تقریب ملاقات
ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے تمام اسکالرزکا مختصر مگر جامع تعارف کرایا۔
ماہ اکتوبر سرسید احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت کے حوالے سے اہم رہا۔ جرائد و رسائل نے معیاری ''سرسید نمبر'' شایع کیے۔ جامعہ کراچی اور انجمن ترقی اردو کے اشتراک سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جو بے حد کامیاب رہی۔ اس اظہاریے میں ہم ان تفصیلات کو دہرانے نہیں جا رہے بلکہ ایک اور ہم تقریب کا احوال رقم کررہے ہیں۔
انجمن ترقی اردو (شعبہ تحقیق وتصنیف) کے دفتر واقع گلشن اقبال میں عموماً بروز سنیچر بیرون ملک سے آئے ہوئے (بلکہ بیرون شہر سے بھی) شعرا، ادبا یا اردو کی ترویج و ترقی، نفاذ اردو کے لیے کوشاں اداروں کے ذمے داران یا شخصیات سے ملاقات انجمن کے ممبران سے کرنے کے لیے تقریب ملاقات کا انتظام ہوتا ہے۔ جس کی روح رواں ڈاکٹر فاطمہ حسن (معتمد اعزازی)، سحر انصاری (ادبی ومالیاتی مشیر) ڈاکٹر رؤف پارکھ کے علاوہ ڈاکٹر رخسانہ صبا ہوتے ہیں ۔ایسی ہی ایک تقریب 21 اکتوبرکو سرسید کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے آئے ملکی وغیرملکی مفکرین اور سرسید کے مداحین سے کرانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر رخسانہ صبا نے اپنے مخصوص ادبی انداز میں کی۔
ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے تمام اسکالرزکا مختصر مگر جامع تعارف کرایا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے تعارفی بیان میں واضح کیا کہ یہ صرف تقریب ملاقات ہے تمام مدعو حضرات ازخود مختصراً جو کہنا چاہیں وہ سامعین کے گوش گزار کرسکتے ہیں، البتہ سامعین اگر سوالات کرنا چاہیں تو ضرورکریں۔ انھوں نے تحسین فراق کا تعارف کراتے ہوئے کہ ان کا تعلق مجلس ترقی ادب سے ہے جوکہ انجمن ترقی اردو کی جڑواں بہن بھی ہے۔ زاہدہ حنا کے لیے ان کا کہنا تھا کہ وہ اگرچہ کئی میدانوں میں بے حد مصروف رہتی ہیں مگر انجمن اردو کی گورننگ باڈی کی بھی فعال رکن ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹر رؤف پارکھ بھی تمام مصنفین کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں جیسے کہ خاندان کے دانشور پورے خاندان کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رفاقت علی نے برصغیر کے تمام کتب خانوں سے استفادہ کیا ہوا بلکہ دیگر ممالک کے بھی کتب خانوں اور وہاں اردو کے عاشقوں کے نجی کتب خانوں کو بھی پورے طور پر کھنگالا ہوا ہے۔ اشفاق حسین (کینیڈا) اگرچہ ممبران کے لیے نئے تھے وہ پہلے بھی انجمن کے مہمان ہوکر سب سے ملاقات (کئی بار) کرچکے ہیں وہ کینیڈا میں اردو کی بڑی خدمات انجام دے رہے ہیں سوڈان سے آئے ہوئے اردو دان ڈاکٹر ایمز جن کا تعلق جرمنی سے ہے مگر سوڈان کے زبانوں کے مرکز میں کئی برس سے اردو پڑھا رہے ہیں۔ ہندوستانیت (برصغیر) ان کا موضوع تحقیق ہے۔
تقریب ملاقات میں گفتگو کا آغاز ڈاکٹر رفاقت علی نے کیا، انھوں نے کہا کہ بابائے اردو کی تصانیف کی ہم نے قدر نہ کی، ان کا سرسید سے براہ راست تعلق تھا ان کو اردو کے لیے کام کرنے میں بے حد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، انھیں اس قدر مشکلات سے دوچارکیا گیا کہ اگرکوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر وہ بے حد مضبوط اعصاب کے مالک اور دھن کے پکے تھے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرسید کو بابائے اردو سے بھی بڑھ کر مخالفت اور مشکلات سے نبٹنا پڑا مگر ایسے ہی بے لوث، باہمت، مرد میدان ہمارے محسنین میں شامل ہیں۔
