اچھے اخلاق کی آبیاری کریں

محبت کے نام پر بننے والے ڈرامے اور فلمیں معاشرے میں اپنا رنگ ہمیشہ سے دکھاتے رہے ہیں


Shehla Aijaz November 01, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: اس کی ماں کی حالت دیکھنے کے قابل تھی، چہرہ زرد ہورہا تھا، سانس پھول رہا تھا، ہونٹ جیسے سوکھ کر پاپڑی بن رہے تھے، آنکھوں میں خون اور ویرانی تیر رہی تھی جیسے کسی پل چین نہ آرہا ہو، اس کا شوہر باہر بیٹھا اندر ہی اندر پیچ و تاب کھارہا تھا، اس کا بس نہ چلتا کہ خون ہی کردیتا اپنا۔ اپنی بیوی کا، یا اس بیٹی کا جس کی وجہ سے اس کی عزت رل رہی تھی، وہ بیٹی جو ابھی آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی ماں کے ساتھ صبح اسکول آتی، ماں بیٹی کو لے کر روز اپنے گھر سے نکلتی اور اسکول کے نزدیک بچیوں کا غول دیکھتی تو مطمئن ہوجاتی یہ تھا ہر روز کا معمول پھر اس کے ارد گرد ایسا کیا ہوا کہ بچی کسی کے عشق میں گرفتار ہوگئی اس سے ملنے جلنے لگی، ایک بار پہلے بھی اسکول کی ٹیچرز نے اس کا موبائل پکڑا تھا اور تنبیہ کی تھی لیکن اب معاملہ خاصا آگے تک نکل چکا تھا وہ خاصی ماہر ہوچکی تھی۔

اس نے خاصی مہارت سے اپنے بوائے فرینڈ کے پیغامات ڈلیٹ کردیے تھے لیکن اس کی استانی نے اس کی ڈائری اور ان خطوط پر اس کے بستے سے برآمد کیے وہ خطوط نہایت بیہودہ تھے۔ بچی نے لڑکے سے ذرا چھوٹے فون کی فرمائش کی تھی تاکہ کوئی آسانی سے پکڑ نہ سکے۔ یہ سارا کھیل کیسے ہوا۔ یہ بات اتنی کیسے پھیلی بچی ایک سرکاری اسکول میں پڑھتی ہے، اس کی رہائش بھی ایک غریب علاقے کی ہے۔ بچی بہانے بہانے سے اپنے کسی قریبی رشتے دار کے گھر جاتی تھی جہاں کوئی موصوف ان سے محبت فرمانے لگے، بات سے بات نکلنے لگی اور معاملہ بہت طول پکڑتا گیا۔

یہ کہانی ایک سرکاری اسکول کی بچی کی نہیں ہے بلکہ ہمارے ارد گرد اچھے پرائیویٹ اسکول وکالجز بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہم مشرقی اقدار کے پابند اس قسم کے عشق و معاشقہ کو اچھا نہیں سمجھتے، کچی عمرکے احمقانہ فیصلے والدین اور خود بچوں کی زندگی پر بھی برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہر بچی اپنے آپ کو ہیروئن اور بچہ اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگتا ہے ایسے فیصلے نہ صرف بچوں بلکہ نوجوانوں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جو جھوٹی محبت کے جال میں الجھ کر اپنی ہنستی بستی زندگی کو اجاڑ دیتے ہیں۔ زمانے بھر کی رسوائی ان کے خاندان کے نام پر بٹہ لگا دیتی ہے۔

کچھ عرصے پہلے کی بات ہے گلستان جوہر کے کسی اپارٹمنٹ میں ایک نوجوان کی لاش ملی جسے قینچی اور چھریوں کے وار سے مارا گیا تھا۔ نوجوان نے کچھ عرصے پہلے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کسی لڑکی سے محبت کی شادی کی، اس کا ایک بچہ بھی تھا لیکن اس بے وفائی کا کیا ہو سکتا تھا جو اس لڑکی نے لڑکے سے شادی کے وقت سے پال رکھی تھی جس میں محبت نہیں کسی اور چیز کی طمع تھی اسے جب موقع ملا اس نے فائدہ اٹھایا اگر وہ نوجوان سے طلاق حاصل کر لیتی تو شاید نوجوان کی کہانی عام نہ ہوتی لیکن ایسا نہ ہوا، شیطان نے اپنا کام دکھایا اور وہ اپنی جان سے گیا۔ موصوفہ اپنے کسی عزیز کے ساتھ قتل کی واردات کے بعد فرار ہو گئی تھیں۔ معاملہ محبت کا نہیں دولت کا تھا۔

