فہم و ادراک کی ضرورت
اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو خواتین کا طرز زندگی بڑا ہی افسوسناک ہے
وہ ایک بے حد غریب لیکن نیک دل عورت تھی، بے حد صابر و شاکر۔
اس کا شوہر نکھٹو اور نشے کا عادی تھا اسی وجہ سے اس نے اپنے بچوں کی پرورش اور کفالت کی ذمے داری کا بوجھ نازک کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا، وہ اسلامی اصولوں پر کاربند تھی، وہ صرف پردہ ہی نہیں کرتی تھی بلکہ اﷲ کے احکام پر بھی عمل کرنے کی پوری کوشش کرتی۔ اسے معلوم تھا کہ اسلام بیوی کو شوہر کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کا درجہ بہت بڑا ہے کہ اگر اﷲ کے بعد سجدے کا حکم ہوتا تو وہ شوہر کو ہوتا۔ لہٰذا اس نے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی، اس نے اپنی آواز کو بھی پردے میں رکھا، کسی نے اس کی آواز نہیں سنی تھی، وہ ہر دکھ پر صبر کرتی اور شکر بجالاتی، وہ جانتی تھی کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھتی، سب کے لیے ناشتہ تیار کرتی اور پھر ملازمت کے لیے باہر نکل جاتی، پورا دن فیکٹری میں کام کرتی اور دن ڈھلے گھر میں داخل ہوتی، پھر گھر کے کاموں میں جت جاتی، اتنی محنت و مشقت کرنے کے بعد اسے تعریف کا ایک جملہ بھی سننے کو نہ ملتا بلکہ اس کی ناقدری اس کا شوہر جس قدر چاہتا کرتا، کبھی اس کے دیر سے آنے کی شکایت تو کبھی کھانے میں نقص، کبھی اپنی ضرورتوں کی فہرست پیش کردیتا کہ اسے یہ سب چیزیں خریدنی ہیں۔
اس کے کہنے پر اکثر امید بھی دلاتا کہ وہ جلد ہی کوئی کام کرنا شروع کردے گا، لیکن چند دنوں کی ہی چاندنی ہوتی پھر وہی اندھیری راتیں، اس کی بے روزگاری اور نشہ۔ایسی عورتیں خال خال نظر آتی ہیں، یا پھر کتابوں میں ان کی شرافت کی داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو خواتین کا طرز زندگی بڑا ہی افسوسناک ہے، اس زمرے میں سب تو نہیں لیکن اکثریت ایسی ہی خواتین کی آتی ہے جو شوہر پر خواہشات اور بے جا اخراجات کی فہرست بھاری پتھر کی شکل میں اچھال دیتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے شوہر کی تنخواہ محدود ہے۔ چور، ڈاکو وہ نہیں ہے اور بدترین مہنگائی کا زہر بھی ہر گھر میں پھیل چکا ہے، تو ان حالات میں نہ کہ شریک سفر اسے تسلی دے، اس کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرے اور بے جا خرچ سے بچے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔
بعض گھرانوں میں بدقسمتی سے ایسی خواتین شادی ہوکر آتی ہیں جو پورے گھر کو اپنی کوتاہ عقلی اور بدزبانی سے نچا کر رکھ دیتی ہیں، ان حالات میں شوہر بے چارہ دونوں طرف سے مارا جاتا ہے، ایک طرف گھر والے شکایت کرتے ہیں تو دوسری طرف بیوی شکایتوں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتی ہے اور طعنے تشنوں سے اپنے شوہر کو گھائل کرتی ہے۔ اس طرح کی خواتین کو برباد کرنے میں ان کے میکے کا بڑا دخل ہوتا ہے۔
لڑکی کی ماں بہنیں اسے یہ تربیت دیتی ہیں کہ سسرال میں دب کر ہرگز نہ رہنا نہ گھر کا کوئی کام کرنا، تم کیا نوکرانی ہو؟ اور شوہر کے پاس ایک پیسہ جمع نہ ہوسکے، کسی نہ کسی بہانے ہر ماہ اس کی جیب خالی کرتی رہو تاکہ اپنے گھر والوں یا دوستوں پر خرچ نہ کرسکے اور ہاں ملازمت غلطی سے نہ کرنا ورنہ میاں کو عادت پڑجائے گی تمہاری تنخواہ کی اور نندوں کو منہ نہ لگانا، اگر ذرا خوش ہوکر بولیں، تو بس گھر کا راستہ دیکھ لیں گی۔ گویا میکے والے اس قسم کی باتوں سے اپنی بیٹی کو پی ایچ ڈی کرا دیتے ہیں اور اس پی ایچ ڈی کے مقالے کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب گھر کا سربراہ کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے یا خالق حقیقی سے جاملتا ہے۔
