پاک امریکا تعلقات میں نیا موڑ
دراصل پاک امریکا تعلقات کبھی بھی نیک نیتی پر قائم نہیں رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ (سیکریٹری آف اسٹیٹ) ریکس ٹلرسن طوفانی دورے پر منگل کو کابل سے اسلام آباد پہنچے۔ پانچ گھنٹوں کے قیام کے دوران دو گھنٹے پاکستانی حکام کے ساتھ گفت وشنید میں لگائے، جب کہ تین گھنٹے اپنے سفارت خانے کے انتظامی امور کی دیکھ بھال میںصرف کرنے کے بعد دہلی کے لیے روانہ ہوگئے۔ ان کی خواہش تھی کہ وزیراعظم اور آرمی چیف سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کریں۔ مگر پاکستانی حکام نے ایک ہی نشست میں ملاقات کا اہتمام کردیا۔ اس ملاقات میں وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیردفاع، آرمی چیف اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
اسے پاکستانی حکمرانوں کی خود اعتمادی کہئے یا خطے کی بدلتی ہوئی تزویراتی صورتحال کے تناظر میں زاویہ نگاہ میں تبدیلی کا اظہار۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اعلیٰ امریکی حکومتی عہدیدار کا اس قدر سردمہری کے ساتھ استقبال کیا گیا ہو۔ اس تناظر میں اس دورے اور ملاقات کو نہ تو کامیاب کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ناکام۔
دراصل امریکی وزیر خارجہ، صدر ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ماہ اعلان کردہ افغان پالیسی پر پیشرفت کا جائزہ لینے آئے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ دورہ دراصل دسمبر میں امریکی وزیر دفاع کے متوقع دورے سے قبل خطے کی سفارتی سمت کا تعین کرنے کی کوشش ہے۔ تاکہ آیندہ برس تزویراتی معاملات طے کرنے میں آسانی ہوسکے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا، جو وہ گزشتہ دو برسوں سے شدومد سے بیان کرتا چلا آرہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل یہ کہا جارہا تھا کہ شاید امریکا افغان مسئلہ سے جان چھڑا کر ماضی قریب کی طرح ایک بار پھر لاتعلق ہونے کے بارے میں غور کررہا ہے۔ خاص طور پر اوباما کے دور صدارت میں تاثر قائم ہوا تھا۔ مگر ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکا کی اس خطے میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ سوچ میں آنے والی اس تبدیلی کے کئی بنیادی اسباب ہیں۔ اول، وہ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی معاشی اور تزویراتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوئم، افغانستان میں موجود خطیر معدنیات اور وسط ایشیائی ممالک میں پائے جانے والے 6.3 ٹریلین ٹن تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول اور دسترس کی خواہش اسے اس خطے میں موجود رہنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چین میں امریکی سرمایہ کاری 228 ملین ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ جب کہ امریکا میں چین کی سرمایہ کاری 64 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین میں امریکی سرمایہ کاری کا حجم سرکاری طور پر بیان کردہ حجم سے 3 سے 4 گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکا چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو نفوذ کو اپنی عالمی برتری کے لیے خطرہ تصور کررہا ہے۔ اس لیے اس کی توجہ کا محور اب بھارت ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق BJP کی حکومت آنے کے بعد بھارت میں امریکی سرمایہ کاری میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، جو اس وقت 300 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خطے میں بالادستی قائم رکھنے کے لیے بھارت کو اپنا سیاسی، اقتصادی اور تزویراتی حلیف بنانا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کے زیادہ سے زیادہ کردار کا متمنی ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر بھارت کو افغانستان میں ترقیاتی کاموں کی ذمے داری سونپنے کے ساتھ ساتھ امن مشن میں بھی نمایاں حیثیت دی جارہی ہے۔
اس تناظر میں اس کی خواہش ہے کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے لیے پاکستان راہداری فراہم کرے، تاکہ وسط ایشیا اور افغانستان سے خام مال اور تیل وگیس پاکستان کے راستے بھارت پہنچ سکے۔ اس مقصد کے لیے قبائلی علاقے میں موجود ان رکاوٹوں کو بھی دور کرے جو آزاد تجارت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جن میں ان مذہبی شدت پسند جنگجو جتھوں کا صفایا بھی شامل ہے، جو 1980ء کے عشرے میں سوویت یونین کے خلاف خود امریکا نے پاکستان کی مدد سے تیار کیے تھے۔ جن کے بارے میں امریکی منصوبہ سازوں کو یقین ہے کہ یہ جتھے ہنوز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔
پاکستان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے ناتے افغان معاملات میں اس کی کلیدی حیثیت ہونا چاہیے۔ بھارت کو افغان قیام امن کے منصوبے میں پارٹنر بنانا اس لحاظ سے مضحکہ خیز ہے کہ وہ خود کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ جب اس نے افغانستان کو سوویت جارحیت سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، تو اسے قیام امن کے منصوبے میں بھی نمایاں کردار ملنا چاہیے۔
پاکستان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ جینیوا امن معاہدے کے بعد امریکا نے پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی دفاعی امداد بند کردی تھی، جب کہ افغانستان کو خانہ جنگی میں چھوڑ کر لاتعلق ہوگیا تھا۔ جس کا خمیازہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان بھگت رہا ہے۔ مگر امریکا پاکستان کے کردار کو سراہنے کے بجائے اس پر تنقید کررہا ہے۔
دراصل پاک امریکا تعلقات کبھی بھی نیک نیتی پر قائم نہیں رہے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے Perception کو سمجھے بغیر وقتی مفادات کی خاطر تعاون کیا، جو پانی پر جھاگ کی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوگئے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کا یہ بیان امریکی موقف کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے کہ ''عالمی سطح پر دو ممالک کے درمیان تعلقات باہمی مفادات سے مشروط ہوتے ہیں۔ اخلاص اور نیک نیتی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔
ہم نے پاکستان سے جو کام لیے اس کا بروقت اور مناسب معاوضہ دیا۔ لیکن پاکستان نے جو وعدے کیے وہ مکمل طور پر پورے نہیں کیے''۔ اس بیان کا مطلب واضح ہے کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھے بغیر معاملات کو چلانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں سردمہری اور گرمجوشی کے کئی ادوار آئے۔ ہر بار آنے والا سردمہری کا دور دونوں جانب سے کیے گئے غلط فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ مثال کے طور پر پاکستان اور امریکا کے درمیان سردمہری کا پہلا دور 1962ء میں شروع ہوا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول، امریکا نے میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر سبقت حاصل کرلی تھی۔ اس لیے اس خطے کی اہمیت اس کی نظر میں کم ہوگئی تھی، جو کہ ایک غلط سوچ تھی۔ دوئم، اسی برس ہونے والی چین بھارت جنگ کے حوالے سے امریکا کی خواہش تھی کہ پاکستان بھارت کا ساتھ دے۔ یہ بات بھی ریکارڈ ہے کہ پاکستان اس پر آمادہ تھا، مگر بھارت نے پاکستانی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ لیکن پاکستانی منصوبہ ساز مناسب انداز میں امریکا کو اپنا موقف سمجھانے میں ناکام رہے۔
سردمہری کا تیسرا دور جینیوا معاہدے کے بعد شروع ہوا اور 9/11 تک جاری رہا۔ لیکن سرد مہری کا حالیہ دور شاید تاریخ کا بدترین دور ہے، جس میں امریکا کی جانب سے سردمہری کے جواب میں پاکستانی حکام بھی سردمہری کے رویے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس کی وجہ شاید خطے کی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی تزویراتی صورتحال ہے۔ مگر ہمارے منصوبہ سازوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرد جنگ ختم ہوئے مدت ہوچکی ہے۔ اس لیے اب وہ پالیسیاں اور قومی بیانیہ قابل عمل نہیں ہے، جس پر ملک کو 60 برس سے زائد چلایا گیا۔
امریکا کی حکمت عملیاں غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ لیکن شدت پسندی کے خاتمہ کا مطالبہ غلط نہیں ہے۔ کیونکہ یہ صرف امریکا ہی کا نہیں، بلکہ چین جس کی شہد جیسی دوستی پر ہمارے حکمران نازاں ہیں، وہ بھی BRICS کانفرنس میں اسی موقف کا اعادہ کرچکا ہے۔ لہٰذا ایک پرامن اور ترقی دوست ملک بنانے کے لیے ہمارے منصوبہ سازوں کو تہذیبی نرگسیت اور اس قومی بیانیہ سے سے نکلنا ہوگا، جو قیام پاکستان کے وقت تشکیل دیا تھا۔ یہی قومی سلامتی کا واحد راستہ ہے۔