محبت کے نام پر بننے والے ڈرامے اور فلمیں معاشرے میں اپنا رنگ ہمیشہ سے دکھاتے رہے ہیں، اس میں بنانے والوں کا بھی قصور نہیں بقول ان کے معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں کو دکھاکر لوگوں کو باورکرانا کہ اونچ نیچ اور امیر غریب میں کوئی فرق نہیں ہے، لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ محبت ایک عظیم جذبہ ہے۔ یہ سب بالکل درست ہے لیکن ان سب کے بیچ وہ عام لوگ ان تجربات سے مستفید ہوتے ہیں جو اس فہرست میں آنے کے قابل نہیں ہوتے بچے بچیاں ہی کیا جوان حضرات بھی اب موبائل فونز پر ہی نجانے کیا کچھ دیکھ کر اپنے اعمال خراب کرتے رہتے ہیں، جن سے شکلیں بد رونق اور وحشت زدہ سی ہوجاتی ہیں، رویے زہریلے ہوجاتے ہیں، نگاہوں میں حرص و ہوس نظر آتی ہے۔

ایجادات انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں لیکن اس دور میں بہت سی ایجادات ایسی ہیں جو آسانیاں تو پیدا کرتی ہیں لیکن اس کے علاوہ ہماری زندگیوں میں زہر بھی بھر رہی ہیں۔ بھارت میں ایسی حرکتیں اتنی عام ہوچکی ہیں جن سے خواتین کی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے جس میں معاشرے میں ان اخلاقی برائیوں کا عام ہونا شامل ہے جو خواتین کے بیباک کپڑوں سے لے کر کھلی واہیات فلمیں بھی شامل ہیں جنھیں دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ فلم آرٹ، تخلیق، جدت جدیدیت اور گلیمر کے نام پر انسانی شرافت، مروت اور معصومیت کا قتل عام جاری ہے۔

کچھ عرصے پہلے یوں فلموں کو سرچ کرنے کا شوق ہوا جس میں خاصی مشہور فلمیں بھی شامل تھیں جن کے صرف چند سین دیکھ کر ہی طبیعت بوجھل ہوگئی انتہا سے زیادہ واہیات زبان اور ملبوسات جب کہ موضوع کم عمر کی بچیوں اور کسی میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے درپردہ سب کچھ دکھا دینا تھا۔ بھارت میں یوں تو فلم انڈسٹری کو نہایت اعلیٰ مقام حاصل ہے البتہ بہت سی ریاستوں نے اسکول وکالجزکی بچیوں کے یونیفارمز اور موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگاکر کسی حد تک معاشرے میں بڑھتی برائیوں پر بند باندھنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے ملک میں جو اس سلسلے میں کیا ہو رہا ہے، مسلمان ہونے کے ناتے ہم اس اخلاقی زوال کے دلدل میں کیسے دھنس رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا ٹی وی پر آنے والے پیار محبت کے ڈرامے غیر ملکی عریاں فلمیں یا کچھ اور...

بات اگر کم عمر کے بچے بچیوں تک کی ہوتی تو کچی عمر کے تقاضے کا رونا رویا جاسکتا تھا لیکن جب یہ مرض کئی کئی بچوں کے والدین کو لاحق ہوجائے تو اس کا کیا کیا جائے، میرا بیٹا ایگزیکٹو پوسٹ پر فائز ہے جوان ہے، اسمارٹ ہے ہمارا اچھا بڑا بنگلہ ہے گاڑی ہے پیارے پیارے بچے بھی تھے پھرکیسے اس کی بیوی کو میری بھتیجی کے شوہر سے عشق ہو گیا، میرا بیٹا طلاق دینے کے حق میں نہ تھا لیکن معاملہ بہت آگے تک چلا گیا تو بیٹے کو غیرت محسوس ہوئی، بیوی طلاق لے کر اپنے بچوں کے ہمراہ چلی گئی اس نے شادی رچالی، حالانکہ خود اس کے بھی تین بچے ہیں شکر ہے اس نے میری بھتیجی کو طلاق نہیں دی، اب وہ چھ بچوں کے ساتھ کہاں زندگی گزار رہے ہیں کچھ خبر نہیں۔ ہم پہلے سمجھتے تھے کہ رشتے داری کی وجہ سے ہنسی مذاق چلتا ہے پر پتہ چلا کہ وہ ہنسی مذاق نہ تھا کچھ اور تھا۔

نفس کے بے رحم دریا کی سرکش موجیں بہت بلند ہیں جو نہ نفرت دیکھتی ہیں نہ محبت صرف انسان کا نقصان چاہتی ہیں ہمیں خود اپنے آپ کو منافقت کے دلدل سے نکالنا ہوگا، سچائی، صفائی ستھرائی، حق، خلوص واخلاص اور اپنے پیارے رب سے لگاؤ ہمیں روشن خیالی اور مثبت راہ پر چلاتا ہے بات سوچنے کی ہے اس میں کوئی برائی تو نہیں ہے جیسا بیج ہم بوتے ہیں ویسے ہی پودے اُگتے ہیں اگر ان مراحل میں کہیں غلطی ہی ہو گئی توکیا ہوا سارے راستے بند بھی ہوجائیں تو ایک راستہ کھلا رہتا ہے، اس کھلے دروازے کی ٹھنڈی ہوا آپ کی منتظر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں