کرپشن کے خلاف ایک پیچیدہ جنگ

رقوم کی منتقلی کے حتمی شواہد کے بغیر عدالت میں جرم ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے


اکرام سہگل November 04, 2017

پاکستان ایکشن پلان کی متعین حدود میں منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالیاتی معاونت کا تدارک کے اقدامات کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)سے ہم آہنگی مسلسل ایک مسئلہ رہی ہے۔

31 اکتوبر کوعالمی اقتصادی فورم کے ذیلی ادارے "Partnering Against Corruption Initiative" (پی اے سی آئی)کے جنیوا میں منعقدہ اجلاس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ جب تک بین الاقوامی معیارات پر اتفاق نہیں ہوجاتا، قوانین کامؤثر اطلاق ممکن نہیں۔ جب ابھرتی معیشتوں میں تحقیق اور تفتیش کے طور طریقے اور ذرایع فرسودہ ہوں، اثاثوں کے ٹھوس ثبوت اور رقوم کی منتقلی کے حتمی شواہد کے بغیر عدالت میں جرم ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔اس نوع کے اثاثے عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں رکھے جاتے ہیں۔ یہ ممالک قانون کی حکمرانی کے سب سے بڑے داعی ہیں،مگر کرپشن کے خلاف تفتیش میں اپنے عدم تعاون اوراس اخلاقی ضابطوں پر عمل درآمد نہ کرکے (جس کے وہ خود دعویدار ہیں) آخر وہ کس اندازِ فکر کو فروغ دے رہے ہیں؟المیہ یہ ہے کہ سیاسی اثرورسوخ اور کھلم کھلا رشوت خوری نے تفتیش اور جانچ پڑتال کے عمل کو مزید کمزور کر دیا ہے۔

پاناما لیکس میں جب انکشاف ہوا کہ میاں نواز شریف اور ان کے بچے آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں بنائی جانے والی مہنگی جائیدادوں کے مالک ہیں، توملک میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ آف شور کمپنیاں غیرقانونی نہیں، مگر غیراخلاقی ضرور تصور کی جاتی ہیں، اس لیے کہ یہ ٹیکس قوانین میں موجود سقم کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد غیرقانونی جائیداد اور منی لانڈرنگ کو چھپانا ہوتا ہے،جسے غیرقانونی لین دین میں برتا جاسکے۔ گواِس نوع کے اثاثوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے ادارے رکاوٹ بنے، مگر سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی تمام تر مسائل کے باوجود ٹھوس شواہد اکٹھے کرنے میں کامیاب رہی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی ہدایت پر اینٹی کرپشن کورٹ کی کارروائی اور شریف خان کی نظر ثانی اپیل خارج کرنے کے اقدام کوپی اے سی آئی کے ارکان نے دلیرانہ اقدام قرار دیتے ہوئے سراہا۔

پی اے سی آئی نے کرپشن کی تفتیش میں برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک سے معلومات کے حصول میں حائل مشکلات (اور کبھی کبھی ناممکنات) کو کم کرنے پر بھی زور دیا۔یہ رویہ ان ممالک کے قانون کی حکمرانی کے دعووںاور وعدوں سے یکسر متصادم ہے۔ سب کو خبر ہے، ہائیڈ پارک، لندن کے اسکوائر میل کے علاقے میں واقع مہنگے اپارٹمنٹس وائٹ کالر مجرموں سے بھرے پڑے ہیں، جن میں سابق آمر، بینک ڈیفالٹرز، ٹیکس چور اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد شامل ہیں۔ سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی مئی 2016ء کی کرپشن سے نمٹنے سے متعلق انٹرنیشنل لندن کانفرنس بہت چرچا ہوا تھا، اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ مجرمانہ سرگرمیوں پر پردہ ڈالنا سراسر منافقت ہے۔

گو کہ کبھی یہ ناممکن تھا، مگر آج سوئٹزرلینڈ بھی اپنے بینک کسٹمرز کی تفصیلات فراہم کر رہا ہے۔عالمی مارکیٹ میں کرپشن کے سدباب کے لیے تمام ذرایع اور طورطریقوں کو برتتے ہوئے کوآرڈی نیشن پر مبنی بروقت اور تیز رفتارتعاون درکار ہے۔دستیاب جدید ٹیکنالوجی بلاشبہہ موثر ہے، لیکن اگر انھیں استعمال کرنے والے افراد مخلص اور دیانت دار نہ ہوں، تو اس کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قانون میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے اخلاقی معیارات سے متصادم اور نقصان دہ تجارتی معاہدے درست قرار دے دیے جاتے ہیں۔ قانون اور اخلاق کے مابین ربط پیدا کرنے کے لیے کاروباری دنیا اور عوامی عہدوں پر فائز افراد کے لیے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

