نفسیات ومابعد نفسیات
انسان جذبات کی رو میں وہ سب کچھ کرگزرتا ہے جس کا بحالت شعور تصور بھی نہیں کرسکتا۔
عاشق حسین البدوی مرحوم کی یاد میں ہم نے نفسیات ومابعد نفسیات اور روحانی مظاہر پر جو کالم کا سلسلہ شروع کیا تھا اس کے سلسلے میں پاکستان بھر سے خطوط، ای میل اور فون کال کے ذریعے رابطہ کیا گیا، ہم مشکور ہیں کہ قارئین نے اس کالم کو اتنی پذیرائی دی۔ قارئین نے نفسیات کے حوالے سے کردار سازی اور روحانیت سے متعلق مشقیں شائع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
ہم عاشق حسین البدوی مرحوم کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے قارئین کے لیے وہ تمام مشقیں شامل اشاعت کریں گے جو بدوی مرحوم اپنے کالموں میں پیش نہ کرسکے۔نفسیات ومابعد نفسیات کے موضوع پر بدوی صاحب سے قبل ممتاز شاعر رئیس امروہوی مرحوم نے جو دقیق لٹریچر پیش کیا ہے وہ ادبی دنیا میں امر ہوچکا ہے۔ یہاں ہم رئیس امروہوی مرحوم کی ہی ایک کتاب ''لے سانس بھی آہستہ'' کے حصہ اول سے ایک اقتباس شائع کررہے ہیں جس سے قارئین کو نفسیات ومابعد نفسیات اور انسانی نفس کے مظاہر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
نفسیات ہو یا مابعد نفسیات، ان دونوں کا موضوع فکر نفس ہے۔ طبی نفسیات نفس کے غیر معمولی مظاہر مثلاً تقسیم شخصیت، اعصابی خلل، ذہنی انتشار اور نفسیاتی الجھنوں وغیرہ سے بحث کرتی ہے اور مابعد نفسیات سپر نارمل کرشموں سے۔
انسانیت کی عظمت صرف اس کی قوت ارادی میں پوشیدہ ہے۔ انسانی ارادہ فاتح کائنات بھی ہے، معمار حیات بھی! ہماری تمام ذہنی الجھنوں، تمام ذہنی پریشانیوں اور تمام روحانی گتھیوں کی تہہ میں صرف ارادے کی کمزوری کارفرما ہوتی ہے۔ ہم اپنے وحشی، بے روک اور پرشور جذبات پر صرف قوت ارادی کی بدولت قابو پاسکتے ہیں۔ انسانی جبلتوں (مثلاً بھوک، جنس، تشدد وغیرہ) اور انسانی جبلتوں کے سرچشمے سے پھوٹنے والے جذبات کا تعلق، ہمارے اعصاب و غدود کے عمل سے ہے اور سانس کا زیر و بم بھی اسی نظام اعصاب سے تعلق رکھتا ہے۔
گویا جذبات کا اتار چڑھاؤ اور سانس کی آمد و شد ایک ہی مرکز سے وابستہ ہے۔ اس مرکز کو خودمختار اعصابی نظام کہتے ہیں۔ فعلیات اور نفسیات کے ابتدائی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ جسمانی ڈھانچے میں نمایاں اہمیت رکھنے والے اعصابی نظام صرف دو ہیں۔ (1) اعصاب کا ایک نظام وہ ہے جسے دماغی نخاعی نظام (CEREBRO SPINAL SYSTEM) کہتے ہیں (یہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہے)۔ دوسرا تائیدی اعصابی نظام (SYMPATHETIC SYSTEM) کہلاتا ہے۔
پہلا دماغی نخاعی نظام، انسانی ارادے کے تحت ہے اور دوسرا تائیدی عصبی نظام، خودمختار اور ارادے کی گرفت سے آزاد ہے۔ میں نے ان سطور کی تحریر کے وقت جتنے کام کیے مثلاً کاغذ سامنے رکھنا، قلم انگلیوں میں پکڑنا، دماغ کو مضمون کی طرف متوجہ کرنا، عبارت کی گنجائش کا لحاظ اور صرف ایک موضوع بحث کو پیش نظر رکھنا، مضمون سے تعلق نہ رکھنے والی بحثوں کو حذف کردینا، ورق الٹنا، غرض اس عبارت کی ترتیب و تحریر کے سلسلے میں جتنے کام کیے گئے ان سب کا تعلق دماغ اور اعصاب کے اس سلسلے سے ہے جو قوت ارادہ کے تحت ہے اور جسے میں جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر حرکت میں لاتا ہوں۔
لیکن اس کام یعنی تحریر مضامین کے ساتھ ساتھ میرے دماغ اور اعصاب کا دوسرا نظام (تائیدی عصبی سسٹم) بھی خود بخود کام کرتا رہا اور مجھے اس کی سرگرمیوں کی خبر تک نہ ہوئی، مثلاً سانس چلتا رہا، دل دھڑکتا رہا، رگوں میں خون گردش کرتا رہا، نبض جاری رہی، بار بار پہلو بدلا جاتا رہا، گرے ہوئے بالوں کو سلجھاتا رہا، سر کھجاتا رہا۔ غرض تحریر عبارت کے دوران بہت سی غیر شعوری حرکتیں اور غیر فعلیتیں سرزد ہوتی رہیں اور سارا کام، دماغ اور اعصاب کے خود مختار سسٹم نے انجام دیا۔ نظام جذبات بھی بہت حد تک اسی سسٹم سے تعلق رکھتا ہے، جس طرح ہم عام حالات میں سانس کی رفتار اور عام قدرتی حرکات (مثال کے طور پر پلک جھپکنا) کو کنٹرول نہیں کرسکتے، اس طرح ہیجان جذبات اور طوفان احساسات کے وقت دل و دماغ کو معتدل و متوازن رکھنا، قریب قریب ہمارے امکان سے باہر ہوجاتا ہے۔
