ربط باہمی کا حسن
نسان جب تک فطرت کی پناہ گاہ میں تھا، بہت فطری اور خوبصورت رویوں کا حامل تھا
فطرت کے نظام کی بنیاد میں تعلق کی ایک عجیب خوبصورتی دکھائی دیتی ہے۔ تمام عناصر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ کہیں متضاد رویے بھی ملتے ہیں مگر فطرت کی دنیا میں وہ اس قدر تباہ کن نہیں ہوتے، جس طرح انسانی ردعمل سماجی زندگی کی ترتیب بگاڑکے رکھ دیتا ہے۔
فطرت کا تخریبی روپ شدید بارشیں، طوفان، سونامی اور زلزلوں کی صورت سامنے آتا ہے۔ یہ تباہی فطری زندگی کی ضرورت ہے۔ یہ اپنے اندر سبق آموز اور مثبت تبدیلی کا محرک بنتی ہے۔ دکھ تعمیری پہلو رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تباہی سے انسان بہت سیکھتا ہے۔ یہ دکھ، نقصان انسان کے سخت دل کوگداز بناتے ہیں اور فنا کی رمزکو انسان سمجھ پاتا ہے،کیونکہ زندگی بہت عارضی اور مختصر مدت کے لیے انسان کے حصے میں آئی ہے، مگر وہ عارضی قیام گاہ کے لیے ایسے تخریبی رویے اختیار کرلیتا ہے جو اخلاقی قدروں کی نفی کرتے ہیں۔
انسان جب تک فطرت کی پناہ گاہ میں تھا، بہت فطری اور خوبصورت رویوں کا حامل تھا، مگر جیسے ہی مشینی دورآیا اور سائنس و ٹیکنالوجی نے ترقی کی اس میں مصنوعی پن اور بناوٹ پیدا ہوگئی۔ حاکمیت واقتدار کی وسعت جیسے منفی رویے سائنس و ٹیکنالوجی کی دین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برٹرنڈر رسل کا کہنا ہے کہ اس عقل و دانش اور معلومات نے انسان سے انسانیت اور فطری رویے چھین لیے اوراس نے انسانیت کو فائدے کے جال میں پھنسانا شروع کیا۔ یہ انسانیت سے بددیانتی کا آغاز تھا۔
رسل کی بات میں وزن ہے کیونکہ دنیا تسلط، قبضے اور آمرانہ رویوں کو فروغ دینے لگی تھی۔ وہ ربط باہمی کا حسن کھونے لگی۔ مفکر اوشو بھی کہتا ہے کہ معلومات یا آگاہی مکاری کو فروغ دیتے ہیں۔ کیونکہ علم کے منفی و مثبت پہلو ہیں۔ منفی پہلو ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہے۔ جو پسماندہ قوموں پر اجارہ داری قائم کردیتا ہے۔ جب کہ مثبت پہلو ابھی دنیا کے سامنے نہیں آیا۔علم کو زیادہ تر ذاتی فائدے اور مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس کا پیمانہ ہر جگہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ مکاری کا مطلب ذہنی آلودگی ہے۔ یہ مینٹل کرپشن کا لامتناہی سلسلہ ہے۔
انسان فطری اصولوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔ وہ عظیم تر ہونے کی دھن میں زمین پر خون خرابہ کرنے کی وجہ بنا۔ ذہانت جس کا محرک بنی۔ ذہانت نے اسے چھوٹی قومی کا استحصال کرنا سکھایا۔ تفریق کرنا سکھائی۔ اس نے مذہب وانصاف کو نظریاتی طور پر استعمال کیا۔ اپنے معاشرے کی مثال لیجیے کہ یہ تمام تر ذہین لوگ کیسے معاشرے کی تشکیل کرچکے ہیں۔ جو ذہنی انتشار کے بھنور میں مستقل ڈول رہا ہے۔ یہ سمجھدار لوگ ذات کو فراموش کرکے باقی ہر چند کا احتساب کرنے پر مجبور ہیں۔
آپ ان کے چہرے دیکھیے۔ کسی بھی چہرے میں پھول یا درخت کی تازگی نہیں نظر آئے گی۔ چہرے پر خواہشات کا عکس دکھائی دے گا۔ ماتھے پر لاتعداد شکنیں ہوں گی۔
لاتعلقی اور نفرت کی شکنیں حسد اور تعصب کی لکیریں، ان رویوں کی گواہ ہیں جو تعلق میں دراڑیں ڈال دیتی ہیں۔ بہت زیادہ سمجھ اور علم انا پرستی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ ''میں صحیح ہوں لہٰذا میری بات سنو۔'' اس طرح کے رویے آج کی زندگی میں عام ہیں۔ ایک آمر آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ چاہے گھر میں ہو یا اداروں میں۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں یا اسپتال۔ علم تو کسرنفسی سکھاتا ہے۔ علم عاجزی ہے۔ یہ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ دکھی انسانیت کے لیے امید کا سائباں بنتا ہے۔ ایسا علم انسان آخرکہاں سے سیکھتا ہے جو جوڑ کے رکھے۔ زندگی میں مقصدیت بھردے۔ بلاتفریق بانٹنا سکھائے۔ یہ علم کتابی علم نہیں ہے۔ یہ فطرت کے مشاہدے سے انسان سیکھتا ہے۔
