سیاسی جماعتیں

70 سال پاکستان کو ہونے کے باوجود کئی حکومتیں رہنے کے باوجود ہمارے سیاستدان سیاست کے چال چلن نہ جان سکے


فرح ناز October 28, 2017
[email protected]

عمران خان پھر سندھ کے دورے پر، گویا نواز شریف کے بعد ان کا فوکس سندھ کی سیاست، گوکہ کئی گزرے سالوں سے وہ سندھ پر اپنی توجہ مبذول نہیں کروا سکے ہیں اورضمنی انتخاب 114 میں بھی بری طرح شکست کا سامنا پی ٹی آئی کوکرنا پڑا۔ اب عمران خان خود اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنی انرجی اور توجہ چونکہ نواز حکومت پر رکھے ہوئے تھے اور ان کے مطابق وہ ان کو انجام کو پہنچا چکے ہیں اب وہ پوری طاقت کے ساتھ سندھ کے لوگوں پر اوران کی حالت زار پر بھرپور توجہ دیں گے۔بہرحال پشاور کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے میدان مار لیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کتنی متحرک ہوتی ہے سندھ میں اور کراچی میں ۔ مصطفیٰ کمال اندرون سندھ کا کامیاب دورہ کرکے آئے ہیں اور بہت زیادہ پر اعتماد نظر آتے ہیں۔

2018ء کے الیکشن کے حوالے سے مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ وہ بھرپور سیٹیں حاصل کریں گے جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ زوال کی طرف گامزن ہے اور ان کے ایم پی اے اور ایم این ایز ، پی ایس پی کی طرف آرہے ہیں، ان کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ کیونکہ وہ میئر کراچی رہ چکے ہیں اور کراچی کے سسٹم سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے وہ اور ان کی پی ایس پی یہاں کی ترقی وکامیابی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

طالب علموں اور نوجوانوں میں بھی وہ پذیرائی حاصل کر رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی سے پاک، قتل و غارت گری سے پاک سیاست کی بات کرتے ہیں۔ عملاً جس دھوم دھام سے مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھی آئے تھے دھیرے دھیرے اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ یونیورسٹیز کے ، اندرون سندھ کے، کراچی میں مختلف شعبوں کے دورے پر نظر آتے ہیں، صاف ستھری بات کرتے ہیں، انیس قائم خانی اور دوسرے ساتھی بھی لڑائی جھگڑے کی بات کے خلاف ہیں مثبت سوچ اور مثبت Behaviour ہی کی ہمیں ضرورت ہے اور اس کو ہی نافذ ہونا چاہیے، گراس روٹ کے عوام ابھی تک جذباتی طور پر ایم کیو ایم پاکستان کے لیے اپنے جذبات اور وابستگی رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، میئر کراچی بھی ان کا ہے مگر وہ صرف رونا رونے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ عملاً وہ کوئی کام کرنے پر تیار نظر نہیں آتے ہیں، ان کے مطابق میئر کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا، اگر ان کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا تو اپنے میئرشپ سے استعفیٰ دیں اور کسی اور کو کام کرنے کا موقعہ دیں، مگر ایسا بھی نظر نہیں آرہا۔

22 اگست کے بعد ایم کیو ایم اپنے آپ کو مستقل آگے بڑھانے کی طرف نظر آتی ہے، ایم کیو ایم لندن سے بالکل کٹ آف کا اعلان کرچکے ہیں، مگر حال ہی میں سلمان مجاہد نے میڈیا میں آکر ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے اور سلمان مجاہد کے کہنے کے مطابق لندن اور پاکستان کی ایم کیو ایم ملی ہوئی ہیں اور عوام کو بے وقوف بنا کر ہر طرف سے مالی فوائد حاصل کر رہی ہیں۔

ماضی میں بھی بہت کچھ ہوتا رہا ہے تو صورتحال بنتی ہے ، ہاں اب فرق یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں بھی بدل رہی ہیں ، کچھ شبہ نہیں کہ سی پیک بہت ہی بڑا منصوبہ ہے اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بہت سارے طور طریقے بھی بدل رہے ہیں اور یقینا سیاسی جماعتوں کے طور طریقے بھی بدلنے ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا بڑے اسکیل پر وہ جو کچھ کرتی رہی ہیں کیا وہ آگے آنے والے زمانے میں بھی ممکن ہوگا جب کہ اس سی پیک میں چائنا ہمارا پارٹنر ہے۔

کتنے دکھ کی بات ہے کہ 70 سال پاکستان کو ہونے کے باوجود کئی حکومتیں رہنے کے باوجود ہمارے سیاستدان سیاست کے چال چلن نہ جان سکے، اداروں کو بنا نہ سکے، قانون کو معاشرے کو، عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکے، ہاں یہ سیاستدان اپنا اپنا اسٹیٹس ضرور Maintain کرنے کے قابل ہوگئے۔