عالمی اقتصادی فورم سے منسلک پی اے سی آئی اپنی نوعیت کی منفرد بین الاقوامی تنظیم ہے، جو شفافیت اور کرپشن کی روم تھام کے لیے ایک عالمی بزنس فورم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔

پی اے سی آئی تنظیمی سطح پر قواعد کے اطلاق اور کاوشوں کو عملی شکل دینے کے زیادہ محفوظ اور منفرد مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پی اے سی آئی کاروباری معیارات بڑھانے کے ساتھ ساتھ صحت مند مسابقتی ماحول، شفافیت، جوابدہی اور دیانتدارای کے اصولوں پر مبنی سوسائٹی کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔ مجھے''دنیا میں اعتماد اور سالمیت پرپھر ازسر نو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت'' کے موضوع پر بطور مقرر اظہار خیال کرنے کا موقع ملا۔ اس نشست کی میزبانی پی اے سی آئی کے سربراہ راما کرشنا وامی کر رہے تھے۔

پی اے سی آئی کے ایک اور پراجیکٹ ''باہمی اعتماد اور سالمیت کا مستقبل''، کے موضوع پر ہونے والی نشست میں میزبانی کے فرائض ازابیل کین نے انجام دیے۔ اس نشست میں کاروباری اداروں کے مابین اعتماد سازی، بھروسے اور فروغ کے لیے نچلی سطح پراقدامات سے متعلق معلومات فراہم کی گئی۔ تیسرے سیشن میں ''پبلک پرائیویٹ کارپوریشن سے اثر پذیری میں اضافہ''پر بات ہوئی جب کہ چوتھے سیشن میں ''بیسل انسٹی ٹیوٹ آف گورنس'' کی گیما ایولفنی نے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے تعاون اور اس سے متعلق پائے جانے والے ابہام کے موضوع پر سیرحاصل گفتگو کی۔ پینی لوپ ڈرائی اور ان کے معاون ڈیلو ایٹی نے ''اینٹی کرپشن اور چوتھا صنعتی انقلاب'' کے موضوع پر ہونے والی نشست کی میزبانی کی۔ اس سیشن میں ٹیکنالوجی سے متعلق سامنے آنے والی رکاوٹوں کا ذکر ہوا۔ یہ واضح ہوا کہ ایجادات کس طرح منظر نامہ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کے ذریعے احتساب اور گورننس کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ پی اے سی آئی بلاشبہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ''عمل درآمد کے شعبوں'' کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے وسیع اختیارات کوسامنے لانے میں کامیاب رہی ہے۔

ایک طاقتور وزیر اعظم کی عہدے سے برطرفی نے اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کو تقویت پہنچائی ہے۔ اس تفتیش کا پیغام واضح ہے کہ کہ کوئی بھی شخص قانون کے دائرے سے باہر نہیں۔ ہر شخص کا احتساب ہوگا۔عدالتی کارروائی میں ''الکپون فارمولے'' کا اطلاق موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا، تفتیشی عمل میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے یہ ضروری بھی تھا ۔عدلیہ، بیوروکریسی اور ملٹری سمیت تمام اداروں کا کڑا احتساب اس نظام کی ساکھ بحال کرسکتا ہے، جرائم پیشہ اور بدعنوان افراد کو تحفظ فراہم کرنے سے جس پر کئی سوال کھڑے کیے جاتے ہیں۔قومی سلامتی کے انتہائی تقاضے اپنی جگہ، مگرہر شخص عوامی احتساب کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔ یہ عمل اوپر سے شروع کرنا ہوگا، بالخصوص ان افراد سے، جو بڑے گھپلوں میں ملوث ہیں۔

جمہوریت کی افادیت اپنی جگہ، مگر اسے بااثر افراد کے جرائم کا پردہ نہیں بننا چاہیے۔ اپریل 2011ء میں گارڈین میں شایع ہونے والے آرٹیکل میں بلال حسین نے طنزاًلکھا تھا؛ یوں تو کئی ممالک کرپٹ ہیں، مگر کم از کم وہ اس کی اہلیت تو رکھتے ہیں۔'' آج ایک خوفناک قسم کی نااہلی پاکستان کے نظام حکومت میں سرایت کر گئی ہے۔رشوت، بددیانتی اور سفارش کی وجہ سے ہماری سول بیوروکریسی کا نچلا طبقہ کم تعلیم یافتہ اور نااہل افراد سے بھر گیا ہے۔''

نااہل اور کرپٹ حکمران اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں مزید یرغمال بنا رہنا اب ناقابل قبول ہے۔ کرپشن کے خلاف اقدامات کو موثر بنانے کے لیے پی اے سی آئی کی ''اعتماد اور سالمیت''کی شرائط کو کردار اور اخلاقیات سے جوڑنا ضروری ہے۔آج بدعنوانی کے خلاف اِس پر پیچ''بائبرڈ وار'' میں ہمیں کارپوریٹ انداز میں اپنے تمام سول اور ملٹری ذرایع استعمال کرنے ہوں گے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں