخواستوں پر مزید کارروائی روک دی جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس طرح کی جعلی شکایات یا درخواستوں کا زیادہ شکار خاص طور پر ان محکموں کے افسران اور ملازمین کو بنایا جاتا ہے جن میں فنڈز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے یا جو کرپشن کے حوالے سے زیادہ بدنام ہوتے ہیں ، ان محکموں میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز، محکمہ تعلیم ، محکمہ بلدیات ، محکمہ خزانہ ، محکمہ خوراک ، محکمہ آبپاشی اور دیگر محکمے شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق کرپشن کے حقیقی کیسز میں بھی ایسے افسران خانہ پوری کیلیے صرف چھوٹے گریڈ کے ملازمین کے خلاف کیسز تیار کرکے آگے بڑھا دیتے ہیں اور افسران سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ گریڈ 17 سے اوپر کے گریڈز کے افسران کے خلاف کارروائی کرنا ویسے بھی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کیلیے پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس کیلیے چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں قائم اینٹی کرپشن کمیٹی ون پیشگی منظوری حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔

مذکورہ کمیٹی کا اجلاس تقریباً 6 ماہ کے وقفے کے بعد حال ہی میں منعقد ہوا جس میں چیف سیکریٹری نے واضح کر دیا تھا کہ صرف درخواستوں اور سورس رپورٹ پر افسران کیخلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے، ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں مقدمات تیار ہونے چاہئیں، چیف سیکریٹری نے چیئرمین اینٹی کرپشن کو ہدایت کی تھی کہ بلا جواز جعلی درخواستیں کروا کر افسران اور دیگر افراد کو بلیک میل کرنیکا سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں