لمحہ فکریہ
آج کل کرپشن پربہت زیادہ بحث ہے۔ ہر وقت ماہرین اوراکابرین اس پرمباحثہ کرتے ہوئے نظر آئینگے۔
تاریخی لوریاں اورملکی حالات پرمرثیہ گوئی سے بہت بہتر ہے کہ ہم سوچیں،تدبرکریں۔پتہ چلائیں کہ ملکی اور اجتماعی طورپرہمیں کس عفریت نے جکڑلیاہے کہ ہرشعبہ منجمد ہوچکاہے۔تنزلی کالفظ استعمال نہیں کرناچاہتا۔اسلیے کہ یہ لفظ ہمارے عظیم ملک میں اپنے معنی کھوچکاہے۔
کوئی ایک پیمانہ لے لیجیے۔اس پرتعصب کے بغیر تحقیق کیجیے۔معاملات سمجھ آنے شروع ہوجائینگے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان اورہم ایک ساتھ آزادہوئے مگرتمام کمزوریوں کے باوجودوہ ملک بھرپورترقی کررہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہمسایہ ملک کی ترقی کی شرح سات فیصد ہے۔صنعتی ترقی کوجانے دیجیے۔کیونکہ ہمارے دماغوں میں بٹھا دیاگیاہے کہ بنیابہت عمدہ ساہوکارہے۔عیارمہاجن بھی ہے اورقرض خوربھی۔یہ وہ عامیانہ خیالات ہیں جوہمیں بچپن سے بتائے جارہے ہیں۔مگرلفظوں کی جنگ بے معنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اس وقت صنعتی ترقی کی دوڑپر سرپٹ دوڑرہاہے۔تھوڑاساہٹ کرایک اورسمت کی طرف دیکھیے۔گزشتہ ڈیڑھ دوسالوں میں دنیاکاکوئی ایک ملک نہیں،جسکاصدریاوزیراعظم انڈیانہ آیاہو۔اس میں یورپ سے لے کرافریقہ اوروسطی امریکا سے لے کرایشیاء کاہرقابل ذکر لیڈرشامل ہے۔جاپان کے وزیراعظم سے لے کر کینیا کا صدر اوراسرائیل سے لے کریواے ای کاولی عہد،سب فرداًفرداًاس ملک میں آئے ہیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ ان میں سوائے ترکی کے صدرکے ایک بھی رہنماپاکستان نہیں آیا۔ شائد پوری دنیاکے ہمارے متعلق شدیدتحفظات ہیں۔
تھوڑی دیر کے لیے ہمسایہ ملک کورہنے دیجیے۔بنگلادیش توہمارے ملک کاہی حصہ تھا۔وجود میں آنے پراس کی صنعتی ترقی کی شرح انتہائی معمولی تھی۔قابل ذکرتک نہیں تھی۔آج اس کی ترقی کی شرح7.11فیصدہے۔یعنی یہ غیرمعمولی ہدف ہے جسے بنگلہ دیش جیسے نوزائیدہ ملک نے بھی اپنی مشکلات کے باوجودحاصل کیاہے۔اس کے بالکل برعکس بائیس کروڑ کا ہمارا ملک تین فیصدسے پانچ فیصدترقی کے ہدف پرلڑکھڑاکرچل رہا ہے۔دوڑنے کاتوخیرسوال ہی نہیں ہے۔
ٹھنڈے دل سے سوچیے توہمارے جمودکی بہت سے وجوہات ہیں۔آج کل کرپشن پربہت زیادہ بحث ہے۔ ہر وقت ماہرین اوراکابرین اس پرمباحثہ کرتے ہوئے نظر آئینگے۔باتیں سن سن کرطبیعت اُکتاجاتی ہے۔درست ہے کہ کرپشن بہت ہے۔مگرکرپشن توہندوستان اوربنگلہ دیش میں بھی ہے۔پھروہاں ترقی کیوں ہورہی ہے۔ہوسکتاہے کہ آپ کواچھانہ لگے۔مگرپاکستان جیساملک توچل ہی کرپشن پررہاہے۔بلیک اکانومی ہمارے ملک کی اصل معیشت ہے۔باقی وعظ اورنصیحتیں ہیں۔جن پرکوئی بھی عمل کرنے کے لیے تیارنہیں۔وزیراعظم اوروزیرخزانہ تک نہیں۔
سوال ہے کہ اگرکرپشن کے باوجودباقی ممالک ترقی کررہے ہیں،توہمیں بریک کہاں اورکیونکرلگی ہے۔اس سوال کے جواب کی بہت سی جہتیں ہیں۔سب کچھ تومختصرسے کالم میں عرض نہیں کرسکتا۔مگربنیادی نکات پرتھوڑی سی بات ہوسکتی ہے۔ہندوستان اوربنگلہ دیش کے اندرحیرت انگیزمماثلتیں ہیں۔پہلی بات تویہ کہ انھوں نے ریاستی امورکومذہب سے الگ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔بی جے پی کی حکومت جتنامرضی زورلگالے،وہ اس ملک کے سیکولرتشخص کوختم نہیں کرسکتی۔
درست ہے کہ وزیراعظم مودی کی موجودگی میں"ہندوتا"اور"سنگ پریوار"کونئی زندگی ملی ہے۔وہاں مسلمان اورمسیحی اقلیتوں کے ساتھ سلوک انتہائی مشکل ہوتا جارہاہے۔اس کے باوجودانکاآئین اورسپریم کورٹ اس فلسفہ پرقائم ہیں کہ فکری اورقانونی طریقے سے ریاستی امورکسی بھی مذہب کے زیراثرنہیں ہونگے۔حالیہ مثال تاج محل کی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس عظیم شاہکارکوسیاحوں کی پسندیدہ فہرست سے نکال دیاتھا۔وجہ صرف یہ کہ بنانے والاایک مسلمان بادشاہ تھا۔مگران کی عدالتوں نے صوبائی حکم کے بالکل خلاف فیصلہ دیا۔
عرض کرنے کامقصدصرف یہ ہے کہ انڈیانے اپنی سوسائٹی میں ایک"سیفٹی ویلیو" رکھا ہوا ہے جہاں اس اَمرکوضمانت حاصل ہے کہ ریاست کے معاملات مکمل طورپرکسی بھی مذہبی فلسفہ کے مطابق طے نہیں ہونگے۔یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کی موجودہ حکومت، اس کے برعکس کام کرنے میں مصروف ہے۔بعینہ یہی حال بنگلہ دیش کاہے۔اس ملک نے آزادہوتے ہی اپناآئین بنایا۔ 1972کی بات ہے۔اس آئین کوچاربنیادی اصولوں پرترتیب دیاگیا۔اس میں پہلااصول ہی یہ تھاکہ ریاستی امور اورمذہب میں کوئی تعلق نہیں ہوگا۔یعنی بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہوگا۔
لفظ سیکولراستعمال کرتے ہوئے بھی الجھن ہوتی ہے۔کیونکہ ہمارے ماہرین نے سیکولرکا مطلب "لادین" کردیاہے۔جوکہ معنوی لحاظ سے حقیقت سے بہت دور ہے۔یادرہے کہ بنگلہ دیش مکمل طورپرمسلمان ملک ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعدادنوے فیصدہے۔یعنی وہاں کے رہنے والے ہماری طرح کے مسلمان ہیں۔مذہبی فکرکے حساب سے بالکل ہمارے جیسے ہیں۔پھرکیاضرورت پیش آئی کہ ایک سیکولرآئین بنائیں۔چلیے، ہندوستان میں تو ہندوؤں کی تعدادایک ارب سے اوپرہے اوروہاں مسلمان صرف تیرہ فیصدہیں۔مگرہمارے ہی ملک سے آزادہونے والے حصے نے اپنے آئین میں اتنی جوہری تبدیلی کس وجہ سے کی۔کیونکرکی اورآج بھی اس پرقائم کس طرح سے ہیں۔
بالکل اسی طرح ملائشیابھی ایک مسلمان ملک ہے۔ اس میں اکسٹھ فیصدمسلمان ہیں۔اسکاآئین بھی مکمل اسی طرح ہے جس لفظ سے ہم چڑتے ہیں۔بلکہ نفرت کرتے ہیں۔ یعنی ملیشیاء ایک مسلمان ملک ہونے کے باوجودآئینی طور پر ایک سیکولرملک ہے۔بہت سے مسلمان ملکوں کی مثال دے سکتاہوں۔مگراس کے لیے بہت زیادہ وقت اورلکھنے کاعمل چاہیے جوبہرحال کالم کی گرفت سے باہرہے۔کیاوجہ ہے کہ ہماراملک جومکمل طورپر1977تک ایک ترقی پسند معاشرے کے طورپرپھل پھول رہاتھا،ایک دم منفی فکری انقلاب کاشکارہوگیا۔
دیکھتے ہی دیکھے پوری دنیامیں دہشت گردی کانشان بن گیا۔یہ نکتہ فکرطلب ہے۔کہاجاتاہے کہ امریکا نے ہمیں تشددپسندانہ رویے پرمائل بلکہ قائل کیا اور اپنے فائدے کے لیے جہادپرلگادیا۔مگریہ توصرف آدھاسچ ہے۔ہم نے امریکا کی ہر بات تسلیم کی،امریکا کے بنائے ہوئے جہادی نصاب کواپنی درسگاہوں میں پڑھانے کی اجازت دی۔زمین کو اپنی مرضی سے دنیابھرکے مجاہدین کی تربیت گاہ بنائی۔تب جاکروہ بھیانک معاملہ شروع ہوا جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
کیایہ سب کچھ حکومت پاکستان کی مرضی کے بغیرہواتھا۔صاحبان ہرگزہرگز نہیں۔ ہم اپنی مرضی سے،اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔ اسکاکفارہ آج تک ادا نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجہ یہ کہ پوری دنیا ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اور ان کاطرزِعمل جائز ہے۔ اگریہ عرض کیاجائے کہ ہمارے ریاستی معاملات میں مذہب کاعمل دخل نہیں ہوناچاہیے توقیامت آجائیگی۔کیونکہ ہم تدبراورسوچنے کی صلاحیت سے محروم کردیے گئے ہیں۔
دلیل سے بات کرنے والوں کوخاموش کرنابھی بہت آسان ہے۔گزارش کرونگاکہ ہم اپنے انقلابی مذہب کی تمام تعلیمات کوعملی طورپرپرکھیں توایک سنجیدہ عملی راستہ نکل سکتا ہے۔اگریہ عرض کروں کہ ہمارامذہب آفاقی اصولوں پرقائم ہے تویہ مکمل طورپردرست نکتہ ہے۔مگرکیایہاں کوئی جرات کر سکتا ہے کہ صرف پوچھ لے،کہ دنیاکے اکثریتی مسلم ممالک تو آئینی طورپرسیکولرہیں۔یعنی وہاں ریاست پرکسی بھی مذہب کی چھاپ نہیں تویہاںطوفان کھڑا ہوسکتاہے۔
دلیل کوتاریخی لوریوں کے ذریعہ قتل کیا جاسکتا ہے۔ مگر 1977سے پہلے یہ صورتحال نہیں تھی۔پاکستان مکمل طور پر دنیا کے ہرترقی یافتہ ملک کے شانہ بشانہ چل رہاتھا۔یہاں قدرے فکری اورسماجی آزادی میسر تھی۔ دوبئی، قطر، ابوظہبی، ایران،افغانستان کے لوگ چھٹیاں گزارنے کراچی اور لاہورآتے تھے۔افغانستان بذات خودایک انتہائی پُرامن، جدید اورمتوازن ملک تھا۔خواتین سرپرسکارف بھی لیتی تھیں اورسکرٹ بھی پہنتی تھیں۔کوئٹہ جواب بم دھماکوں کی وجہ سے مشہورہے۔وہاں بچیاں سائیکلوں پرسکول جاتی تھیں۔
کیاآج کے افغانستان اورپاکستان میں یہ سوچا جا سکتا ہے۔ بالکل نہیں۔جوقوم ملالہ یوسف زئی پراسلیے تنقیدکرتی ہے کہ آکسفورڈیونیورسٹی میں پہلے دن اس نے غیرروایتی لباس پہناہواتھا۔یعنی پینٹ،شرٹ۔اس کی ذہنی حالت پرصرف افسوس کیاجاسکتاہے۔کوئی یہ نہیں کہتاکہ اس دن بھی اس لڑکی نے دوپٹہ اوڑھاہواتھا۔مگربحث پینٹ اورشرٹ پرہے۔کوئی یہ نہیں دیکھتاکہ لاہور،کراچی اوراسلام آبادکے امیرعلاقوں میں بچیاں مکمل طورپرمغربی لباس عام پہن رہی ہیں۔کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔
آپ کسی نجی یونیورسٹی میں چلے جائیں۔آپکونوے فیصدبچیاں مغربی لباس میں نظر آئینگی۔ اسلیے کہ ثقافت ہمیشہ وقت کے تابع ہوتی ہے۔آپ اس تبدیلی کوروک نہیں سکتے۔اگرروکیں گے توصرف اورصرف وقت اورتوانائی برباد ہوگی۔ معاملات وہیں کے وہیں رہینگے۔
قطعاًعرض نہیں کررہاکہ معاشرہ میں مذہب اور مقامی روایات کوپس پشت ڈال دیں۔مگرایک توازن اختیار کرنا ضروری ہے۔آج کے دورمیں سماجی، مذہبی، علاقائی اور ثقافتی توازن کی مثالیں ترکی، ملیشیا، الجیریا، اردن، موروکو اور برونائی ہیں۔
آج بھی سمجھتا ہوں کہ پاکستان دس برس میں مسلمان ممالک کاقائد بن سکتاہے۔مگرضرورت پرانے پاکستان کی ہے جو ملک بنانے والوں کی فکرکے مطابق تھا۔ بھرپورتوجہ سعودی ولی عہدکی حالیہ پالیسی بیان کی طرف بھی دلواتاہوں۔جس میں محمدبن سلمان نے کہاہے کہ وہ اپنے ملک کو Moderateاسلام کی طرف لے کر جائینگے۔جان بوجھ کر انگریزی لفظ کاترجمہ نہیں کیا۔
ولی عہدنے یہاں تک کہا ہے کہ نئے سعودی عرب میں پرتشددخیالات کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔یہ اس ملک کا ولی عہد کہہ رہاہے جہاں سے ہمارے بنیادپرست گروہ، اپنی طاقت کشیدکرتے ہیں۔ اگر سعودی عرب جیساملک اب اپنی مذہبی پالیسی بدلنے پر مجبور ہوگیا ہے،توکیایہ سب کچھ ہمارے لیے"لمحہ فکریہ" نہیں۔