اس وقت خاتون خانہ کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ گھر والوں کا پڑھایا ہوا سبق کارآمد ہونے کے بجائے اس کی زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ پھر ان رشتے، ناتوں کا اندازہ بھی محترمہ کو اچھی طرح ہوجاتا ہے جو کبھی اس کا بظاہر دم بھرتے تھے چونکہ ان حالات میں اس کے بچوں اور اس کی کفالت کرنے کو کوئی تیار نہیں، کسی قسم کی ذمے داری بھی اٹھانا نہیں چاہتے نہ اسے اپنے گھر میں رکھنے کو تیار کہ اس کی بھابیوں کو اعتراض اور آپس میں بچوں کی لڑائی، اتنا برا انجام دیکھ کر اس کی عزت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی انا اور وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
لیکن اب پچھتانے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے، جسے وہ اپنا ملازم سمجھتی تھی وہ روٹھ گیا ہے، اب اسے خود ہی تمام کام انجام دینے ہیں اور اگر دوسری شادی کا موقع میسر آجائے تب بچوں کی بربادی لازمی ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو دوسروں کی اولاد کو حقیقی پیار دے، ایسی مثالیں کم ہی سننے میں آتی ہیں۔اکثر گھرانوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت جلد بیوی کے کہنے پر مرد اپنا علیحدہ گھر آباد کرلیتے ہیں، لیکن اس قسم کی خواتین ادھر بھی شوہر پر ہر معاملے میں حاوی رہنا چاہتی ہیں۔
نہ ساس نہ سسر اور گھر کے دوسرے افراد، لیکن روز روز لڑائی جھگڑے اسی طرح، جس طرح سسرال میں دنگا فساد ہوا کرتا تھا۔ وہی بدمزاجی، غصہ اور حاکمیت، رعب و دبدبہ، گویا شوہر نہ ہوا گدھا ہوگیا۔ کام بھی سارے کروائے جائیں اور جواب کی صورت میں پورا گھر جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ ایسی بھی قابل تعریف اور قابل قدر خواتین ہیں جو اپنے شوہر کو حقیقی معنوں میں مجازی خدا سمجھتی ہیں اور اس کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک رہتی ہیں۔
اگر شوہر کی کم تنخواہ ہے تب وہ معاشی مسائل کے حل کے لیے مکمل طور پر تعاون کرتی ہیں، بے چاری اپنے معصوم بچوں کو گھر چھوڑ کر جاتی ہیں اور وقت سے پہلے اسکول میں داخل کرادیتی ہیں تاکہ بچوں کی بھی حفاظت رہے، بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ سب کے حقوق ادا کرتی ہیں، گھر میں ٹیوشن پڑھاتی ہیں، کپڑے سیتی ہیں، بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جس سے ان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ رزق حلال باعث توقیر ہے۔ ضرورت کی ہر چیز آسانی سے میسر ہوجاتی ہے، گھر میں سکون قائم رہتا ہے۔
آج کا دور ایسا ہے کہ پورا ملک مسائل کا شکار ہوچکا ہے، عدم تحفظ کا احساس، بے روزگاری، بددیانتی عروج پر ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیا کو خریدنا آسان کام نہیں ہے، تعلیمی وطبی اخراجات کو پورا کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں رہا ہے اسی لیے بے شمار لوگ دینی تعلیم کا شعور نہ رکھنے کی وجہ سے خودکشی کرچکے ہیں، نہ کہ خود بے موت مرتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس دنیا کی دلدل سے بچانے کے لیے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
اتنے برے حالات میں گھر کے ماحول کو خراب کرنا جیتے جی مرنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ازدواجی رشتوں میں توازن برقرار رہے۔ نپولین بونا پارٹ نے کیا خوب کہا ہے کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا۔ پڑھی لکھی ہونے کا مطلب ڈگری یافتہ ہرگز نہیں ہوتا بلکہ باشعور اور دانشمند ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان میں اتنا شعور و ادراک ضرور ہو کہ وہ اپنا بھلا برا سمجھ سکے، اجالے اور اندھیروں میں تفریق کرسکے، چونکہ ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ پڑھے لکھے کہلاتے ہیں، لیکن عقل و فہم سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا، انھی لوگوں کی وجہ سے جہالت کے اندھیرے دور دور تک پھیل گئے ہیں۔