اشفاق حسین نے اپنے مختصر خطاب میں فرمایا ہم کینیڈا میں 25 سال سے ترویج اردو کے لیے کام کر رہے ہیں، ہم جس ادارے کے تحت اردو سے محبت کا فرض نبھا رہے ہیں اس نے کم ازکم 41 ایسے موضوعات کی نشاندہی کی ہے جن پر صرف سرسید نے قلم اٹھایا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جن حالات (سیاسی، قومی و ادبی) میں انھوں نے قومی فلاح کا بیڑا اٹھایا تھا آج کا نوجوان سوچ بھی نہیں سکتا۔ انھوں نے کراچی خصوصاً جامعہ کراچی میں اپنے طالبعلمی کے دور کو تازہ کیا اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرسید کو بے حد جید لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، تو ہمیں بھی مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اردو کی ترقی و ترویج کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔ ہماری نسل نو ترقی معکوس کا شکار ہے۔
ان حالات میں ہمیں آگے ہی بڑھنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ واقعی ترقی ہو آخر میں انھوں نے اپنی ایک خوبصورت نظم بھی نذر سامعین کی۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کی صدر نشین ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے سرسید کے حوالے سے کہا کہ اس سلسلے میں ایک مکالمے کی اشد ضرورت تھی مگر سرسید کی دو سو سالہ تقریبات قریب آرہی تھیں لہٰذا اس مکالمے کو اس تک ملتوی کردیا گیا۔
سوڈان میں اردو پڑھانے والے جرمن اسکالر ڈاکٹر ایمز نے سرسید پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرسید کو تاریخی تناظر میں ضرور دیکھنا چاہیے اور میں نے انھیں اسی طرح دیکھا ہے سرسید نے تین کام غدر (جنگ آزادی) کے بعد بے حد اہم کیے اسباب بغاوت ہند، آئین اکبری، بائبل کے حوالے سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا وغیرہ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے سرسید کی زندگی کے کئی گوشوں پر بے حد تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ حالی کی حیات جاوید اگرچہ سرسید کی زندگی کا مکمل احاطہ نہیں کرتی مگر سرسید پر تحقیق کے لیے وہ اب بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجلس ترقی ادب کی کارکردگی پر تفصیلی بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ مجلس کے جو قابل قدر کام ہیں ان میں سولہ جلدوں میں مقالات سرسید، سرسید کے خطوط کے مجموعے، خطبات، سفرنامے، سفرنامۂ پنجاب بھی اس ادارے نے شایع کی ہیں۔ اب تک چار سو پچاس کتب مجلس ترقی ادب نے شایع کی ہیں۔ مجلس کے تراجم بے حد اہمیت کے حامل ہیں جو مختلف اور نایاب کتب اور موضوعات پر ہیں۔
تقریب کی خصوصی شخصیت جسٹس حازق الخیری نے کہا کہ مجھے آپ کا سامنا کرتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ میں انگریزی میں تقریر کرنے کا عادی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سرسید کے زمانے میں ہندوستان کی یہی حالت تھی جو آج ہمارے ملک کی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مجھے جاپان میں کسی سیمینار میں تقریر کرنی تھی کئی بار ٹائپ کرانے پر بھی اس میں کئی غلطیاں تھیں پوچھا تو بتایا گیا کہ ہمارا انگریزی سے کیا تعلق۔ ہم تو ہر کتاب کا جاپانی میں ترجمہ کرا کے ایک ماہ میں تمام جامعات کو فراہم کردیتے ہیں۔
ہمارے یہاں ضرورتاً کچھ افراد کو انگریزی سکھائی جاتی ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ انجمن کا کام اب یہ ہونا چاہیے کہ تمام علوم کا اردو میں ترجمہ کرائیں تاکہ نفاذ اردو کو ممکن بنایا جاسکے۔ صدر محفل سحر انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید کا دو سو سالہ جشن ولادت بہترین موقعہ ہے جس کو جامعہ کراچی اور انجمن ترقی اردو نے بے حد یادگار بنایا۔ سرسید کے کارناموں پر بے حد متنوع کام ہوا ہے مگر اب بھی بے شمار گوشے ہیں جن پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ جامعہ کراچی پر تو یہ قرض تھا کیونکہ جامعہ کراچی کے بیشتر اولین اکابرین کا تعلق علی گڑھ سے رہا ہے خاص کر شعبہ اردو کا۔ انجمن ترقی اردو پر بھی سرسید پر کام کرنا واجب تھا۔ سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ علمی و تعلیمی آگاہی ہے۔ اردو کی نئی بستیاں کسی حکومت نے نہیں بسائیں یہ اردو کی طاقت ہے ۔ بعد میں مہمانوں کو انجمن کی شایع کردہ کتب بطور تحفہ پیش کی گئیں۔