فائدے سے زیادہ مصیبت بن جانے والی ٹیکنالوجی

ہمارے موجودہ معاشرے میں بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے۔


شاہد سردار October 29, 2017

ٹیکنالوجی اور جدت پسندی کے اس دور میں موبائل فون کے فوائد اور اہمیت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ موبائل فون کو عصر حاضر کی اہم ترین ٹیکنالوجی مان لیا گیا ہے اور چند دہائیوں ہی میں موبائل فون کی سہولت انسانی زندگی پر کچھ اس طرح راج کرنے لگی ہے کہ ہوا، پانی اور سانسوں کی طرح اس کی اہمیت ہوگئی ہے اور اس کے بنا ہر کس و ناکس کی زندگی ادھوری ادھوری سی محسوس ہوتی ہے۔

6 ماہ کے شیر خوار سے لے کر 60 سال تک کی جنس موبائل فون کی سہولت سے لطف اندوز ہورہی ہے، انسان کا اکیلا پن، ادھورا پن، اداسی سب کی سب اس میں موجود چیزوں نے ختم کردی ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ زیادتی کسی بھی چیز کی ہو وہ نقصان کا سبب بن جاتی ہے بالکل اسی طرح موبائل فون کے بغیر زندگی ادھوری ضرور معلوم ہوتی ہے اور اسے نعمت بھی کہاجاسکتا ہے لیکن اس کے بے جا استعمال نے اس رحمت کو زحمت میں تبدیل کردیا ہے کیونکہ ہر ٹیکنالوجی ہر عمرکے افراد کے لیے نہیں ہوتی، یہ بات اس برقی آلے پر بھی صادق آتی ہے ہم نسل نو کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرانے میں یہ تک فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جس چیز کو ہم ان کے ہاتھ میں دے رہے ہیں اس کی انھیں ضرورت ہے بھی یا نہیں۔

ہمارے موجودہ معاشرے میں بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے۔ پہلے اس کا استعمال محض چند گیمز یا جنگلی جانور دیکھنے تک محدود تھا مگر جب سے اسمارٹ فونز آئے ہیں اس سے تو پورا کمپیوٹرہی ان کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ آن لائن گیمز سے لے کر سوشل نیٹ ورکنگ اور آن لائن فلمیں دیکھنا سبھی کام اس پر ہورہے ہیں ۔ والدین کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ وہ اس بات پر بہت نازاں نظر آتے ہیں کہ ہمارا بچہ یا بچی جدید ٹیکنالوجی سے اتنی آراستہ ہے کہ اسے اپنا نام کاغذ پر لکھنا نہیں آتا مگر سیلفی بنانا اورکمپیوٹر پر گیم چلانا خوب آتا ہے۔

آج کل والدین یہ سوچ کر پنے بچے بچیوں کو موبائل فون خرید کر دیتے ہیں کہ اسکول،کالج، یونیورسٹی یا ٹیوشن میں وہ گھر والوں سے رابطے میں رہیںگے (جو بڑی حد تک درست بھی ہے) لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فائدے سے زیادہ مصیبت بن گئی ہے۔ جہاں ہمارے ملک کو معیشت کی مد میں موبائل فون صارفین کی بھاری تعداد سے فائدہ پہنچا ہے وہی اسٹریٹ کرائمز میں بھی اس وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوا جن میں موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ گھر کے گھر موبائل فون چھیننے کے معاملے میں مزاحمت پر اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے۔

چوری، ڈکیتی، تخریب کاری یا دہشت گردی کو فروغ اسی ٹیکنالوجی سے ملا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ موبائل فون کے بے جا استعمال نے ہماری نئی نسل کو بطور خاص تہذیب، تمیز اور ادب آداب سے کوسوں دور کردیا ہے۔نہ بات کرنے کا سلیقہ ان میں رہا ہے اور نہ ہی اپنے بڑوں کا لحاظ باقی بچا ہے۔ ویسے بھی جب بے ادبی کی شکایت عام ہوجائے تو ادب کرنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔

مساجد میں موبائل فون کے استعمال اور اس کی آواز کو بند رکھنے کی ہدایت واضح درج ہوتی ہے۔ ہر نماز شروع کرنے سے قبل امم مسجد موبائل فون بند کرنے کی تاکید کرتے ہیں لیکن موبائل کی رنگ ٹیون یا سستے گانوں کی طرز ضرور سنائی دیتی ہے اس وجہ سے مسجد اور عبادت کا تقدس و احترام جس طرح پامال ہورہاہے یہ کہنے سے زیادہ محسوس کرنے کی بات ہے کیونکہ کچھ باتیں کہنے، سننے کی نہیں صرف سمجھنے کی ہوتی ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں سوشل میڈیا کے بے مہار ہوجانے کے بعد سیاسی عدم استحکام، تہذیبی تنزلی، اخلاقی پستی، معاشرتی بے حسی اور سماجی افرا تفری میں یقینی طورپر بے پایاں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے اور ہم انفرادی و اجتماعی طور پر سماجی اقدار، ادبی شغف، شوقِ فنون، اخلاقی بلندی اور انسانی مقام سے بے بہرہ ہوکر سنسنی، افواہ گیری، پر تشدد رویوں، عدم برداشت اور غیر اخلاقی کلچر میں رچ بس گئے ہیں۔ سب سے بڑی تونگری عقل کی دانائی اور حماقت سے بڑھ کر کوئی مفلسی نہیں ہوتی، افسوس ہم میں سے کسی کے پاس تونگری تو نہیں بچی البتہ مفلسی سے ہم سب مالا مال ہیں۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اسمارٹ فون، فیس بک، آئی پیڈ، موبائل کے حد درجہ استعمال نے ہمارے نونہالوں (نئی پود) کی آنکھیں خراب کردی ہیں اور انھیں موٹے موٹے ہندسوں کی عینک لگ گئی ہیں اور یہ سوشل میڈیا جنریشن کسی کے کہنے میں نہیں آرہی اور اپنے آپ کو تباہ و برباد کررہی ہے، سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں بے اختیار لوگوں کو جہاں با اختیار بنادیا ہے اور بے آوازوں کو آواز دے دی ہے لیکن اس اختیار، اور طاقت نے عوام الناس کی اصلیت بھی بے نقاب کردی ہے۔

