خوابوں کا تعاقب

’’خواب گر‘‘ کے صفحوں پر ایک ایسا سماج سانس لیتا ہے، جس کی رگوں میں روا داری اور مروت لہوکی طرح دوڑتی تھی۔


Zahida Hina October 29, 2017
[email protected]

بہت پرانی بات ہے جب کسی کی زبان سے لفظ ''مفلسا بیگ'' سنا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا تھا کہ یہ انتہائی مفلس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ شعر بھی زباں زدِ عام تھا کہ مفلسی ایسی مجھ پہ چھائی ہے/ سر پہ ٹوپی بھی تو پرائی ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کسی کے لباس میں پیوند ہو، شیروانی گھس گئی ہو اور چہرے پر فاقے کی تحریر ہو تو اسے پاس بٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔

شیخ سعدی کا وہ قصہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ جب وہ ایک دعوت میں بلائے گئے اور وہاں پہنچے تو بدن پر لباس معمولی تھا۔ ملازموں نے انھیں جوتیوں میں بٹھایا۔ وہ چپکے سے اٹھے، گھرگئے، لباسِ فاخرہ زیب تن کیا اور واپس آئے تو نہایت احترام کے ساتھ میزبان کی مسند کے برابر بٹھائے گئے۔ میزبان نے انھیں کھانے کی دعوت دی، حضرت سعدی نے شوربہ اپنی آستین میں انڈیلا اور پلاؤ اپنے دامن پر بچھایا۔ سب لوگ ششدر رہ گئے۔

میزبان نے کہا ''شیخ صاحب! یہ آپ کیا کرتے ہیں؟'' شیخ سعدی نے چیں بہ جبیں ہوکر پوچھا''تو اور کیا کروں؟ کچھ دیر پہلے آپ کی دعوت پر حاضر ہوا تھا۔ ملازموں نے جوتیوں میں بٹھایا۔ اب قیمتی لباس میں آیا ہوں تو صدر نشین میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ میں یہی سمجھا کہ دعوت مجھے نہیں، میرے لباس کو دی گئی تھی''ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں جن میں مفلسی کو بیان کیا گیا ہے۔ 'بھوک' پر جاوید اختر کی نظم کا یہ مصرعہ کیسے بھلا دیا جائے جب کئی دن کے فاقے کاٹنے والا بے اختیار یہ کہتا ہے کہ ''آسماں کی تھالی میں چاند ایک روٹی ہے۔''

اس پس منظر میں دیکھیے تو الطاف فاطمہ کے ناول ''خواب گر'' کے سادہ و معصوم کردار یاد آتے ہیں، جو تبت کے اس علاقے میں رہتے ہیں جو تبت خورد (چھوٹا تبت) کہلاتا ہے۔ تبت، دنیا کی چھت اور اس کے سائے میں تبت خورد جہاں کے ایمان دار اور دیانتدار لوگ اپنی زندگیاں سلسلہ ''کوہ ہمالہ'' اور قراقرم جیسے بلند پہاڑوں کی آغوش سے نکل کر نیچے پھیلی ہوئی وادیوں میں رزقِ حلال کمانے اترتے ہیں۔ یہ تبت خورد کے ان لوگوں کی کہانی ہے جو بدترین مفلسی جھیلتے ہیں لیکن یہ مفلسی ان کے وجود کو زنگ بن کر نہیں کھاتی۔ بھوک اور احتیاج کے سامنے ان کے وقار کا یہ عالم ہے کہ میدانوں میں رہنے والے انھیں اپنے گھروں کی خدمت گزاری کے لیے منتخب کرتے ہیں، وہ اپنی چابیاں اور پہرے داریاں انھیں سونپ کر مگن ہوجاتے ہیں۔

بیرا گیری، گھروں کی خدمت گاری، پہاڑی علاقوں کے باغوں کی رکھوالی، بیکری اور تندور پر کام کرنے والے یہ دیانت دار لوگ جو لقمۂ حلال کی تلاش میں پہاڑوں پر بنے ہوئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر میدانوں کا رخ کرتے ہیں اور برسوں اپنے پیاروں کی دید سے محروم رہتے ہیں۔ خود بھوکے سوجاتے ہیں لیکن اپنے گھر والوں کے لیے پیسہ پیسہ جوڑتے ہیں۔ ان کی غربت نہیں، ان کا قریبی رشتوں سے دور رہنا، ان کی زندگیوں میں زہرگھول دیتا ہے۔ یہ محرومی رشتوں اور خاندانوں میں بگاڑ پیدا کرتی ہے، جیب کے مفلس اور دل کے سخی لوگوں کا قصہ الطاف فاطمہ نے بہت درد مندی سے لکھا ہے۔