موجودہ حالات جو ہیں اس میں لگتا ایسا ہے کہ سیاست کیسے کی جائے گی ان کلاسز کا آغاز ہوچکا ہے، قتل و غارت گری، لوٹ مار، دہشت گردی یہ وہ صفحے ہیں جن کو سیاست کی کتابوں سے پھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ اب امن کی بات ہوگی، خوشی کی بات ہوگی، ترقی کی بات ہوگی اور قانون سب کے لیے برابر ہوگا، مگر ابھی تک یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اربوں لوٹے گئے پتا بھی چل گیا بندے بھی سامنے آگئے مگر ایک ٹکا تک اس ملک میں واپس نہیں آیا۔ حالانکہ جنھوں نے اربوں لوٹے وہ ان اربوں کے سود سے کتنے اربوں اور بنا چکے ہوں گے، قانون تو اونچا جب ہوگا جب یہ لوٹی گئی دولت اس غریب ملک کے خزانے میں واپس پہنچے تاکہ اس غریب ملک کے غریب عوام کے لیے فلاحی اور ترقی کے کام ہوسکیں جوکہ ہر دور میں ہونے چاہئیں۔

بے شمار مافیا کی قسمیں وجود میں آگئی ہیں انسانوں سے زیادہ حیوانی خواہشات کا دور دورہ ہے۔ اس کلچر کو بھی یہ ہماری سیاسی جماعتوں نے پروان چڑھایا، مافیاز بھی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے بنائے۔ بہرحال ایک ایک کرکے تمام چہرے سامنے آتے جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں کی سیاست سیاستدانوں کو سکھا دی جائے گی، مگر سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام کے شعور کو بھی اجاگرکرنے کی شدید ضرورت ہے۔

تعلیم و تربیت ہی واحد ایسا ذریعہ ہے جہاں ہمارے عوام اپنے طرز زندگی اور اپنی سوچ اور اپنی سوسائٹی کو اجاگر کرسکتے ہیں، یورپ اور امریکا کو خوش کرنے کے لیے کپڑوں کی مقدار کو کم کرنا مناسب نہیں بلکہ اپنی طرز زندگی میں مثبت اور انرجی لانا ضروری ہے، ہر فرقہ اپنے آپ کے لیے آزاد ہے، وہ اپنے نظریات کے تحت اپنی زندگی گزارے مگر دوسروں کو اپنے حق میں آنے کے لیے مجبور نہ کرے۔

جو اللہ پاک نے حق دیے ہیں وہ انسان کیسے چھین سکتا ہے۔ لہو کو کون روک سکتا ہے، سمندر کو کون بہنے سے روک سکتا ہے، پہاڑوں کی اونچائی کون کم کرسکتا ہے، ان کو کون ہلا سکتا ہے؟ اپنی اوقات کے مطابق ہی ہم اپنی زندگی گزار سکتے ہیں، اور سب سے زیادہ سمجھنے کے لیے یہ باتیں سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہیں۔

یہ کیا بدقسمتی نہیں کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بغیر چوں و چرا کیے ایم کیو ایم نے حکومت کی ۔ پتہ پتہ اپنی مرضی سے ہلایا، مگر اس جماعت نے کیا دیا کراچی کو؟ ہزاروں نوجوانوں کا قتل ، نفرت، قتل و غارت گری۔ اگر یہ جماعت سنجیدگی اور خیرخواہی کے ساتھ چلتی تو آج یہ سب کے سر کا تاج ہوتی، مگر ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے کے بعد بھی کراچی کو ناکام کیا جائے، کھنڈر بنایا جائے تو کس طرح قابل قبول ہو۔ پی پی پی ہر دور میں چڑھتا سورج رہی ، مگر کارکردگی صفر۔

کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ کیا اس طرح سیاست چل سکتی ہے، کیا اس طرح سیاسی جماعتیں پنپ سکتی ہیں۔ تھک ہار کر اب جو چاہے سمجھے جو چاہے کہے، مگر بہت ضروری ہے کہ سیاستدان ریڈ لائن کراس نہ کریں، ایک مثال بنیں، ایک کامیاب اسٹوری بنیں۔

عمران خان طویل جدوجہد کے بعد ایک طاقتور سیاستدان کے روپ میں نظر آتے ہیں، اپنی ایمانداری اور جذبہ حب الوطنی لے کر چل رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے ترقی کے خواب دیکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے روپ میں نظر آرہی ہے اور سیاسی پارٹیز میں بہت طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں مگر یہ لیڈر کا کام ہے کہ وہ کس طرح لے کر چلتا ہے۔

ادھر کراچی کو کھنڈر بنادیا گیا، ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ایسی قیادت کی امید ہے جو اس کو سنوار سکے۔ اگر قائد تحریک ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں خود سرینڈر ہوتے ہیں اور اپنے کارکنوں کو ایم کیو ایم پاکستان کے لیے کام کرنے اور ووٹ دینے کی منظوری دیتے ہیں تو پھر صورتحال مختلف ہوگی۔ مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پی ایس پی اپنے آپ کو عام عوام کی سوچ تک پہنچاتی ہے۔ اپنے منشور پر عمل پیرا ہوتی ہے اور خاص طور پر نوجوانوں کے لیے امید کی کرن بنتی ہے تو بھی صورتحال مختلف ہوگی۔

لازم ہے یہ تمام سیاسی جماعتیں عام آدمی تک پہنچیں، ان کی بات سنیں اور اپنے آپ کو اس عام آدمی کے ساتھ ہی لے کر چلیں، بڑے بڑے طاقتور ہمیں مٹی کا ڈھیر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، کہ یہی اللہ کا قانون ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