سب سے بڑی درسگاہ فطرت ہے۔ جس سے آج کا انسان کوسوں دور ہے۔ یہ یوگی، صوفی و فلسفیوں کا ادارہ ہے۔ جہاں وہ برسوں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ فطرت کی کتاب پڑھ کر انسان اپنے من کی دنیا تسخیر کرتا ہے۔ ہر دریافت باطن کے عرفان کی دین ہے۔ آنکھ میں حسن اور دل میں رابطے کا ہنر نہ ہو تو علم بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ ایسا علم فقط ظاہری زندگی کو بہتر بناتا ہے، جب کہ احساس غفلت میں ڈوبا رہتا ہے۔
ظاہری کامیابیاں عارضی ثابت ہوتی ہیں اگر احساس کا ہنر شامل نہ کیا جائے اور احساس کا ہنر بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی:
انکشاف... راز ہستی عقل کی حد میں نہیں
فلسفی یاں کیا کرے اور سارا عالم کیا کرے
یہ علم ہجر بے کراں ہے۔ یہ مکمل طور پر انسان کی دسترس میں نہیں آسکتا۔ جب تک خودآگہی سے وہ بہرہ ور نہیں ہوتا لہٰذا فطرت و کائنات تک بھی رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔
خود شناسی کے سفر پر نکلتے ہوئے اس کی سمجھ کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ یہ وسعت النظری باطن کی آنکھ کے تحرک کا نتیجہ ہے۔ گیان و دھیان اور تصور کی طاقت کے وسیلے ابدی سچ تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہے۔
جدید دنیا میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیے تو احساس ہوگا کہ لوگوں کے پاس جدید معلومات کے تمام تر ذریعے موجود ہیں۔ رابطے کے یہ باہم معلومات پہنچانے والے ذرایع عام ہیں جیساکہ موبائل، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن وغیرہ۔ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اب رابطہ منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ جو مہینوں تک محیط ہوا کرتا تھا۔ رابطہ قائم ہوچکا ہے مگر اس میں احساس کی چاشنی نہیں ملتی۔ وہ رابطہ ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے۔ جس کے پس پردہ ذاتی مفاد یا مطلب کارفرما ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ تعلق کی روشنی سے محروم ہے۔ کیونکہ اس میں مشینی ذائقہ موجود ہے۔ مشینیں احساس سے عاری ہوتی ہیں۔ ان کی زیادہ قربت انسان کو حسیاتی طور پر غیر متحرک کردیتی ہیں۔
حواس خمسہ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یہ غیر فطری ذرایع ہیں۔ ذہن کے بلین نیورونز براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور برین ویوز ذہن کے تسلسل میں مداخلت کی وجہ سے ذہنی کارکردگی فعال نہیں رہتی۔ نیند کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے۔ بے خوابی وہ خطرہ ہے، جس سے دور جدید کا انسان نبرد آزما ہے۔ یہ زندگی کے دورانیے میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ نیند کی کمی ذہنی کارکردگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
یہ انسان کو بے حس اور لاتعلق بنادیتی ہے۔ فیصلے کی قوت میں کمی واقع ہوتی ہے اور انسان ذہنی طور پر سست اور غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ سزا غیر فطری زندگی گزارنے کی وجہ سے انسان کو بھگتنی پڑتی ہے۔ کیونکہ معیار زندگی کا تعلق روپے پیسے سے ہرگز نہیں اگر انسان کے پاس سکون کی دولت نہ ہو۔ ذاتی مشاہدے اور تجربے کے بغیر انسانی ذہن علم کا عرفان حاصل نہیں کرسکتا۔ مشاہدہ اور تجربہ فطری زندگی کی قربت ہے محروم ہوکر مصنوعی اور ادھورے رہ جاتے ہیں۔ فطرت کے تمام تر رابطے محبت کی بنیاد پر قائم ہیں اور یہی ربط باہمی کا اصل حسن ہے۔