ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں
دونوں کام یعنی مشاعرہ اور فروغ تعلیم کے لیے فنڈ ریزنگ ایک ساتھ ہوجاتے ہیں۔
25 اکتوبر سے 7 نومبر تک مجھے سکینڈے نیویا اور یورپ میں پانچ پروگراموں میں حاضری دینی ہے۔ سلسلہ اب بھی انھی چیریٹی مشاعروں کا ہے جن کی معرفت گزشتہ پانچ برس سے ہم وطن عزیز میں تعلیم کے فروغ اور عام آدمی تک اس کی رسائی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کے لیے اپنی سی کوشش کررہے ہیں کہ مشاعرے کی محفل کے بہانے بیرون وطن مقیم پاکستانی کمیونٹی مقامی تنظیموں کے تعاون سے کہیں نہ کہیں مل بیٹھتی ہے اور یوں دونوں کام یعنی مشاعرہ اور فروغ تعلیم کے لیے فنڈ ریزنگ ایک ساتھ ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کا آغاز الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے موجودہ صدر میاں عبدالشکور کی الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے ایک پروگرام سے ہوا تھا جس سے میرا تعارف برادرم جاوید چوہدری کے ایک کالم کے ذریعے ہوا تھا اور تب سے اب تک یہ تعلق خاطر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
الفلاح اور الخدمت کے مشترکہ احباب میں برادران وقاص انجم جعفری اور عامر محمود جعفری بھی تھے جو بالترتیب دارارقم اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی انتظامیہ سے متعلق ہیں کہ خدمت خلق اور بالخصوص تعلیم کا شعبہ ان سب دوستوں کا Passion ہے۔
اب یہ حسن اتفاق ہے کہ اس کے ڈانڈے ان کے Profession سے بھی مل گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ سارا معاملہ ایک بابرکت قسم کی تحریک میں ڈھل گیا ہے جس کے ایک حصے میں مجھے انور مسعود، خالد مسعود، اوریا مقبول جان اور کچھ اور لکھاری دوستوں کو بھی شامل ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ سفر کی طوالت، تھکان، میری معمول کی مصروفیات اور کمٹ منٹس کی وجہ سے ایک سال میں کسی ایک غیر ملکی دورے کی حد تک تو خیر تھی مگر اس سے زیادہ کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے جب کہ ہماری کمیونٹی کے ایسے مراکز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جہاں اس طرح کی فنڈریزنگ اور شعری محافل کامیاب ہوسکتی ہیں، سو اب صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات ایک برس میں تین تین بار بھی جانا پڑتا ہے۔
بالخصوص موجودہ برس یعنی 2017ء تو بہت ہی اوور لوڈ ہوگیا ہے کہ یہ حالیہ سفر جنوری سے اب تک دس مہینوں کا چوتھا دورہ ہوگا جب کہ اس دوران میں چار اضافی پروگراموں کے لیے انگلینڈ، ڈنمارک، سویڈن، دوبئی اور بحرین کے چکر بھی لگ چکے ہیں۔
GET یعنی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام کینیڈا (سات شہر) امریکا (نوشہر) کے بعد یہ حالیہ دورہ ناروے، ڈنمارک، اسپین اور فرانس (پانچ شہر) پر مشتمل ہوگا۔ اب ذرا اندازہ کیجیے کہ کل ملا کر آٹھ ہفتوں کے دوران 21مختلف شہروں میں آنا جانا تمام تر سفری سہولتوں اور عمدہ رہائشی انتظامات کے باوجود کس قدر مشکل اور صبر طلب ہوتا ہے۔گزشتہ ماہ کے امریکی دورے کے تین مسافروں یعنی انور مسعود، وقاص جعفری اور راقم میں سے اس سفر میں بقیہ دونوں ساتھی بدل تو گئے ہیں (کہ اب شاعری کے حوالے سے انور مسعود کی جگہ خالد مسعود خان اور وقاص انجم جعفری کی جگہ ان کے برادر خورد عامر محمود جعفری میرے ہم سفر ہوں گے) لیکن اس تبدیلی کے باوجود دونوں ناموں میں ''مسعود'' اور ''جعفری''' کی نسبت اب بھی موجود ہے۔
پروگرام کے مطابق میں اور خالد مسعود پی آئی اے کی پرواز سے اور عامر ٹرکش ایئرلائنز سے کم و بیش ایک ہی دن میں سفر کرتے ہوئے ایک گھنٹے کے فرق سے اوسلو ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے جس کی وجہ یہ بنی کہ عامر جعفری کو واپسی پر کچھ دن ترکی رکنا ہے اور انھوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ہمیں خوامخواہ براستہ استنبول لے جاکر پانچ چھ گھنٹے کا اضافی سفر کروائیں۔ ان کی اس محبت اور احتیاط پسندی پر روحی کنجاہی کا مشہور عام مصرعہ پھر سے یاد آرہا ہے کہ ''حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی''
اوسلو میں ایک دن قیام کے بعد ناروے کے خوبصورت ساحلی شہر ستوانگر کا سفر درپیش ہوگا جہاں چند برس پہلے بھی ایک بار جانا ہوچکا ہے جس کی ایک یاد تو نوجوان ڈاکٹر نوخیز سے ملاقات بھی ہے کہ یہ محبتی نوجوان تب سے اب تک مجھ سے رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ وہاں سے گزشتہ روز یعنی ہفتے کے دن اوسلو میں پروگرام ہوگا اور پھر صبح ہی صبح کوپن ہیگن کی فلائٹ پکڑیں گے کہ وہاں اسی شام میں تقریب کا انعقاد ہوگا۔
عامر جعفری نے اگلے دو دن کوپن ہیگن کی سیاحت اور بذریعہ کروز ایک مختصر سمندری سفر کے لیے وقف کررکھے ہیں۔ کوپن ہیگن سے اسپین کے شہر مالاگا جائیں گے جس کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ نہ صرف اگلے پروگرام کے مقام قرطبہ سے نزدیک ترین ہے بلکہ یہاں سے غرناطہ کی زمینی مسافت بھی صرف دو گھنٹے کی ہے جہاں سے مسلمانوں کو نکلے ہوئے تو پانچ سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر تاریخی اور نفسیاتی حوالے سے ہمارے لیے ہسپانیہ عرف اسپین اب بھی انھی دو شہروں سے عبارت ہے۔
پانچ نومبر کی صبح پیرس میں دیکھی جائے گی، جہاں اسی شام کو پروگرام اور اگلے دن سہ پہر کو سفارت خانہ پاکستان میں محترم سفیر صاحب کی طرف سے ایک استقبالیہ دعوت ہے۔ توقع ہے کہ بیشتر دوستوں سے دونوں جگہ ملاقات ہوجائے گی۔ چند برس قبل پیرس کے تیسرے سفر کے دوران بھتیجی مہرین ذاکر اور اس کے سسرال والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا تو تہذیبی اعتبار سے دنیا کے اس منتخب شہر کے اصل حسن کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور معلوم ہوا کہ موماخت، لوور، شانزے لیزے اور ایفل ٹاور کے علاوہ بھی پیرس، پیرس ہی ہے۔
اس بار عزیزی ایاز محمود ایاز نے وہاں کے ادبی حوالے سے کچھ تاریخی مقامات کی سیر کرانے کی دعوت دی ہے۔ اب دیکھیے اس کے لیے وقت نکل پاتا ہے کہ نہیں کہ سات نومبر کی شام کی فلائٹ سے گھر کو بھی لوٹنا ہے۔ انشاء اللہ حسب سابق اس سفر میں بھی آپ سب میرے ہم سفر رہیں گے۔