الطاف فاطمہ کا ناول''خواب گر'' اپنے مرکزی کردار،ابراہیم کے ایک خواب سے شروع ہوتا ہے جو اس نے تبت خورد کی رات کو دیکھا تھا۔ وہ رات جو اس کی زندگی میں برف اورکُہرکا دوشالہ اوڑھے ہوئے آئی تھی اور اسے بے قرارکر گئی تھی۔ یہ خواب عمر بھر اس کا پیچھا کرتا رہا۔

یہ ناول، تبت خورد سے شروع ہوکر شملہ، انبالہ، سرینگر اور لاہور سے گزرتا ہوا، کئی دہائیوں بعد اسکردو کے ائیرپورٹ پر ختم ہوتا ہے۔ اس مرتبہ مسافر وہ نہیں، اس کا بیٹا ہے جو ایک مصورہ کی مہربانی سے تعلیم کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور ڈاکٹر بن کر اپنے گھر لوٹتا ہے۔ باپ اور دادا نے علم کی روشنی کا خواب دیکھا تھا، اب اسماعیل اس خواب کو تعبیر دینے آیا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی محنت اور مشقت سے کشید ہونے والے نئے شہر، نئی بستیاں جو پرانی بستیوں کی کوکھ سے پھوٹیں اور جن میں رہنے والوں نے گزری ہوئی نسلوں کے خواب، اپنی آنے والی نسلوں کی آنکھوں میں رکھ دیئے۔ یہ مفلسی کو شکست دینے اور شاندار خوابوں کے تعاقب کا قصہ ہے جو انسانوں کو اور ان کی نئی نسلوں کو اگلی منزلوں تک لے جاتا ہے۔ اگلی منزلیں جو دکھ اور سکھ کی پگڈنڈیوں سے پرے ہوتی ہیں۔

یہ ناول ہمیں ان جھیلوں، دریاؤں، پہاڑوں اور وادیوں کی سیر کراتا ہے جن کے رنگ ہمیں حیران کردیتے ہیں۔ ہم نے انھیں نہیں دیکھا لیکن الطاف فاطمہ کا جادو نگار قلم انھیں ہماری آنکھوں میں زندہ کردیتا ہے۔ وہ ہمیں صرف ابراہیم اور اس کے خاندان سے ہی نہیں، فریڈرک ہسٹن سے بھی روبرو کرتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان انگریزکے زیر نگیں تھا۔ اس زمانے میں بہت سے انگریزوں کا یہی کام تھا کہ وہ تبت، تبت خورد، ہنزہ، گلگت اور ایسے ہی دور دراز علاقوں میں تنہا پھریں اور علاقے کے جغرافیے کے علاوہ وہاں رہنے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کریں۔ پشتو، بلتی، دوسری مقامی زبانوں کے ساتھ ہی اردو سیکھیں اور بولیں۔ الطاف فاطمہ کا انگریز کردار جھیل ست پڑا، راکا پوشی اور دوسرے علاقوں سے گزر چکا ہے۔ ان کے بارے میں باریک بینی سے جانتا ہے۔ ایسے ہی تنہا سفر میں اس کی ملاقات ایک بلتی مسلمان سے ہوتی ہے۔ ایک مسلمان، ایک عیسائی۔ ایک معمولی بلتی محنت کش، دوسرا انگریز افسر اعلیٰ، دونوں ان بلند و بالا پہاڑوں میں تنہا سفر کررہے ہیں۔ ایک دوسرے سے محض اتفاقاً ملتے ہیں اور وہ جانے کیسی گھڑی ہے کہ ایک دوسرے پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے سینوں میں بے وفائی کا خنجر اترا ہوا ہے، ان کی محبوب بیویوں نے ان سے منہ موڑ لیا ہے، اپنے بچے چھوڑ گئی ہیں اور دونوں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے مضطرب ہیں۔