ایک طرف کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی بہتات ہے جو سوشل میڈیا کو صرف گالی گلوچ، فحاشی، بے راہ روی اور نفرتیں پھیلانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ جس کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب سوشل میڈیا پر سامنے آجاتا ہے۔ لہٰذا اپنے اندر موجود گندگی کو بے شناخت رکھنے والے اکثر بد تمیز اور چھوٹے لوگ سوشل میڈیا پر اپنا اصل نام اور اصلی شکل چھپائے رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور ریگولر میڈیا کا یہ وہ فرق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا یہ کڑوی سچائی بھی اپنی جگہ عیاں ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک دنیا کو جہاں جوڑ رہا ہے وہیں توڑ بھی رہا ہے اور یہ مسلمہ امر بھی ہے کہ فیس بک فرینڈز اسکول، کالج، یونیورسٹی، کوچنگ، گلی محلے اور لائبریریوں کے دوستوں کا متبادل ہرگز نہیں بن سکتا اور یوٹیوب اور گوگل کاغذ کی کتابوں اور اخباروں کی جگہ کبھی نہیں لے سکتے سوشل میڈیا کا بے محابہ استعمال یا کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کا حد درجہ استعمال انسانوں کو اندھا اور معذور بنارہاہے اور وقت کی سچائی کو اب بھی سمجھ لینا چاہیے کہ سوشل میڈیا نے جو اختیار اور طاقت ہمیں دی ہے یہ طاقت ہماری سماعت اور ہماری بصارت دونوں کے لیے شدید خطرہ ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے معروف شاہراہوں پر ٹریفک حادثات میں اضافے کا سبب بھی ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا کثرت سے استعمال ہے لیکن اس طرف بھی کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ اس چھوٹے سے آلے نے بچے، بوڑھے، جوان، لڑکا، لڑکی، ہر کس و ناکس کے خیالات و اظہار، معاملات، ذہن، قلب اور سکون سب پر برے اثرات مرتب کر چھوڑے ہیں، نوجوان نسل رات گئے تک فون پر مصروف نظر آتی ہے جس کا منفی اثر ان کی صحت اور تعلیم پر پڑ رہا ہے موبائل فون کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے نوجوان نسل ذہنی دباؤ، پریشانی، ڈپریشن، نظر کی کمزوری، سماعت کی خرابی اور سر درد سمیت دیگر بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہوچکی ہے، تعلیمی اداروں میں بھی اور سرکاری اداروں میں بھی اکثر لوگ ایس ایم ایس، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے، گیم کھیل کر یا گانے سن اور دیکھ کر اپنا وقت تمام کررہے ہوتے ہیں۔ معدودے چند لوگ موبائل فون یا سوشل میڈیا کو سدھار، تعمیر، فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے ہیں مثلاً تعلیمی نوٹس وغیرہ کے اسکرین شاٹس لے کر شیئر کرنا، سوشل نیٹ ورک پر مختلف گروپس بناکر اس میں اساتذہ کو بھی شامل کرلینا تاکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی ان سے مدد لی جاسکے۔ لیکن ایسے لوگوں کی اکثریت ہیں آٹے میں نمک کے برابر ان کی مقدار ہے۔

افسوس ہم اپنی اصل شناخت کہیں کھو بیٹھے ہیں، وہ شناخت جو زندگی گزارنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوسروں کی روایات کو اپناتے اپناتے ان کے رسوم و رواج کی پیروی کرتے کرتے ہم اپنی اقدار، اپنے آباؤ اجداد کی پہچان سے بہت دور آگئے ہیں اور یہی چیز ہمارے زوال، ہماری پستی کی وجہ بھی بن رہا ہے۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہ دور ہے جب قلم کی طاقت کمزور پڑچکی ہے مگر یہ سوچ کر کہ اس سے اہل قلم کی ذمے داری کم یا ختم نہیں ہوجاتی اس جہاد بالقلم میں ہم اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، اﷲ ہم سب کو ہدایت کی روشنی عطا فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں