طالبان سے مذاکرات…دوسرا رخ
ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں۔
ISLAMABAD:
اے این پی کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی آل پارٹیز کانفرنس نے بھی کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر دی ہے۔ اب توگورنرہاوس پشاور میں امن مذاکرات کے لیے رابطہ دفتر بھی قائم ہو گیا ہے، قبائلی گرینڈ جرگہ یا قبائلی مہا پنچایت طالبان سے مذاکرات کرے گا۔ طالبان کے امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں آل پارٹیز کانفرنسیں اچانک نہیں ہوئیں بلکہ خاصے عرصے سے اس پر کام ہو رہا تھا۔ اے این پی کی کوشش تھی کہ مسلم لیگ ن اس کی کانفرنس میں لازمی شریک ہو۔ اے این پی کی کانفرنس سے پہلے کالعدم تحریک طالبان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں پیشکش کی گئی تھی کہ اگر میاں نواز شریف' مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن ضامن ہوں تو وہ حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
یہ تینوں سیاستدان ضامن تو نہیں بنے لیکن انھوں نے اے این پی اور پھر جے یو آئی کی آل پارٹیز کانفرنسوں میں شرکت کی اور طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر دی۔ عجیب بات یہ تھی کہ حکومت میں شامل تمام پارٹیاں دونوں کانفرنسوں میں شریک تھیں' پھر یہ کس حکومت سے اپیل کر رہی تھیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرے؟ یہ ایسا ابہام تھا جس کے بارے میں سب کو پتہ تھا کہ وہ کسے مخاطب کر رہی ہیں لیکن کھل کر بات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا' یہ ابہام بھی بالآخر طالبان نے ہی دور کر دیا' طالبان نے اگلے روز کہا ہے کہ پاکستان میں فوج ہی طاقت کا محور ہے' اس کے بغیر مذاکرات ادھورے ہوں گے' پاکستانی فوج کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت کا انتظار ہے۔ اصل معاملہ یہی تھا' جب تک اس معاملے میں پاک فوج کی تائید حمایت نہیں ہوگی' یہ مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے۔ فوج کا اس بارے میں کیا موقف ہے، اس کے بارے میں تو وہی وضاحت کر سکتی ہے۔
ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس میں دائیں یا بائیں بازو کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ البتہ دانشور طبقے میں اختلاف رائے ہے۔ لبرل حضرات طالبان سے مذاکرات کرنے کی باتوں کو ریاست کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان پہلے آئین پاکستان کو تسلیم کرنے اور ہتھیار پھینکنے کا اعلان کریں، اس کے بعد ان سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ دائیں بازو کے دانشوروں کا موقف وہی ہے جس کا اعادہ اے این پی اور جے یو آئی کے زیر اہتمام ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسوں کے شرکاء نے کیا۔ تحریک طالبان کا ایجنڈا بھی سب کے سامنے آ چکا ہے۔
مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے' انھوں نے جن نظریات و اہداف کا اظہار کیا ہے' وہ پاکستان کے آئین اور اس کے ریاستی مفادات سے متصادم ہیں۔ ایک ایسی جنگجو تنظیم جو القاعدہ اور افغان طالبان کے زیر اثر ہو' انھیں اپنا رہبر سمجھتی ہو، اس کے ساتھ مذاکرات کرنا یا اسے پاکستان کی مین اسٹریم میں شامل کرنا' امریکا اور مغربی ممالک کی مخالفت مول لینے کا سبب ہے۔ ایرانی بھی شاید اس صورت حال سے خوش نہ ہوں۔ ایسا ممکن نہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والی سیاسی شخصیات کو حالات کی نزاکت کا علم نہ ہو' یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ فوج اس صورت حال پر نظر نہ رکھ رہی ہو۔ امریکا اور یورپ بھی لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ یوں یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں جتنا اسے دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ذرا چند برس پہلے سوات کے منظر نامے کو ذہن کی اسکرین پر لائیں۔ یہاں مولوی فضل اﷲ اور ان کے ساتھیوں نے ادھم مچا رکھا تھا۔ طالبان کا مطالبہ شریعت نافذ کرنے کا تھا۔ اس وقت بھی اے این پی، مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی، پھر مذاکرات ہوئے، تحریک شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے، قومی اسمبلی نے اس معاہدے کی منظوری دے دی لیکن اصل طاقت مولوی فضل اللہ کے پاس تھی' انھوں نے اس علاقے میں حکومت کے بجائے اپنی رٹ قائم کر لی اور سوات کے علاوہ دیگر علاقوں پر بھی چڑھائی کر دی، پھر اسی قومی اسمبلی نے وہاں فوجی آپریشن کی منظوری دے دی جس نے شریعت نافذ کرنے کی منظوری دی تھی' اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوات میں فوجی آپریشن پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو گئیں اور ملک سے ایک آواز بھی اس آپریشن کے خلاف نہیں اٹھی۔ فوج نے سوات سے طالبان کا صفایا کر دیا۔
طالبان سے مذاکرات کی حالیہ پیش رفت کے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ کالعدم تحریک طالبان نے اپنے بے لچک رویے پر اصرار جاری رکھا تو اسے جو سیاسی حمایت ملی ہے' یہ ختم ہو جائے گی۔ ایک دو کو چھوڑ کر ملک کی کوئی سیاسی جماعت طالبان کے سیاسی ایجنڈے کو قبول نہیں کرسکتی۔ میرے خیال میں ملک کی سیاسی جماعتوں نے اچھی اسٹرٹیجک موو کی ہے' بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ الیکشن کو پر امن بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کی چال ہے' ممکن ہے' ایسا ہو' لیکن اس کا دوسرا رخ زیادہ روشن ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے پاس یہ آخری موقع ہے۔
انھیں یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ افغان طالبان اور القاعدہ کے اپنے اپنے مفادات اور اہداف ہیں۔ کئی افغان طالبان کابل میں پر امن زندگی گزار رہے ہیں، ان میں ملا ضعیف بھی شامل ہیں جو پاکستان میں طالبان کے سفیر کے طور پر متعین تھے۔ افغان طالبان کا ایک مضبوط دھڑا امریکا سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت مذاکرات کر رہا ہے۔ یہ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو افغانطالبان القاعدہ سے راستہ الگ کر لیں گے اور افغانستان کے اقتدار میں حصہ دار بن جائیں گے' پاکستانی طالبان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا' وہ زیادہ سے زیادہ افغان طالبان کے ایجنٹ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ القاعدہ بھی یمن اور افریقہ کے مسلم ممالک میں چلی گئی ہے۔ القاعدہ کے لیے بھی پاکستانی طالبان محض آلہ کار ہی بن سکیں گے۔
کالعدم تحریک طالبان کے لیے یہ تاریخی موقع ہے کہ وہ خود کو اپنے ملک کے مفادات سے ہم آہنگ کریں' اس کے لیے سیاسی زیرکی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اگر انھوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوات کے طالبان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی تو پھر آل پارٹیز کانفرنس میں شریک بیشتر سیاسی جماعتیں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا متفقہ مطالبہ کریں گی، سوات کا منظر دوبارہ ابھرے گا۔ جنوبی وزیرستان کے بچے کچھے حصے اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو گا اور پورا ملک اس کی حمایت کرے گا۔