انسان جذبات کی رو میں وہ سب کچھ کرگزرتا ہے جس کا بحالت شعور تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جذباتی کیفیت میں ذرا سی تبدیلی کے ساتھ سانس کی رفتار بھی بدل جاتی ہے، غم کی شدت میں گہرے گہرے سانس لینا، مایوسی اور بے بسی کے عالم میں دم گھٹنا، خوف میں نیچے کا سانس نیچے اور اوپر کا سانس اوپر رہ جانا، غصے میں ہانپنا، جنسی ہیجان میں تنفس کی تیزی، حملے کے وقت سانس روک لینا، شدت حیرت میں سانس کا اٹک اٹک کر چلنا، اطمینان و سکون کا گہرا سانس، رنج و اندوہ کا ٹھنڈا سانس، چوٹ کھا کر کراہنا، مایوسی میں آہ آہ، ہنستے میں قاہ قاہ اور مسرت میں واہ واہ! یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ جذبات کی رفتار کو ناپنے کے لیے سانس کے اتار چڑھاؤ کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ سانس، نفس کے آلہ جذبات پیما کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر یہ تو بنیادی اور بدیہی حقیقت ہے کہ نفس (جان) کا دار و مدار ہی نفس پر ہے۔
شیخ سعدی نے اپنی نادر روزگار کتاب ''گلستان'' کا آغاز ایسے فقرے سے کیا ہے جو صدیوں سے ضرب المثل کے طو رپر استعمال ہورہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ''ہر نفسے کی فرومی رود ممد حیات است و چوں برآید مفرح ذات'' یعنی ہر سانس جو اندر جاتا ہے زندگی کا سہارا ہے اور جب باہر آتا ہے تو ذات کو فرحت بخشتا ہے۔ درحقیقت شیخ سعدی کا ہر فقرہ، حکمت و اخلاق کی ہزار کتابوں پر بھاری ہوتا ہے۔ ان چند لفظوں میں یوگ، تصوف، فعلیات اور حیاتیات کے بھاری بھرکم علوم و فنون کا نچوڑ پیش کردیا۔
زندگی کیا ہے؟ سانس کا تسلسل، عمر شماری، درحقیقت نفس شماری کا نام ہے۔ طول حیات کو دن، مہینے اور سال سے ناپنے کے بجائے سانسوں کی تعداد سے ناپنا چاہیے۔ سانس بند ہوا اور روح و جسم کی مشترکہ مشین چلتے چلتے رک گئی۔ بچہ ماں کے پیٹ میں سانس لینا شروع کردیتا ہے اور یہ سلسلہ ''تادم واپسیں'' جاری رہتا ہے۔ دنیا کی ہر زندہ مخلوق سانس لینے پر مجبور ہے کیونکہ سانس لیے بغیر وہ زندگی اور توانائی یعنی ''روح حیات'' کے ان بے کراں دھاروں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی جو کائنات میں ہر طرف رواں دواں ہیں۔ ہماری زندگی کا انحصار اسی ہوا پر ہے جو ہم سانس کے ساتھ کھینچتے اور حلق کے راستے باہر نکال دیتے ہیں۔ سانس کی باقاعدہ ریاضت کرنے والے ناک کے داہنے نتھنے والے سانس کو ''شمسی رو'' (سولر کرنٹ) اور بائیں نتھنے والے سانس کو قمری لہر ''لیویز کرنٹ'' کہتے ہیں۔ پہلا مثبت ہے اور دوسرا منفی! ہر سانس کے ساتھ روح حیات کی عظیم الشان رو ہمارے اندر داخل ہوتی ہے اور ہر اخراج کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثیر مقدار باہر نکل جاتی ہے۔
ناک کے دونوں نتھنوں کے منفی اور مثبت اثرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے متبادل طرز تنفس کی سفارش کی جاتی ہے۔ متبادل طرز تنفس یکے بعد دیگرے دائیں بائیں نتھنے سے سانس لینے کو کہتے ہیں۔ اس مشق کو کردار سازی کی مشقوں میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ مبتدی طالب علم سے پہلے تنفس نور کی مشق کرائی جاتی ہے، یعنی نور کے تصور کے ساتھ بیک وقت ناک کے دونوں سوراخوں سے سانس اندر کھینچنا، قابل برداشت حد تک سینے میں روکنا اور آہستہ آہستہ ناک کے راستے خارج کردینا۔ ہمارا نظام تنفس، جس پر حیات انسانی کا دار و مدار ہے، کائنات کے ابدی تنفس کا حصہ ہے۔ کائنات روح حیات کے جو سانس لیتی اور خارج کرتی ہے وہی روح ہوا کے ذریعے ہمارے اندر پہنچ کر جسم کے ہر خلیے کو زندگی اور توانائی سے لبریز کردیتی ہے۔ اگلے کالم میں انشاء اﷲ ان مشقوں پر مزید بحث ہوگی۔