اس ناول کے صفحوں پر ایک ہی سماج کے دو چہرے نظر آتے ہیں۔ ایک آسودہ حال اور جما جمایا فوجی خاندان ہے جہاں ہر چیز کی فراوانی ہے اور دوسرے وہ بلتستانی ہیں جو مفلسی اور ناداری سے مقابلہ نہایت وقار کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے سائے میں سانس لینے والی ساعتوں کا قصہ ہے، بہت پرانی بات نہیں۔اس کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی اور صدی کا معاملہ ہے۔

''خواب گر'' کے صفحوں پر ایک ایسا سماج سانس لیتا ہے، جس کی رگوں میں روا داری اور مروت لہوکی طرح دوڑتی تھی۔ اس سماج میں رہنے والے مسلمان، ہندو،کرسچن اور سکھ ایک دوسرے کے مذہب، مسلک، رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کا احترام کرتے تھے۔ اب ہمارے چاروں طرف، چہروں پر انسانوں کے مکھوٹے چڑھائے ہوئے بھیڑیے گھومتے ہیں۔ ہر طرف کفر کے فتوے ہیں اور انسان نفرت کے خنجر سے ذبح کیے جارہے ہیں ۔

وہ ہمیں 60ء کی دہائی میں لے جاتی ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں انتشار ہے۔ ہر طرف 'زندہ باد' 'مردہ باد' کے نعرے ہیں۔ کچھ پیٹ بھرے لوگ ہیں جو گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔ اعلیٰ ہوٹلوں میں صبح و شام گزارتے ہیں۔ بے فکر، بے غم، ایسے میں ایک غریب اور ان پڑھ بلتستانی ہے جو آزادی سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ''اس سے پہلے ہماری زندگی کیا تھی؟ لدو جانوروں اور خچروں کی زندگی۔ اپنے ملک کے یاخ سے بھی بدتر کہ آخر وہ اپنی بستیوں کو دودھ تو دیتا ہے اور ہمارا لوگ برسوں نیچے محنت کرکے بھی اپنے وطن تو وطن، بال بچوں کو بھی کیا دیتا تھا۔ ہمارے بڑے ان ہی جیسے لوگوں کے ہاتھوں اپنی وفائیں اور خدمات پیش کرکے کیا صلہ پاتے تھے؟ وہی غربت، جہالت، بیماری اور بے کسی۔ اس سے پہلے تو ہم کو نمک تک میسر نہ ہوتا تھا۔ کتنے ہی لوگ بغیر نمک کے کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے تھے۔''

اس قصے میں نمک کا قصہ بھی گندھا ہوا ہے۔ نمک جو ہمارے یہاں ہر کھانے کا جزوِ لازم ہے، جس کے بغیر کھانوں کا کوئی تصور ہی نہیں۔ وہی نمک بیس بائیس ہزارکی بلندیوں پر زندگی کرنے والوں کے لیے ایک ایسی نعمت تھی جس کے وہ خواب دیکھتے تھے۔ کوئی بیمار ہو تو اس کے منہ میں نمک کی ڈلی رکھ دیتے اورکسی کا دم لبوں پر ہو، تب بھی نمک کی چھوٹی سی ڈلی اس کی مشکل آسان کرتی تھی ۔ ہمارے لیے یہ ناقابل یقین بات ہے لیکن الطاف فاطمہ اسے ہمارے لیے قابل یقین بناتی ہیں۔ نمک کی اس اہمیت اور حیثیت کا اندازہ پہلی مرتبہ کرشن چندرکی ایک کہانی سے ہوا تھا جس میں ان کا ہیرو اس لیے قتل کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے سینے سے لگا کر نمک کا ایک ڈلا لے کر جارہا ہے۔

الطاف فاطمہ ایک بڑی تخلیق کار ہیں۔ وہ 1927ء کے لکھنؤ میں پیدا ہوئیں، 1947ء میں لاہور آئیں اور پھر یہیں کی ہو رہیں۔ اس سال وہ 90 برس کی ہوگئیں۔ انھیں سالگرہ مبارک ہو اور ان کے کردار خوابوں کا تعاقب کرتے رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں